مضمون نگار: اسلم آزاد شمسی
ہنوارہ گڈا جھارکھنڈ
سرسید احمد خان کی پیدائش 17 اکتوبر 1817 کو دہلی کے ایک معزز، نبیل، مذہبی اور اعلیٰ تعلیم یافتہ خوشحال سید گھرانے میں ہوئی ۔
ان کا اصل نام سید احمد خان تھا جو آگے چل کر”سر سید احمد خان” کے نام سے مشہور ہوئے. سر سید کے والد کا نام میر متقی اور والدہ محترمہ عزیز النساء بیگم تھیں جو نہایت نیک سیرت، بااخلاص، پاکباز، اور نیک صفت خاتون تھیں ۔سر سید احمدخان انیسویں صدی کے عظیم مصلح، مفکر، مدبر، سماجی رہنما، معمار قوم، دانشور، فلسفی، بلند پایہ عالم، مصنف، صحافی، مفسر قرآن اور قومی رہنما تھے ۔ابتدائی تعلیم گھر پر والدہ کی نگرانی میں پائی جہاں انہوں نے عربی، فارسی اردو وغیرہ کی تعلیم کے ساتھ ساتھ سچائی، ایمانداری، دیانتداری، حسن اخلاق، عزم وحوصلہ، انسانی ہمدردی، دینداری وغیرہ کی تربیت بھی حاصل کی. سرسید کے بلند پایہ اور اعلی مقام شخصیت میں ان کی والدہ کا بیحد اہم اور غیر معمولی کردار تھا ۔
سرسید احمد خان مسلم قوم کی زبوں حالی کو لے کر نہایت فکر مند تھے. ان کا نظریہ تھا کہ مسلم قوم کی ترقی کی راہ صرف اور صرف جدید اعلی تعلیم کی مدد سے ہی ہموار کی جا سکتی ہے جس کے لیے وہ اس قوم کو دینی و عصری تعلیم سے آراستہ و پیراستہ کرنا چاہتے تھے تاکہ وہ دوسری قوم کے مد مقابل اور شانہ بشانہ کھڑا ہو سکے. اس کے لیے انہوں نے بھرپور کوشش کیں. انہوں نے سائنس ریاضی، کیمیائی، طب، تاریخ، فلسفہ،جغرافیہ، عمرانیات، سیاسیات معاشیات انگریزی ودیگر جدید علوم و فنون کے لیے مسلمانوں کو راغب کیا اور جدید تعلیم کو ہی مسلمانوں کی کامیابی اور فلاح کا ضامن قرار دیا.
اس ضمن میں انہوں نے ملک کے مختلف شہروں میں متعدد مدرسہ، اسکول، کالج اور تنظیم کی بنیاد رکھی جس میں غازی پور میں وکٹوریہ اسکول، مراد آباد میں گلشن اسکول، کانپور میں حلیم کالج، پشاور میں اسلامیہ کالج، لاہور میں اسلامیہ کالج، غازی پور میں انگریزی مدرسہ، غازی پور میں سائنٹیفک سوسائٹی وغیرہ قابل ذکر ہے ۔انہوں نے قوم اور ملک کی خدمات کو اپنی زندگی کا شعار بنا لیا تھا. عوام کی ہمدردی، مسلمانوں کا عروج، ان کے روشن مستقبل کی فکر نے انہیں 1869 عیسویں میں انگلستان کے سفر کے لئے مجبور کر دیا جہاں انہوں نے مختلف تعلیمی مراکز اور وہاں کی جدید طرز تعلیم کا معائنہ اور مشاہدہ کیا .
ہندوستان واپس لوٹ کر کیمبریج جیسی ورلڈ کلاس یونیورسٹی کی طرز پر جدید تعلیم اور نصاب کے ساتھ ایک یونیورسٹی قائم کرنے کے لیے کمر بستہ ہوئے اور 1875 عیسوی میں انہوں نے محمدن اینگلو اورینٹل کالج کی بنیاد رکھی جسے 1920 میں یونیورسٹی کا درجہ حاصل ہوا ۔یہ محمڈن اینگلو اورینٹل کالج ہی ہے جو آج عالمگیر سطح پر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے نام سے مشہور ہے اور دنیا میں اعلی تعلیم و تدریس کی بہترین مثال ہے. یہ وہ یونیورسٹی ہے جس نے نہ صرف مسلم قوم کو جہالت اور گمراہی سے باہر نکالا بلکہ بلا تفریق ہر مذہب کے لوگوں کو علم کی دولت سے نوازا اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے ۔
ان کی خدمات آج بھی ہماری اور ہماری نسلوں کی آبیاری کر رہی ہیں. ان کی ہی کاوشوں کا نتیجہ ہے کہ ہندوستانی مسلمان جدید تعلیم سے روشناس ہو پائی۔ان ہی کی دین ہے کہ مسلمان قوم گمراہی اور ضلالت کے راستے سے باہر آئ، ان ہی کی فکر تھی جس کے وجہ کر آج اردو صحافت پوری دنیا میں الگ انداز اور رنگ و آہنگ کے ساتھ اپنی خدمات پیش کر رہی ہے،ان کی ہی بدولت آج ہندوستانی مسلمان روشن مستقبل کے خواب سجاتی ہے. انہیں کی یاد میں پوری دنیا کی اردو آبادی 17 اکتوبر کو یوم سرسید کے طور پر مناتی ہے ۔
سر سید نے قوم کو بیدار کرنے، انہیں ضلالت و گمراہی سے باہر نکالنے، جدید تعلیم کی طرف متوجہ کرنے اور معاشی طور پر خود کفیل اور مضبوط بنانے کے لیے کئ اقدامات اٹھائے اور اسی کڑی میں انہوں نے رسالہ تہذیب الاخلاق بھی جاری کیا جس کا مقصد عوام الناس کی اصلاح و تربیت، ذہنی بیداری، غفلت سے باہر نکالنا، گھسی پٹی روایتی زندگی سے باہر نکالنا، دین اور دنیا کی بہتر سمجھ پیدا کرنا اور ذہنی و فکری شعور پیدا کرنا تھا ۔ساتھ ہی مسلمانوں کو جدید اور مغربی تعلیم کی اہمیت و ضرورت اور اس کی افادیت سے روشناس کرانا تھا. انہوں نے رسالہ تہذیب الاخلاق کے ذریعے اردو ادب کو بھی نئی راہ دکھائی اور جدید خیالات اور نئے موضوعات اور اسلوب سے آشنا کرایا ۔
اپنی صحافت کے ذریعہ اردو میں مضمون نگاری کی نئی طرز کا ایجاد کیا ۔
تہذیب الاخلاق کا پہلا شمارہ 24 دسمبر 1870 عیسوی کو بنارس سے شائع ہوا ۔رسالہ میں زیادہ تر مضامین سرسید اور ان کے رفقاء کے ہوتے تھے جو مسلمانوں کی تعلیمی مذہبی اور فکری اصلاح کے پیش نظر لکھے جاتے تھے ۔جس میں ہر شعبہ اور موضوع پر مضامین شائع ہوتے تھے ۔رسالہ تہذیب الاخلاق سرسید کی صحافتی خدمات کے سب سے بڑے کارناموں میں سے ایک ہے۔ اس رسالہ کے ذریعہ انہوں نے اردو قارئین اور باشعور لوگوں کے ذہن کو کافی حد تک متاثر کیا اور انہیں جدید علوم و فنون کی طرف راغب کرنے میں کامیاب بھی ہوئے ۔اس مشن میں ان کے رفقاء نے ان کی خوب مدد کی جس کے سبب سر سید نے اپنے مقاصد کی حصولیابی میں حتی الامکان کامیابی بھی پائی ۔
آج ہندی مسلمان جس طرح ملک میں سر اٹھا کر باعزت شہری کی طرح زندگی گزار رہے ہیں اس کے پس پردہ مرحوم سرسید احمد خان کی نہ صرف خدمات ہے بلکہ جان و مال کی عظیم قربانی ہے. سرسید احمد خان کے لیے رسالہ تہذیب الاخلاق کی معنوں میں نہایت اہم اور ضروری تھا لہذا انہوں نے اس کے لیے خوب محنت کی اور مشقتوں کا سامنا کیا لیکن محض قوم کی ہمدردی نے انہیں قدموں واپس ک
ھینچنے سے روکے رکھا ۔قوم و ملک کے تئیں ان کی خدمات کسی بھی صورت میں ناقابل فراموش ہے۔ اس قوم پر ان کے کروڑوں احسان ہیں اور رہتی دنیا تک رہے گی۔ ان کے کام کے جذبے کو دیکھتے ہوئےہی معروف شاعر اکبر الہ آبادی نے کہا تھا، "ہماری باتیں ہی باتیں ہیں سید کام کرتا تھا” .
سرسید کے متعلق بابائے اردو مولوی عبدالحق کا قول ہے،
” اس نے زبان اردو کو پستی سے نکالا اندازبیان میں سادگی کے ساتھ قوت پیدا کی سنجیدہ مضامین کا ڈول ڈالا
سائنٹیفک کی بنیاد ڈالی جدید علوم و فنون کو ترجمہ انگریزی سے کروائے خود کتابیں لکھیں اور دوسروں سے لکھوائیں اخبار جاری کرکے اپنے انداز تحریر بے لاگ تنقید اور روشن صحافت کا مرتبہ پڑھایا تہذیب الاخلاق کے ذریعہ اردو ادب میں انقلاب پیدا کیا ”.
ان کی چہار سو خدمات کے عوض ہی انہیں "سر "، "جوادالدولہ”، اور "عارف جنگ” جیسے خطابات سے نوازا گیا تھا ۔سرسید کے کام کو لے کر اس کی فکر و نظر کو لے کر وقت کے تنگ نظر علماء نے بھی ان پر الحاد اور کفر کے فتوے لگائے ان کا مذاق اڑایا مگر سرسید آخر تک اپنے عقیدے پر راسخ اور قابض رہے ۔
بطور ایک قومی رہنما اور رہبر کے ان کا سب سے بڑا اور عظیم کارنامہ تعلیمی خدمات ہے ۔برصغیر کا یہ عظیم عبقری شخصیت کا حامل انسان، علم کی روشن شمع جلانے والے انسان نے27 مارچ 1998 کو دہلی میں اس دار فانی کو الوداع کہہ دیا ۔