درس قرآن (قسط نمبر 3)

ازقلم: (مفتی)محمد شعیب رضا نظامی فیضی
پرنسپل دارالعلوم رضویہ ضیاءالعلوم، پرساں ککرہی(گولا بازار) گورکھ پور یو۔پی۔ انڈیا
رابطہ نمبر: 9792125987

القرآن

الرحمٰنِ الرحیم

اردو ترجمہ(کنزالایمان)
بہت مہربان رحمت والا۔

हिंदी अनुवाद
बहुत मेहरबान रहमत वाला।

English translation
The Most Gracious, the Most Merciful.

تشریح و توضیح
"رحمٰن” اور "رحیم” اللہﷻ کے دو صفاتی نام ہیں ، رحمٰن کا معنٰی ہے: نعمتیں عطا کرنے والی وہ ذات جو بہت زیادہ رحمت فرمائے اور رحیم کا معنی ہے: بہت رحمت فرمانے والا۔

یاد رہے کہ حقیقی طور پرنعمت عطا فرمانے والی ذات اللہ تعالیٰ کی ہے کہ وہی تنہا ذات ہے جو اپنی رحمت کا بدلہ طلب نہیں فرماتی، ہر چھوٹی، بڑی ، ظاہری، باطنی، جسمانی، روحانی، دنیوی اوراخروی نعمت اللہ تعالیٰ ہی عطا فرماتا ہے اور دنیا میں جس شخص تک جو نعمت پہنچتی ہے وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ہی سے ہے کیونکہ کسی کے دل میں رحم کا جذبہ پیدا کرنا، رحم کرنے پر قدرت دینا، نعمت کو وجود میں لانا، دوسرے کا اس نعمت سے فائدہ اُٹھانا اور فائدہ اٹھانے کے لیے اَعضا کی سلامتی عطا کرنا، یہ سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی ہے۔

"رب العالمین” کے بعد "الرحمٰن الرحیم” کا ذکر کیوں؟
امام قرطبی فرماتے ہیں آیت "رب العلمین” کے وصف کے بعد آیت "الرحمن الرحیم” کا وصف ترہیب یعنی ڈرانے کے بعد ترغیب یعنی امید ہے۔ جیسے ایک دوسری جگہ ارشاد فرمایا "نبی عبادی” الخ یعنی میرے بندوں کو خبر دو کہ میں ہی بخشنے والا مہربان ہوں اور میرے عذاب بھی دردناک عذاب ہیں۔ اور فرمایا تیرا رب جلد سزا کرنے والا اور مہربان اور بخشش بھی کرنے والا ہے۔ رب کے لفظ میں "ڈرانا” ہے اور رحمن اور رحیم کے لفظ میں "امید” ہے۔ صحیح مسلم شریف میں بروایت حضرت ابوہریرہ مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا اگر ایمان والا اللہ کے غضب و غصہ سے اور اس کے سخت عذاب سے پورا وقف ہوتا تو اس کے دل سے جنت کی طمع ہٹ جاتی اور اگر کافر اللہ تعالی کی نعمتوں اور اس کی رحمتوں کو پوری طرح جان لیتا تو بھی ناامید نہ ہوتا۔(ابن کثیر)

مسئلہ شرعی
اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کو رحمٰن کہنا جائز نہیں جبکہ رحیم کہا جا سکتا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے