تحریر: محمد قمر انجم قادری فیضی
یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ جس قدر فضیلت اہمیت حقوق اللہ کی ہے اس سے بڑھ کرحقوق العباد کی ادائیگی کی ہے عموماََ یہ دیکھا جاتاہے کہ انسان حقوق خداوندی کی ادائیگی میں کافی مستعد نظر آتاہے لیکن جب بندوں کے معاملات اور انکے حقوق کا مرحلہ آتاہے تو وہ یا تو ان سے کلیتاََ کترا جاتاہے یا اگر کسی طرح سے ان کی انجام دہی کی جانب مائل ہوتا بھی ہے تو بادل نخواستہ اکثر معاملات اور مرحلوں پر ذاتی اغراض ومقاصد کام کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
حالانکہ احکام خداوندی اور حقوقِ ربانی جس قدر زیادہ اہمیت وافادیت کے حامل ہیں حقوق العباد ان سے کچھ کم نہیں، بلکہ بعض تصریحات سے تویہ پتہ
چلتاہے کہ انسان احکام الہی اور حقوق خداوندی کی تعمیل پورے طور پر پورے ذوق وشوق کےساتھ مکمل
اطاعت وبندگی کے ساتھ کرتاہے لیکن دوسری جانب اسکے سلوک وبرتاؤسے بندگان خدا کو ایذاء پہنچتی ہوتو اسکے یہ سارے اعمال حسنہ بےفائدہ ہوجاتے ہیں اور کوئی نتیجہ بھی برآمد نہیں ہوتاہے بلکہ وہی اعمال حسنہ الٹا وبال جان بن جاتےہیں،اس لئے حقوق العباد اور حقورخداوندی دونوں لازم وملزوم ہیں دونوں کا حق ادا کرنا ضروری ہے اور دونوں میں ایک گہرا تعلق پایا جاتا ہے ،ایک مومن جب خدائے تعالی کی اطاعت کرتاہے اسکے ہرفیصلے کو برضا ورغبت تسلیم کرلیتاہے تو یہ کیوں کر ہوسکتا ہے کہ وہ بندگان خداکے حقوق کو تلف کرے اور ان کو کوئی تکلیف وایذاء پہنچائے،
روزہ جہاں انسان کو احکام خداوندی کا مطیع و فرمانبردار بناتاہےتعلیمات نبوی کی تعمیل کرنے کی ٹریننگ دیتاہے وہیں بندگان خدا کےساتھ ہمدردی ،محبت واخوت اور بھائی چارگی کی تریبت بھی دیتاہے انکے حقوق کا لحاظ کرنےکی جانب توجہ مبذول کراتاہے تکلیف وایذاء کے بجائے ہمدردی وغم خواری کے وسیع تر جذبات کو مزید ابھارتاہے
تاکہ ہَوس وخواہشات کا یہ پتلا بجائے ذاتی فوائد مصالح سوچنے کے ساری انسانیت کے فوائد اور بھلائی
کی خاطر سوچ سکے اس لئے اس ماہ میں صدقہ فطر
متعین کیا گیا ہے جسکی تعیین کا جہاں یہ مقصد ہے کہ روزہ داروں سے جو کوتاہیاں اور غلطیاں رہ گئی
ہیں انکے لئے کفارہ بن سکیں، وہیں اسکے متعین ہونے کی اصلی غایت یہ بھی ہے کہ اس سے غرباء مساکین فقراء کا بھلا مقصود ہےاور آج معاشی بحران میں جو انسانیت مبتلا ہے وہ باآسانی ختم ہوسکتاہے،
غریبوں کے ساتھ حسن سلوک کے حوالے سے نصیحت،اور یونہی ہم نے ان میں بعض کی دوسروں کے ذریعے آزمائش کی کہ یہ کہیں کیا یہ لوگ ہیں جن پرہمارے درمیان میں سے اللہ نے احسان کیا ؟کیا اللہ شکر گزاروں کو خوب نہیں جانتا؟
اس سے معلوم ہوا کہ امیری و غریبی کو حق کا پیمانہ قرار نہیں دیا جاسکتا،نیز سابقہ آیت کے شانِ نزول اور اِس آیت کے درس سے بہت سے مذہبی لوگوں اور خود امیروں کو بھی درس حاصل کرنا چاہیے کیونکہ ہمارے زمانے میں بھی یہ رحجان موجود ہے کہ اگر امیر آتا ہے تو اس کی تعظیم کی جاتی ہے جبکہ غریب کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ غریب کی دل شکنی کی جاتی ہے اور امیر کے آگے بچھے بچھے جاتے ہیں اور خود امیروں کی یہ تمنا ہوتی ہے کہ ہمیں ذرا ہٹ کر ڈِیل کیا جائے اور ہمارے لئے اسپیشل وقت نکالا جائے اور ہمارے آنے پر مولوی آدمی ساری مصروفیت چھوڑ کر اس کے پیچھے پھرتا رہے۔ غریب آدمی پاس بیٹھ جائے تو امیر اپنے سٹیٹس کے خلاف سمجھتا ہے ، اُسے غریب کے کپڑوں سے بُو آتی ہے ،غریب کا پاس بیٹھنا اُس کی طبیعت خراب کردیتا ہے، غریب سے ہاتھ ملانا اُس امیر کے ہاتھ پر جراثیم چڑھا دیتا ہے۔ الغرض یہ سب باتیں غرور وتکبر کی ہیں ،ان سے بچنا لازم وضروری ہے۔
اعلیٰ حضرت اور ایک مغرور امیر۔ ایک صاحب اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہِ تعالیٰ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوا کرتے تھے اورآپ بھی کبھی کبھی ان کے یہاں تشریف لے جایا کرتے تھے ۔ ایک مرتبہ آپ اُن کے یہاں تشریف فرما تھے کہ ان کے محلے کا ایک بے چارہ غریب مسلمان ٹوٹی ہوئی پرانی چارپائی پر جو صحن کے کنارے پڑی تھی جھجکتے ہوئے بیٹھا ہی تھا کہ صاحبِ خانہ نے نہایت کڑوے تیوروں سے اس کی طرف دیکھنا شروع کیا یہاں تک کہ وہ ندامت سے سر جھکائے اٹھ کر چلا گیا۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالی علیہ کو صاحبِ خانہ کی اس مغرورانہ روش سے سخت تکلیف پہنچی مگر کچھ فرمایا نہیں ، کچھ دنوں بعد وہ صاحب اعلیٰ حضرت رحمۃاللہِ تَعَالٰی عَلیہ کے یہاں آئے تو آپ نے اسے اپنی چارپائی پر جگہ دی۔ وہ بیٹھے ہی تھے کہ اتنے میں کریم بخش حجام اعلیٰ حضرت رحمۃاللہ تعالی علیہ کا خط بنانے کے لئے آئے، وہ اس فکر میں تھے کہ کہاں بیٹھوں ؟ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: بھائی کریم بخش! کیوں کھڑے ہو؟ مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں اور ان صاحب کے قر
یب بیٹھنے کا اشارہ فرمایا۔ کریم بخش حجام ان کے ساتھ بیٹھ گئے ۔اب ان صاحب کے غصہ کی یہ کیفیت تھی کہ جیسے سانپ پھنکاریں مارتا ہو اور فوراً اٹھ کرچلے گئے پھر کبھی نہ آئے۔اپنی عادتوں پر غور کرکے ایک مرتبہ پھر اس آیت کا ترجمہ دیکھ لیں ، فرمایا: اور یونہی ہم نے ان میں بعض کی دوسروں کے ذریعے آزمائش کی تاکہ یہ مالدار کافر غریب مسلمانوں کو دیکھ کر کہیں :کیا یہ لوگ ہیں جن پرہمارے درمیان میں سے اللہ نے احسان کیا؟کیا اللہ شکر گزاروں کو خوب نہیں جانتا؟
یتیموں کا مال ناحق کھانے کی وعیدیں
احادیثِ مبارکہ میں بھی یتیموں کا مال ناحق کھانے پر کثیر وعیدیں بیان کی گئی ہیں ان میں سے 3 وعیدیں درجِ ذیل ہیں
حضرت سیدنا بریدہ رضی المولی عنہ سے روایت ہے، حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نےارشاد فرمایا،قیامت کے دن ایک قوم اپنی قبروں سے اس طرح اٹھائی جائے گی کہ ان کے مونہوں سے آگ نکل رہی ہو گی۔عرض کی گئی ،یا رسول اللہ صلی اللہ تَعالی علیہ والہ وسلم، وہ کون لوگ ہوں گے؟ ارشاد فرمایا،کیا تم نےاللہ تعالیٰ کے اس فرمان کو نہیں دیکھا، اِنَّ الَّذِیْنَ یَاْكُلُوْنَ اَمْوَالَ الْیَتٰمٰى ظُلْمًا اِنَّمَا یَاْكُلُوْنَ فِیْ بُطُوْنِهِمْ نَارًا وَسَیَصْلَوْنَ سَعِیْرًا،
بیشک وہ لوگ جو ظلم کرتے ہوئے یتیموں کا مال کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹ میں بالکل آ گ بھرتے ہیں اور عنقریب یہ لوگ بھڑکتی ہوئی آگ میں جائیں گے۔
حضرت سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہُ تعالی عنہ سے روایت ہے، رسولِ اکرم صلی اللہ تعالی علیہ واٰلہ وسلم نے ارشاد فرمایا،میں نے معراج کی رات ایسی قوم دیکھی جن کے ہونٹ اونٹوں کے ہونٹوں کی طرح تھے اور ان پر ایسے لوگ مقرر تھے جو ان کے ہونٹوں کو پکڑتے پھر انکے مونہوں میں آگ کے پتھر ڈالتے جو ان کے پیچھے سے نکل جاتے۔ میں نے پوچھااے جبرائیل عَلیہ السّلام یہ کون لوگ ہیں ؟ عرض کی:یہ وہ لوگ ہیں جو یتیموں کامال ظلم سے کھاتے تھے۔
حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے،حضورنبی کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا، چار شخص ایسے ہیں جنہیں جنت میں داخل نہ کرنا اور اس کی نعمتیں نہ چکھانا اللہ تعالیٰ پر حق ہے۔1شراب کا عادی۔2-سود کھانے والا3-ناحق یتیم کا مال کھانے والا۔4 والدین کا نافرمان۔
یتیم کا مال کھانے سے کیا مراد ہے
یتیم کا مال ناحق کھانا کبیرہ گناہ اور سخت حرام ہے۔ قرآنِ پاک میں نہایت شدت کے ساتھ اس کے حرام ہونے کا بیان کیا گیا ہے۔ افسوس کہ لوگ اس میں بھی پرواہ نہیں کرتے۔ عموماً یتیم بچے اپنے تایا، چچا وغیرہ کے ظلم و ستم کا شکار ہوتے ہیں ، انہیں اِس حوالے سے غور کرناچاہیئے۔ یہاں ایک اور اہم مسئلے کی طرف توجہ کرنا ضروری ہے وہ یہ کہ یتیم کا مال کھانے کا یہ مطلب نہیں کہ آدمی باقاعدہ کسی بری نیت سے کھائے تو ہی حرام ہے بلکہ کئی صورتیں ایسی ہیں کہ آدمی کو حرام کا علم بھی نہیں ہوتا اور وہ یتیموں کا مال کھانے کے حرام فعل میں مُلوث ہوجاتا ہے جیسے جب میت کے ورثاء میں کوئی یتیم ہے تو اسکے مال سے یا اسکے مال سمیت مشترک مال سے فاتحہ تیجہ وغیرہ کا کھانا حرام ہے کہ اس میں یتیم کا حق شامل ہے، لہٰذا یہ کھانے صرف فقراء کیلئے بنائے جائیں اور صرف بالغ موجود ورثاء کے مال سے تیار کئے جائیں ورنہ جو بھی جانتے ہوئے یتیم کا مال کھائے گا وہ دوزخ کی آگ کھائے گااور قیامت میں اس کے منھ سےدھواں نکےلگا
آخرت کو بُھلا دینے والے دنیا داروں کی مثال:
اور دنیا کی زندگی صرف کھیل کود ہے اور بیشک آخرت والا گھر ڈرنے والوں کے لئے بہتر ہے تو کیا تم سمجھتے نہیں ؟حکیم الامت مفتی احمد یار خاں نعیمی علیہ الرحمہ نے بڑی پیاری بات ارشاد فرمائی ، چنانچہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ، دنیا کی زندگی وہ ہے جو نفس کی خواہشات میں گزر جائے اور جو زندگی آخرت کے لئے توشہ جمع کرنے میں صَرف ہو، وہ دنیا میں زندگی تو ہے مگر دنیا کی زندگی نہیں لہٰذا انبیاء و صالحین کی زندگی دنیا کی نہیں بلکہ دین کی ہے۔ غرضیکہ غافل اور عاقل کی زندگیوں میں بڑا فرق ہے۔
امام غزالی علیہ الرحمہ نے اس بات کو بڑے پیارے انداز میں سمجھایا ہے چنانچہ کیمیائے سعادت میں آپ ارشاد فرماتے ہیں:دنیا داروں کا دنیوی کاروبار میں مشغول ہو کر آخرت کو بھلا دینے کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی گروہ کشتی میں سوار ہوا اور وہ کشتی کسی جزیرے پر جا کر رُکی، لوگوں نے اس موقع کو غنیمت جانا اور ضروری حاجات سے فارغ ہونےکے لئے جزیرے پر اتر گئے۔ ملاح نے اعلان کیا: یہاں زیادہ دیر نہیں رکیں گے لہٰذا وقت ضائع کئے بغیر صرف طہارت وغیرہ سے فارغ ہو کر جلدی واپس پلٹیں۔ جزیرے میں اترنے کے بعد *لوگ تین گروہوں میں تقسیم ہو گئے:
کچھ لوگ جزیر ے میں سیر و سیاحت اور اس کے عجائبات دیکھنے میں ایسے مشغول ہوئے کہ انہیں کشتی میں واپس آنا یاد نہ رہا حتّٰی کے وہیں بھوک پیاس سے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر گئے اور درندوں کی غذا بنے۔
عقلمند لوگ اپنی حاجات سے جلدی فارغ ہو کر کشتی میں اپنی من پسند جگہ پر آکر بیٹھ گئے۔
کچھ لوگ جزیرے کے انوار اور عجیب و غریب قسم کے پھولوںغنچوں ، شگوف
وں ، وہاں کے پرندوں کے اچھے نغمات سنتے اور وہاں کے قیمتی پتھروں کو دیکھتے رہ گئے اور ان میں سے بعض ایسے بھی تھے کہ جنہوں نے صرف دیکھنے پر ہی اِکتفا نہ کیا بلکہ وہاں سے بہت سی چیزیں اپنے ساتھ اٹھا لائے۔ اب کشتی میں مزید جگہ تنگ ہوئی تو اپنے ساتھ لانے والی اشیاء کو کشتی میں رکھنے کی جگہ نہ پا سکے تو مجبوراً انہیں سروں پر اٹھانا پڑا۔ ابھی دو دن ہی گزرے تھے کہ ان اشیاء کی رنگت میں تبدیلی شروع ہو گئی اور خوشبو کی بجائے اب بدبو آنے لگی ،اب انہیں کہیں پھینکنے کی جگہ بھی نہ تھی نادم و پشیمان اسی طرح اپنے سروں پر اٹھانے پر مجبور تھے۔
پہلے گروہ کی مثال کفار و مشرکین اور بد عقیدہ لوگوں کی ہے جنہوں نے اپنے آپ کو کلی طور پر دنیا کے سپرد کر دیا اور اسی کے ہو کر رہ گئے ،اللہ تعالیٰ اور یومِ آخرت کو فراموش کردیا، انہوں نے دنیا کی زندگی کو آخرت کے مقابلے میں محبوب رکھا۔
دوسرا گروہ ان عقلمندوں کا تھا جسے مومنین سے تعبیر کیا گیا، وہ طہارت سے فارغ ہوتے ہی کشتی میں سوار ہوئے اور عمدہ سیٹوں کو پا لیایعنی جنت کے مستحق ہوئے۔تیسرے گروہ کی مثال خطاکاروں کی ہے کہ انہوں نے ایمان کو تو محفوظ رکھا مگر دنیا میں ملوث ہونے سے بچ نہ سکے،
اللہ تعالیٰ ہم سبھی حضرات کوغرباء مساکین کے ساتھ حسن سلوک کرنےکی توفیق بخشے، اورزیادہ سے زیادہ انکی خدمات کرنےکی توفیق بخشے۔ آمین ثم آمین