امت محمدیہ کا خاصہ: رمضان کی راتوں میں سہولت

بلاشبہ رمضان المبارک کا روزہ مذہب اسلام کے بنیادی پانچ ارکان میں سے ایک عظیم رکن ہے، جس کی فرضیت روز روشن کی طرح عیاں ہے؛ ہر مکلف مسلمان مرد و عورت سب پر اس کے روزے فرض ہیں فرمان باری تعالی ہے
 یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ 
اے ایمان والوں تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں۔ اور ایسا بھی نہیں کہ روزے صرف اسی امت پر فرض کیے گئے بلکہ ہم سے پہلے امتوں پر بھی روزے فرض تھے۔جیسا کہ خود قرآن کا آگے بیان ہے
کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ۔سورہ البقرہ:183
 مگر ان امتوں کا روزہ بہت سخت ہو تا تھا۔انہیں شام کے وقت صرف افطار کرنے کی اجا زت تھی اس کے بعدنہیں، مطلب یہ کہ اگر کو ئی شخص افطاری کے بعد سو جا تا تو اس کے لیے اب جائز نہ تھا کہ کچھ کھا ئے پیئے، اپنی بیوی سے ہم بستر ہو یعنی ان کے یہاں سحری کا کو ئی تصور نہ تھا، اور ابتداے اسلام میں جب مسلما نوں پر روزہ فرض ہواتو ان پر بھی یہی حکم تھا، جس سے مسلمان بھی پریشانی کا شکار ہو تے، اس لیے اللہ ارحم الراحمین نے اس امت پر رحم فر ما تے ہو ئے بعد افطا ر سے طلوع فجر تک کھا نے پینے اور دیگر مفطرات کی اجازت دے دی۔
چنا نچہ حضرت برا بن عا زب رضی اللہ عنہ حضرت قیس بن صرمہ انصاری رضی اللہ عنہ کا واقعہ بیان فر ما تے ہیں کہ وہ رو زہ تھے اور دن بھر کھیتوں میں کام کرتے رہے،جب افطار کا وقت ہوا تو گھر لوٹے اور بیوی سے کھا نا دریا فت کیا، بیوی نے جواب دیا: ابھی تو کھا نے کو کچھ نہیں ہے مگر رکیے میں کچھ انتظام کرتی ہوں۔چو نکہ وہ کام کر کے دن بھر کے تھکے ہو ئے تھے اس لیے لیٹے تو نیند آ گئی جب ان کی بیوی آ ئیں اور انہیں سو تے ہو ئے دیکھا تو کہنے لگیں:آپ کا بڑا خسا رہ ہوا (اس طرح انہوں نے دوسرے دن بغیر کچھ کھا ئے پیے روزہ رکھا اور کام پر چلے گئے) مگر دوسرے دن ابھی دوپہر نہیں ہوئی کہ شدت بھوک کی وجہ سے غشی آگئی اور آپ گرپڑے۔ جب اس کا تذکرہ نبی کریمﷺ کے پاس ہوا تو یہ آیت کریمہ نازل ہوئی
اُحِلَّ لَکُمْ لَیْلَۃَ الصِّیَامِ الرَّفَثُ اِلٰی نِسَاءِکُمْ……الخ  سورہ البقرہ:187
روزہ کی راتوں میں اپنی عورتوں کے پاس جانا تمہارے لیے حلال ہو، وہ تمہاری لباس ہیں اور تم ان کے لباس، اللہ نے جانا کہ تم اپنی جانوں کو خیانت میں ڈالتے تھے تو اس نے تمہاری توبہ قبول کی اور تمہیں معاف فرمایا، تو اب ان سے صحبت کرو، اور طلب کرو جو اللہ نے تمہارے نصیب میں لکھا ہو، اور کھاؤ اور پیؤ، یہاں تک کہ تمہارے لیے ظاہر ہوجائے سفیدی کا ڈورا سیاہی کے ڈورے سے پوپھٹ کر 
اتمواالصیام الی اللیل۔القرآن
پھر رات آنے تک روزے پورے کرو، اور عورتوں کو ہاتھ نہ لگاؤ جب تم مسجدوں میں اعتکاف سے ہو، یہ اللہ کی حدیں ہیں، ان کے پاس نہ جاؤ اللہ یوں ہی بیان کرتا ہے لوگوں سے اپنی آیتیں کہ کہیں انہیں پرہیزگاری ملے) اس طرح اللہ جل شانہ نے اس امت پر رحم فرماتے ہوئے بعد افطار سے طلوع فجر تک کھانے پینے اور دیگر مفطرات کی اجازت دے دی۔بخاری:1915
اور رب العالمین کا کرم رحمۃ للعالمین کی رحمت دیکھیں کہ رمضان کی راتوں میں (سحری) کھانا صرف جائز نہیں کیا بلکہ اس کی فضیلت بھی بیان کردی چنانچہ آپ نے فرمایا: فَصْلُ مَا بَیْنَ صِیَامِنَا وَصِیَامِ أَہْلِ الْکِتَابِ: أَکْلَۃُ السَّحَر یعنی ہمارے روزے اور اہل کتاب کے روزے کے درمیان سحری کھانے کا فرق ہے۔ متفق علیہ
نیز آپ نے فرمایا: تَسَحَّرُوْا فَإِنَّ فِی السَّحُوْرِ بَرَکَۃ۔سحری کھایا کرو، کیوں کہ سحری میں برکت ہے۔صحیح مسلم:1095

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے