ایک چڑیا کی تین نصیحتیں

افہام و تفہیم وعظ و نصیحت، پند و موعظت اور دعوت و تبلیغ میں قصصی اور حکایتی اسلوب بہت موثر ہوا کرتا ہے ،اس کے ذریعہ مخاطب کو اپنی طرف متوجہ کرنا آسان ہوتا ہے ، قصصی اسلوب افہام و تفہیم میں بہت معاون ہوتا ہے ،اگر آپ اپنے مخاطب کو کوئی بات مثال اور واقعہ کے ذریعہ سمجھائیں گے ،تو وہ جلد اس کو سمجھیں گے اور ان کے لئے اس پر عمل پیرا ہونا آسان ہو جائے گا ۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں اس طرز اور انداز کو بھی اپنایا گیا ہے ۔ درجنوں قصص و واقعات بلکہ سیکنڑوں واقعات و تمثیلات قرآن وحدیث میں موجود ہیں ۔۔
بس اس کے لئے شرط یہ کہ اس میں واقعیت و صداقت ہو ،بے سند ،من گھڑت اور جھوٹے واقعات نہ ہوں ،واقعات دو طرح کے ہوتے ہیں ایک وہ جو حقیقت میں پیش آئے ہوں ۔دوسرے تمثیلی واقعات جو حقیقت میں پیش تو نہ آئے ہوں ،لیکن اس طرح کے واقعات ماضی میں پیش آئے ہوں یا پیش آنے کے امکانات ہوں، انہیں واقعات کو تمثیلی انداز میں پیش کیا جائے ،جو ماضی میں واقع واقعات کا آئینہ اور اس کی تمثیل ہوں اور جس کے ذکر کا واحد مقصد عبرت و نصیحت اور سبق اموزی ہو کہ لوگ اس طرح کے واقعات سے عبرت و نصیحت حاصل کریں ۔۔

ماضی میں لکھی گئی کتابوں میں ،،حکایات رومی ،، بہت موثر اور البیلی کتاب ہے ۔ جس میں عبرت و نصیحت کے ہزاروں واقعات ہیں ،اصلا تو یہ فارسی میں ہے ۔ لیکن اس کا ترجمہ بھی متعدد زبانوں میں موجود ہے ۔۔۔ قربانی کی مصروفیت کی وجہ سے کوئی تحریر لکھنا مشکل تھا، اس لئے سوچا کہ حکایت رومی سے ایک واقعہ آپ قارئین کی خدمت میں پیش کروں ،جس میں بہت ہی سبق آموز باتیں ہیں ۔ جن کا جاننا اور ان پر عمل کرنا بہت ہی مفید ہے ۔ اس لئے آج اس واقعہ کے ذکر پر اکتفا کروں گا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک شخص نے چڑیا پکڑنے کےلئے جال بچھایا.. اتفاق سےایک چڑیا اس میں پھنس گئی اور شکاری نے اسے پکڑ لیا..
چڑیا نے اس سے کہا..
”اے انسان ! تم نے کئی ہرن ‘ بکرے اور مرغ وغیرہ کھاۓ ہیں، ان چیزوں کے مقابلے میں میری کیا حقیقت ہے.. ذرا سا گوشت میرے جسم میں ہے، اس سے تمہارا کیا بنے گا..؟
تمہارا تو پیٹ بھی نہیں بھرے گا.. لیکن اگر تم مجھے آزاد کردو تو میں تمہیں تین نصیحتیں کرونگی ،جن پر عمل کرنا تمہارے لئے بہت مفید ہوگا..
ان میں سے ایک نصیحت تو میں ابھی کروں گی.. جبکہ دوسری اس وقت جب تم مجھے چھوڑ دو گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔
اور میں دیوار پر جا بیٹھوں گی.. اس کے بعد تیسری اور آخری نصیحت اس وقت کروں گی جب دیوار سے اڑ کر سامنے درخت کی شاخ پر جا بیٹھونگی..
اس شخص کے دل میں تجسس پیدا ہوا کہ نہ جانے چڑیا کیا فائدہ مند نصیحتیں کرے .. اس نے چڑیا کی بات مانتے ہوئے اس سے کہا..
تم مجھے پہلی نصیحت کرو پھر میں تمہیں چھوڑ دونگا..
”چنانچہ چڑیا نے کہا.. میری پہلی نصیحت یہ ہے کہ
جو بات کبھی نہیں ہو سکتی اسکا یقین مت کرنا..
”یہ سن کر اس آدمی نے چڑیا کو چھوڑ دیا اور وہ سامنے دیوار پر جا بیٹھی.. پھر بولی..
میری دوسری نصیحت یہ ہے کہ
جو بات ہو جاۓ اسکا غم نہ کرنا..
”اور پھر کہنے لگی.. ” اے بھلے مانس! تم نے مجھے چھوڑ کر بہت بڑی غلطی کی.. کیونکہ میرے پیٹ میں پاؤ بھر کا انتہائی نایاب پتھر ہے..
اگر تم مجھے ذبح کرتے اور میرے پیٹ سے اس موتی کو نکال لیتے تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کو فروخت کرنے سے تمہیں اس قدر دولت حاصل ہوتی کہ تمہاری آنے والی کئی نسلوں کے لئے کافی ہوتی..
اور تم بہت بڑے رئیس ہو جاتے..
”اس شخص نے جو یہ بات سنی تو لگا افسوس کرنے.. اور پچھتایا.. کہ اس چڑیا کوچھوڑ کراپنی زندگی کی بہت بڑی غلطی کی.. اگر اسے نہ چھوڑتا تو میری نسلیں سنور جاتیں..
چڑیا نے اسے اس طرح سوچ میں پڑے دیکھا تو اڑ کر درخت کی شاخ پرجا بیٹھی اور بولی..
اے بھلے مانس! ابھی میں نے تمہیں پہلی نصیحت کی جسے تم بھول گئے کہ “جو بات نہ ہوسکنے والی ہو اسکا ہرگز یقین نہ کرنا..
لیکن تم نے میری اس بات کا اعتبار کرلیا کہ میں چھٹاک بھر وزن رکھنے والی چڑیا اپنے پیٹ میں ایک پاؤ وزن کا موتی رکھتی ہوں.. کیا یہ ممکن ہے..؟
میں نے تمہیں دوسری نصیحت یہ کی تھی کہ ” جو بات ہو جاۓ اسکا غم نہ کرنا”۔
مگر تم نے دوسری نصیحت کا بھی کوئی اثر نہ لیا اور غم و افسوس میں مبتلا ہو گئے کہ خواہ مخواہ مجھے جانے دیا..
تمہیں کوئی بھی نصیحت کرنا بالکل بیکار ہے.. تم نے میری پہلی دو نصیحتوں پر کب عمل کیا جو تیسری پر کرو گے..؟
تم نصیحت کے قابل نہیں.. ”یہ کہتے ہوۓ چڑیا پھر سے اڑی.. اور ہوا میں پرواز کر گئی..
وہ شخص وہیں کھڑا چڑیا کی باتوں پر غور و فکر کرتے ہوۓ سوچوں میں کھو گیا..!!
حاصل کلام یہ کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ لوگ خوش نصیب ہوتے ہیں جنہیں کوئی نصیحت کرنے والا ہو..
ہم اکثر خود کو عقلِ کل سمجھتے ہوۓ اپنے مخلص ساتھیوں اور بزرگوں کی نصیحتوں پر کان نہیں دھرتے..
اور اس میں سراسر نقصان ہمارا ہی ہوتا ہے.. یہ نصیحتیں صرف کہنے کی باتیں نہیں ہوتیں کہ کسی نے کہہ لیا ‘ ہم نے سن لیا..
بلکہ دانائی اور دوسروں کے تجربات سے حاصل ہونے والے انمول اثاثے ہیں.. جو یقیننا ” ہمارے لئے مشعلِ راہ ثابت ہو سکتے ہیں اگر ہم ان نصیحتوں پر عمل بھی کریں…!!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ازقلم: محمد قمر الزماں ندوی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے