اے سبوح وقدوس رب!! پلیزپلیز، ہم سے اپنی عبادت کا حق نہ چھین

تحریر: حافظ محمد ہاشم قادری مصباحی
یا اللہ یا رحمٰن یا رحیم یا الر حم الرحمین۔ بے شمار نعمتوں سے نواز نے والے رب العالمین،  نہ ہم تیرا شکر ادا کر سکتے ہیں اور نہ ہی کما حقہ تیری عبادت کرسکتے ہیں۔ تیرا لاکھوں لاکھ احسان و کرم ہے کہ تونے ہمیں اپنی عبادت کے لیے پیدا فر مایا اور عبادت کی توفیق بخشی،اے رب تو عظیم ہے۔اعلانِ کلامِ مجید،تر جمہ:ساتوں آسمان اور زمین اور سارے موجو دات جو ان میں ہیں اللہ کی تسبیح کرتے ہیں ۱ور(جملہ کائنات میں) کوئی بھی چیز ایسی نہیں جو اس کی حمد کے ساتھ تسبیح نہ کرتی ہو لیکن تم ان کی تسبیح(کی کیفیت) کو سجھ نہیں سکتے، بیشک وہ بڑ ابرد بار بڑ ا بخشنے والاہے۔(القر آن، سورہ،بنی اسرائیل،17:آیت44) اللہ کی یاد سے منھ موڑنا اللہ کی پکڑ کا سبب بنتا ہے۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس ایک بڑ۱ پروں والا کوا لایا گیا…آپ رضی اللہ عنہ نے ارشاد فر مایا:… جو شکار بھی پکڑا جاتا ہے… جو درخت بھی کاٹا جاتا ہے… اس کی وجہ ”تسبیح“ کا چھوڑ نا ہے… یعنی جو پرندہ تسبیح چھوڑ دیتاہے پکڑا جاتا ہے… یعنی جو پرندہ تسبیح چھوڑ دیتا ہے،پکڑا جاتاہے اور جو درخت”تسبیح“ چھوڑ دیتا ہے وہ کاٹ دیا جاتا ہے… یہی حال انسانوں کا ہے وہ پکڑے جاتے ہیں!۔
 پانچ دہا ئیوں کو پار کر کے پانچویں و چھٹی دہائی کے درمیانی عمر جی رہا ہوں الحمدُ للہ! زندگی میں بہت سے نشیب وفراز(پستی وبلندی) دیکھی6دسمبر 1992 کو خانہ خدا بابری مسجد کے شہید ہونے کی خبرBBC WORLD SERVICE سے دن میں ایک بجے سنی دل و دماغ میں دھچکا لگا،2 بجے دن میں پوری ساکچی مارکیٹ میں،بجرنگ دل،وشو ہندو پریشد والوں نے fax کی فوٹو کاپی بانٹ بانٹ کر خوشیوں کا اِظہار کرنا شروع کردیا،دل بیٹھ سا گیا دوکان بند کی گھر چلا آیا۔موبائل کا زمانہ نہیں تھا تھوڑی دیر بعد ہی خبر ملی کہ ہندو مسلم فساد شروع ہو گیا،دل کی عجیب کیفیت ہوئی،مغرب کی نماز مسجد غوثیہ(مدرسہ غوثیہ)  ذاکر نگر جمشید پورمیں ادا کی مسجد میں بہت رویا اور بھی بہت سے مسلمان رورہے تھے۔بعد نماز حافظ وقاری متقی پر ہیز گار عالمِ دین قاری فضل حق مصباحی نے مختصر تقریر کی دعا فر مائی رقت سے بھری دعا سے دل میں قدرے سکون حاصل ہوا،زندگی رواں دواں رہی طرح طرح کے حادثات کا سامنا ہوا، کبھی اسقدر رنج وغم سے نڈھال نہیں ہوا دوسرا بڑاحادثہ زندگی میں ہوا عالمی وبا کووڈ۔19 کی وجہ سے لاگو لاک ڈاؤن: کی وجہ کر27 مارچ2020 کو جب صحت و عافیت کے با وجود جمعہ کی نماز سے محرومی ہوئی دِل تڑپ گیا بلکہ اگر یہ لکھیں تو بیجا نہ ہو گا کہ دل کے ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے۔رات میں ہی دل کی کیفیت کو بذریعہ قلم مضمون لکھا:”نمازِ جمعہ جیسی عبادت سے محرومی!ہم سے کیا بھول ہوئی؟“ ہندو پاک کے اخبارات و ویب سائٹس میں شائع ہوا۔ اس حادثہ کا موجب عالمی وبا،کووڈ۔۹۱ بنی 9اپریل کا دن گزار”شبِ برات“ تھی تین نورانی راتوں میں ایک اہم رات جس میں اللہ کی رحمتیں اپنے بندوں پر جھما جھم برستی اور مغفرت کی نوید ملتی ہے۔ عالمی وبا کووڈ۔۹۱کی وجہ حفاظتی اقدام کے طور پر لاگو لاک ڈاؤن کی وجہ کر قبرستان نہ جانے اور مسجدوں میں بھی جاکر بار گاہِ الٰہی میں توبہ استغفارو عبادات پرپابندی۔ اللہ کی پناہ،اللہ کی پناہ، استغفرا للہ،مسجدوں میں ناجاکر گھروں میں عبادت ٹھیک ہے ولیکن جو سکون اللہ کے گھر مسجد میں میسر آتا ہے وہ اور کہاں؟ مسجدوں و قبرستانوں میں سنا ٹا،(خاموشی، ویرانی) دیکھ کر حیرت،سکتے کے عالم میں طرح طرح کی باتیں سوچتا رہا،اس بیچ کئی مضامین اخبارات و ویب سائیٹس کی زینت بنے۔رجب،شعبان،رمضان مہینوں کے کیا کہنے! خیالاتی،تصوراتی اُمید لیے کہ سب کمیوں کی تلافی آنے والے رمضان المبارک میں کی جائے گی۔رحیم وکریم،رحمن رحیم، کی رحمتوں،مہر بانیوں سے پُر اُمید رہتے ہوئے آگے کی سوچ ہی رہاتھا کہ14اَپریل 2020،لاک ڈاؤن: کی میعاد اور بڑھا دی گئی۔اِنَّاللّٰہٖ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔دل پر کیا گزری کچھ بتانے اور لکھنے کی ہمت نہیں،اپنی اور مسلمانوں کی اس محرومی پر بار گاہِ اِیز ِدی میں اِستغاثہ(فریاد، دعا،توبہ استغفار، نالش) پیش کرتا ہوں مولائے رحمن ورحیم وکریم،پلیز،پلیز،پلیز، ہمیں تونے جو عبادت کی نعمت سے سرفراز فر مایا ہے،ہمیں اس نعمت”عبادت“ سے محروم نہ فر ما؟ اس اِلتجا کے سوا اور کیا کر سکتا ہوں۔
رمضان المبارک کی اُمنگ، ٹھندا پڑتا جوش: بچپن سے ماہ رمضان کی آنے کی خوشی والدین کریمین و محلوں،گاؤں،شہروں میں دیکھتے آرہا ہوں،رمضان المبارک کے آنے کی جو اُمنگ،جوش، خوشی دیکھی وہ بیان سے باہر ہے،رمضان المبارک کی رونقیں،پل پل برستی رحمتیں،تراویح کی مبارک نماز جس میں قرآن مجید پڑھنا سننا،سحری،کھانا،افطار، کی خوشی، آخیر عشرے میں اعتکاف کی عبادت، شب قدر کی نعمت جو ہزار سال سے بہتر عبادت کی رات،الودع جمعہ، پھر زکوٰۃ وفطرہ اور عید کی تیاری پھر عید کی نماز وغیرہ وغیرہ۔جب سے میں نے لکھنا شروع کیا،الحمد للہ! اب تک 63 مضامین رمضان،روزہ،شبِ قدر،زکوٰۃ، فطرہ،تراویح وغیرہ پر لکھ چکا ہوں جو مختلف اخبارات و رسائل و ویب سائیٹس م

یں شائع ہوچکے ہیں ہر سال 8سے 10مضامین میں اِضافہ ہوتے رہتاہے۔رمضان سامنے آگیا،کیا لکھوں؟ کچھ سمجھ میں نہیں آرہا ہے۔ جو سالوں سال مسجدوں سے دور عبادتوں سے دور وہ بھی مسجدوں میں آکر اللہ کی یاد میں سجدہ ریز ہوجاتے ہیں،یہ یقیناً تو فیق الٰہی کی وجہ سے ہی ممکن ہوتی ہے۔تاریخ میں شاید پہلی بار رمضان کے دوران مسجدوں میں ساتھ ملکر نماز اور افطار کرنے پر اور ایک ساتھ جٹ کر عبادت کر نے پر روک لگائی جا رہی ہے، یہ کیوں کر ہوا سوچنے کی بات ہے۔

ارے…ارے… یہ کیا ہو گیا؟ ہم سے کیا بھول ہوگئی:جب ہمیں اپنی عبادت کے لیے ہی پیدا فر مایا، تو اب رب تبارک و تعالی ”سبوح قدوس“ نے مسجدوں میں تراویح اور دیگر عبادتوں،جمعہ جیسی اہم عبادت سے ہم کو دور کردیا،یا اللہ توبہ،یا اللہ توبہ۔   ؎لاج رکھ لے گنہگا روں کی٭یارحمن ہے تیرا یارب۔ اللہ کے صفاتی ناموں میں اُسکی تعریف وتوصیف بیان کی گئی ہے۔ جہاں رحمن ورحیم کا ذکر ہے وہیں ستارو غفارکا ذکر ہے۔قرآن مجید میں ہے۔تر جمہ: میرے بندوں کو خبر کردو کہ بیشک میں ہی بخشنے والا ہوں مہر بان ہوں اور بیشک میرا ہی عذاب درد ناک ہے۔(القرآن، سورہ،الحجر:15،آیت 49سے50)۔اِمام فخر الدین رازی رحمۃاللہ علیہ اپنی تفسیر میں فر ماتے ہیں کہ”نَبِّئیْ عِبَادِیْ“ ”کا معنی ہے کہ ہر اس شخص کو خبر دے دیں جو میرا بندہ ہونے کا اعتراف کر تا ہے“۔ اس میں جس طرح اطاعت گزار مومن داخل ہے،اسی طرح گناہگار مومن بھی اس میں داخل ہے اور یہ سب باتیں اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ  اللہ تعالیٰ کی رحمت(اس کے غضب پر) غالب ہے۔(تفسیر کبیر،ج،7/ص149)۔
اَللّٰہ غَفُوْرُالرَّحیم بھی ہے اور جبارو قہار بھی!!!:اللہ کے صفاتی ناموں میں قہار و جبار بھی ہے،مفسرین کرام فر ما تے ہیں یہ مسئلہ بہت ٹیڑھا ہے۔اس لئے ہر کس وناکس کی سمجھ میں آنا مشکل ہے۔وہ قہار بھی ہے جبار بھی۔اور یہ وصف منکرین اور کافرین کے لیے مخصوص ہے۔خدائے تعالیٰ نے ہر انسان کو نیک وبد دونوں راہیں دکھا دی ہیں اور اسے امتیاز(پہچانے کاعمل،تمیز، discernment) کی توفیق بھی عطا فر مادی ہے۔ وہ جانتا ہے کہ آگ ہے جلادے گی،وہ بچ کے رہتا ہے،وہ جانتا ہے یہ بچھو ہے،یہ سانپ ہے، نہ ان کے قریب جاتا ہے،نہ اِن کے بل میں اُنگلی ڈالتا ہے۔ اسی طرح جو چیزیں منع ہیں،جیسے شراب، جوا،سٹہ،کمزورں پر ظلم کر نا اور گناہوں پر ڈھٹائی،سالِ سال عمرہ کر رہے ہیں لیکن گال چکنا کر نے کے لیے روزداڑھی(جو شعار اسلام ہے) کٹارہے ہیں،حرام و حلال کی تمیز کے بغیر کھانے پینے،جمع کر نے سب میں آگے آگے ہیں،رب تبارک وتعالیٰ نے ہم کو جس کام (اپنی بندگی)کے لیے پیدا کیا وہ کا م ہم کر نہیں رہے ہیں۔ اسی لیے اللہ نے اپنی دی ہوئی توفیق”عبادت“ کاحق ہم سے چھین لیاہے۔حتی کہ مرنے کے بعد اب کسی میت میں شرکت ”دفن، نمازِ جنازہ“ میں شرکت کی توفیق بھی چھین لے رہا ہے،جنازہ کی نماز،میت کی تدفین میں شرکت بھی ممکن ہی نہیں رہا اور مر رہا ہے تو اس کو دفن کے لیے زمین بھی نہیں دے رہا ہے،رانچی،ممبئی، کر ناٹک وغیرہ کے واقعات سے دل دہل رہا ہے مسلمان ہی مسلمان کی میت کو دفنانے نہیں دے رہا ہے،استغفراللہ، استغفر اللہ،الامان والحفیظ، فیصلہ کریں،سوچیں،خوب سوچیں!”یہ اللہ کا عذاب ہے،یا ہماری بد اعمالیوں کا نتیجہ؟ یا اور کچھ؟؟؟۔ موقع غنیمت جانیں رجوع الی اللہ،توبہ میں جٹ جائیں صدق دل سے! اللہ غفو رالر حیم ہے۔”اے رحیم وکریم رب اپنی دی ہوئی نعمت”عبادت“ کا حق ہم سے نہ چھین پلیز، پلیز، پلیز، آمین ثم آمین۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے