مضمون کی سرخی پڑھ کر آپ یقینا چونک اٹھے ہوں گے، مگر جی ہاں صحیح پڑھا آپ نے، اور بالکل ہوش وحواس میں ہی میرا بھی ہاتھ خامہ فرسائی کی جرأت کررہا ہے۔ آپ کو بخوبی یاد ہوگا کہ لاک ڈاؤن کا پہلا مرحلہ تھا، کچھ ایک ہفتہ ہی گزرا تھا، سارے مساجد بند، سارے جلسے مسترد، سارے دینی محفلیں غیر معینہ مدت تک کے لیے ملتوی۔ مگر کچھ لوگ بے چارے بے چارے مرکز میں پھنس گئے تھے، لاک ڈاؤن اور کرفیو کی وجہ سے انتظامیہ بھی زیادہ توجہ دینے سے چوک گئی اور کرفیو پاس مانگے جانے پر بھی پاس فراہم نہ کراسکی، مجبوراً ان لوگوں کو وہیں مرکز میں ٹھہرنا پڑا دو چار دن تو کسی طرح گزر گئے مگر ایک دن ضمیر فروش میڈیا کی نظر اس پہ پڑ گئی پھر کیا تھا بھئی ہر چہار جانب مرکز، جماعتی، مسلمان کورونا پھیلاتے نظر آنے لگے، کبھی نرسوں کے ساتھ بدسلوقی کرتے تو کبھی ڈاکٹروں کو ڈنڈے مارتے تو کبھی پولیس اور انتظامیہ پر حملہ کرتے۔ نفرت کے شعلے اتنے بھڑکائے گئے کہ بے چارے سیدھے سادے وطنی برادران نے مسلمانوں کو ہی کورونا سمجھ لیا، ان سے سماجی رابطے موقوف کرنے کی بجائے بلکل منقطع کرنا شروع کردیا، ان سے سبزیاں تک خریدنے سے منع کردیا حتی کہ بعض پست ذہن اور نیچی سوچ والوں نے کچھ مسلم سبزی کے ٹھیلے والوں کو مار کر ہندو اکثریتی علاقے بھگا دیا۔ غرض کہ مسلمان "کورونا” کا دوسرا نام بن گیا۔ مگر واہ رے قدرت تیرے کرشمے بھی نرالے ہیں کچھ ہی دنوں میں سارے من گڑھت میڈیائی افسانوں کی بکھیاں ادھڑ گئیں۔ اور حد تو یہ کہ پلازمہ تھیریپی میں مسلمانوں نے ہی خون دے کر کئی ایک کورونا مریضوں کی جان بچائی۔
اب چوں کہ لاک ڈاؤن کے تیسرے مرحلے میں حکومت نے عوام کو کئی طرح کے چھوٹ دے دئے۔ اب چھوٹ کن کن کاموں میں ملی یہ الگ بات ہے مگر ایک چیز کی ایسی چھوٹ دی گئی کہ سوشل ڈسٹینسنگ کی ایسی دھجیاں اڑیں کہ پوچھو مت، عقل کے ماروں نے کیا ظلم کیا کہ شراب کی دوکانیں کھولنے کی اجازت دے دی۔ پھر کیا ہونا تھا شرابیوں کی ٹھاٹھیں مارتا جم غفیر سڑکوں پر اتر آیا اور ایسے لائن میں لگ گیا جیسے آب حیات بٹ رہا ہو؛ بالکل قریب قریب اتنے متصل کر کہ دو شخصوں کے درمیان مکھی کا بھی گزر نہ ہو چہ جاے کہ ایک میٹر کا فاصلہ۔
رہا سوال کہ اس سے دلت ہندو برادران کا کیا تعلق؟ تو واضح کردوں کہ رمضان المبارک کا پاکیزہ مہینہ چل رہا ہے، اور ایک مسلمان چاہے اس کی ضمیر بالکل ہی مر کیوں نا گئی ہو مگر وہ رمضان کی تقدس کا پاس ولحاظ ضرور کرتا ہے اور شراب کو ہاتھ لگانے کی سوچ بھی نہیں سکتا پھر سر عام قطار میں کھڑے ہوکر شراب کی بوتل لینے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا لہذا یہ بات تو صاف ہوگئی کہ مسلمان طبقہ سماجی رابطے کی دھجیاں اڑاتے ان شرابیوں میں شامل نہیں ہوسکتے۔ اب بچے دلت اور اعلی نسب ہندو برادران تو ماضی قریب وبعید کی تاریخ میں سیاہ قلموں سے یہ بات کندہ ہے کہ اعلی نسب کبھی بھی کسی غلط کام میں ملوث شمار نہیں کئے جاتے یا تو مسلم طبقہ یا پھر دلت ہندو۔
اب چوں کہ ضمیر فروش میڈیا ان شرابیوں کی وجہ سے پھیلائے جارہے کورونا وائرس کا ذمہ دار مسلم سماج پہ تو قطعی نہیں مڑھ سکتی ورنہ منہ کی کھانی پڑے گی، اور اعلی نسب ہندوؤں کو اس میں شامل کرنے سے انھیں پاپ لگے گا، لہذا اب بچے دلت ہندو، کہیں ایسا نہ ہو کہ مرکز کی طرح سارا کا سارا مسئلہ دلت سماج پر تھوپ دیا جائے!! اس لیے دلتوں کو بھی ہوشیار رہنا ہوگا، ورنہ میڈیا کی لگائی نفرت کی آگ میں گھی ڈالنے والے دلت خود اسی آگ میں جلنے لگیں گے اور اعلی نسب سمجھے جانے والے اپنے محلوں میں بیٹھ کر تماشہ دیکھیں گے۔۔۔۔۔۔
ماشاء اللہ
حالات کے پیش نظر چشم کشا تحریر۔
اللہ قلم کو مزید توانائی بخشے۔
ما شاء اللہ بہت عمدہ مضمون ہے اس پر کچھ خامہ فرسائی کرنا آفتاب کو آنکھ دکھانے کے مانند ہے بس رب کی بارگاہ میں دعاگو ہوں مولی تعالی آپکو مزید ترقیوں سے نوازے۔آمین ۔
آمین۔ بہت شکریہ، محترم
ما شاء اللہ بہت عمدہ مضمون ہے اس پر کچھ خامہ فرسائی کرنا آفتاب کو آنکھ دکھانے کے مانند ہے بس رب کی بارگاہ میں دعاگو ہوں مولی تعالی آپکو مزید ترقیوں سے نوازے۔آمین ۔محمد نثار نظامی
بجا فرمایا آپ نے۔
ماشاءاللہ اچھا مضمون ہے