شہر کلکتہ اور بنگال نشاۃ ثانیہ

ازقلم: ابوالکلام انصاری
اسسٹنٹ ٹیچر، فیض احمد فیض اردو ہائی اسکول، ہگلی، مغربی بنگال

”نشاۃثانیہ“ کا لغوی معنی ”نو بیداری“ ہے۔ اسے ”حیات نو“ بھی کہتے ہیں۔ انسان کی فکر، سوچ، تنقید اور پر کھ کے عمل سے جو سیاسی، سماجی اور مذہبی تبدیلیاں زندگی میں رونما ہوتی ہے وہ حیات نو یا نئی زندگی کہلاتی ہے۔
بنگال میں نو بیداری سے مراد ۹۱ ویں صدی اور ۰۲ویں صدی کے ابتدائی زمانے کے اصلاحی تحریک سے ہے۔ اس زمانے میں بنگال میں تعلیمی، سماجی، مذہبی اصلاحی تحریکوں کے بے شمار نمونے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ نتیش سین گپتا بنگال میں حیات نو یا نو بیداری کا آغاز راجہ رام موہن رائے (1772-1833) اور انتہا رابندر ناتھ ٹیگور (1861-1941) کے درمیان کے زمانے کو مانتے ہیں۔ ۹۱ ویں صدی سے قبل بنگال دور جدید کی تبدیلیوں سے بے خبر تھا۔ سماج اندھی تقلید و بے جا رسومات کا شکار تھا۔ ستی، طفل کشی، کثرت ازدواج عام تھی۔ بنگالی خواتین استحصال کا شکار تھی۔ بیواؤں کو ستایا جاتا، انکا بال کاٹ دیا جاتا، انہیں سفید ساڑی پہننے پر مجبور کیا جاتا، عام لوگوں سے ملنے جلنے اور ہنسنے بولنے پر پابندی تھی، شوہر کے موت کا ذمہ دار انکو ہی خیال کیا جاتا تھا۔ لیکن ۹۱ویں صدی سے حالات میں تبدیلی آنی شروع ہوئی۔ راجہ راموہن رائے، ایشور چند ودیاساگر، کیشب چندر سین، مائیکل مدھو سدن دتہ، سریندر ناتھ بنرجی، سوامی ویویکا نند جیسی شخصیتوں نے سماج کے غلط نظریوں، مذہبی اہام پرستی و اندھی تقلید پر سوال کھڑے کرنا شروع کئے۔
کلکتہ کو مرکزیت بنگال نشاۃ ثانیہ میں:۔
چونکہ برطانوی دور کے ابتدائی مرحلے میں کلکتہ ہی راجدھانی تھی۔ ۱۱۹۱ ء میں کلکتہ سے دلی راجدھانی منتقل ہوئی۔ اس وجہ سے ابتدائی مرحلے میں یعنی انیسویں صدی کے ابتدا میں جو اصلاحی تحریکوں نے اپنا مرکز بنایا وہ کلکتہ شہر کو ہی بنایا۔ تاریخ کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ اس زمانے کے زیادہ تر تعلیمی، سماجی اور مذہبی اصلاحی تحریک کلکتہ سے ہی شروع ہوئے پھر دھیرے دھیرے بنگال کے دیگر گوشوں میں پھیل گئے۔
تعلیم اصلاحی تحریک:۔ راجہ رام موہن رائے نے 1813 ء کے چارٹر ایکٹ کے رقم کو انگریزی تعلیم کیلئے خرچ کرنے کی وکالت کرتے ہوتے کلکتہ کے سندی پاڑہ میں ایک انگریزی اسکول کھولا۔ پھر David Hare کے ساتھ ملکر 1817 ء میں کلکتہ میں Hindu College قائم کئے۔ Allexender Duff کو Scotish Church College کھولنے میں مدد کئے۔ 1822ء میں کلکتہ میں Anglo Hindu School قائم کئے اور 1825 ء میں Vedanta College قائم کئے۔ جس میں علم ریاضی، فلسفہ، کمسٹری، انا ٹومی،میکینکس اور علم فلکیات جیسے مضامین پڑھائے جاتے تھے۔
ودیا ساگر نے تعلیم نسواں پر خصوصی زور دیتے ہوئے 1849 ء میں کلکتہ میں بیتھون کالج قائم کئے۔ راجہ رادھا کانت دیب، جئے کشن اور راج کشن مکھرجی جیسی شخصیتوں نے خواتین کے تعلیم کی حمایت کی۔
David Hare نے کلکتہ میں 1817 ء میں School Book Society قائم کئے پھر 1818 ء میں Calcutta School Society قائم کئے۔ ان سب ادواروں کے مدد سے بہت سارے کتابوں کی طباعت کی گئی جو لوگوں میں ذہنی بیداری لانے میں کافی معاون و مددگار ثابت ہوئی۔
1835 ء میں کلکتہ میڈیکل کالج کا قیام عمل میں آیاجس کی مدد سے مغربی سائنس اور طب کی تعلیم کا سلسلہ شروع ہوا۔ مدھو سدن گپتا جن کا تعلق ضلع ہگلی کے بیدیا باٹی علاقے سے تھا وہ ہندوستان کے پہلے طبیب تھے جنہوں نے طبی غرض سے مردہ انسانی جسم کی چیر پھاڑ (Autopsy) کی تھی۔ کادمبینی گانگولی پہلی خاتون تھی جو علم طب میں دلچسپی دکھائی۔ 1888-89 میں یہ پہلی خاتون گریجویٹ کہلائی۔
1854 ء کے Woods Despatchجس کو Magna Carta of Indian Education کہا جاتا ہے کے سفارش سے 1857 ء میں کلکتہ یونیورسیٹی کا قیام عمل میں آیا جو ہندوستان کی اول ترین یونیورسیٹیوں میں سے ایک ہے۔
اس دور میں سیرامپور مشن نے بھی نمایاں کارنامہ انجام دیا۔ اسکے Serampore Trio یعنی William Carrey، William Ward اور J.Marshman نے مغربی تعلیم کے اشاعت میں نمایاں کارنامہ انجام دیا۔ William Carrey نے پنچنن کرمکار کے ساتھ ملکر 1800ء میں فورٹ ولیم کالج قائم ہونے کے بعد سیرامپور جو کلکتہ سے بالکل قریب ہی کا ایک علاقہ ہے میں سیرامپور پریس قائم کیا۔ جہاں سے بہت سے انگریزی اور بنگلہ کی کتابیں شائع ہونے لگی۔
1818 ء میں سیرامپور پریس سے پہلا بنگلہ ماہ نامہ دگ درشن اور پہلا ہفتہ بنگالی اخبار سماچار درپن شائع ہونے لگا۔ اس طرح سے بنگالیوں میں ذہنی بیداری لانے میں اور بھی مدد ملنے لگی۔
اسی طریقے سے یہ طباعت کا کاروبار ترقی کرتے ہوئے 20 ویں صدی کے ابتدا میں یعنی 1913 ء تک اور ترقی کر گئی۔ اور 1914 ء میں U.Roy & Sons نامی ایک طباعت خانہ قائم ہوا جو جنوبی ایشیاء کا سب سے عمدہ طباعت خانہ تھا جو کلکتہ میں واقع ہے۔
تکنیکی تعلیم کے لئے 1876 ء میں Indian Association for the Cultivation of Science کو مہندر لال نے قائم کیا۔ اس سے پہلے 1847 ء میں پہلا سول انجینیر نگ کالج کا قیام عمل میں آچکا تھا جو رُرکی انجینیرنگ کالج کے نام سے مشہور ہے۔ جو ہندوستان کا پہلا تکنیکی یونیورسیٹی کے طور پر جانا جاتا ہے۔ 1906 ء میں تارک ناتھ پالت نے Bengal Technical Institute قائم کئے۔
20 ویں صدی میں سائنس اور تکنیکی تعلیم نے مزید ترقی کی طرف قدم بڑھایا۔ 1914 ء میں کلکتہ سائنس کالج کا قیام عمل میں آیا۔ 1917 ء میں جگدیش چندر بوس نے باسو گیان مندر کی بنیاد رکھی۔ 1906 ء میں نیشنل کاؤنسل آف ایجوکیشن کا قیام عمل میں آیا۔
رام کرشن مشن:۔ سوامی ویویکا نند نے اپنے استاد سوامی رام کرشن پرم ہنس کے نقش قدم پر چلتے ہے۔ 1897 ء میں رام کرشن مشن قائم کیا اور ہندو سماج میں جدیدیت کی بھر پور کوشش کی۔ ہندو فلسفے کے ساتھ ساتھ انگریزی اور مغربی تعلیم کی اشاعت کی۔
مندرجہ بالا تمام تعلیمی سرگرمیاں راجہ رام موہن رائے سے لیکر ر ابندر ناتھ ٹیگور تک کے زمانے میں کلکتہ شہر میں ہی انجام پائے اسطرح سے ’شہر کلکتہ‘ بنگال کے نشاۃ ثانیہ میں تعلیم کے مدد سے بہت معاون ثابت ہوا۔
سماجی و مذہبی اصلاحی تحریکیں:۔ جیساکہ ہم سب کو معلوم ہے کہ راجہ رام موہن رائے کو ہندوستان کا پہلا جدید آدمی (First Modern Man of India) کہا جاتا ہے۔ جس طرح سے انہوں نے تعلیمی اصلاحی تحریک پہل دکھائی اسی طرح سے انہوں نے سماجی و اصلاحی تحریک میں بھی پیش قدمی دکھائی اور 1815 ء میں کلکتہ میں Atmiya Sabha کی بنیاد رکھی جہاں وہ وحدانیت کی تعلیم دیتے تھے۔ یہی Atmiya Sabha ترقی کر کے 1828 ء میں برہمو سبھا بن گیا۔ 1830 ء میں برہمو سبھا کو برہمو سماج میں بدل دیا گیا۔ اس میں امن، بھائی چارگی، اتحاد اور محبت کے پیغام کی تبلیغ کی جاتی تھی۔ وحدانیت کی تعلیم دی جاتی تھی۔ دیبیندر اناتھ ٹیگور، برہمو سماج کے سرگرم رکن تھے انہوں نے 1839 ء میں تتوا بودھنی سبھا اور 1865 ء میں Adi Brahmo Samaj کی بنیاد رکھی۔ کیشب چندر سین نے 1866 ء میں Brahmo Samaj of India کی بنیاد رکھی۔ 1878 ء میں آنند موہن بوس نے سدھارن برہمو سماج کی بنیاد ڈالی۔ یہ تمام ادارے ہندو سماج کے اصلاح کیلئے سرگرم تھے۔
راجہ رام موہن رائے کی کوششوں کے بدولت ہی 1829 ء میں لارڈ ولیم بینٹک نے Bengal Code Regulation XVII پاس کر کے ستی جیسی انسان سوز رسم کو ختم کیا گیا۔
1815 ء میں رادھا کانت دیب نے دھرم سبھا کی بنیاد ڈالی۔
ہندو کالج کے استاد ہنری لوئس ووین ڈیروزیو جو ینگ بنگال تحریک کے روح رواں تھے نے ہندوسماج مید موجود مذہبی توہمات، اندھی تقلید، تعصبات کے خلاف آواز بلند کئے اور نو جوانوں میں ہمیشہ حب الوطنی پیدا کرنے کی کوشش کئے۔
ایشور چندر ودیا ساگرکی کوششوں کے بدولت 1856 ء میں لارڈ ڈلہوذی نے Widow Remarriage Act XV پاس کر کے بیواؤں کی دوبارہ شادی کے علاوہ کثرت ازدواج، بچپن کی شادی، دیوداسی پر تھا اور تعلیم نسواں کیلئے بھی زبردست کوششیں کی۔
سوامی ویویکا نند نے اپنے استاد سوامی رام کرشن پرم ہنس کے نقش قدم پر چلتے ہوئے 1897 ء میں رام کرشن مشن قائم کئے۔ اور ہندو سماج میں جدیدیت کی بھر پور کوشش کئے۔ اسکے لئے انکا Neo Vedant کا فلسفہ کافی مشہور ہوا۔
اسطرح سے ہم دیکھتے ہیں کہ مندرجہ بالا تمام تعلیمی، سماجی اور مذہبی سرگرمیاں اور تحریکیں ہندوستانی

سماج میں سد ھار لا نے اور نو بیداری قائم کرنے کیلئے کوششیں کلکتہ کے ہی سر زمین پر چلائی گئی۔ ہم بخوبی سمجھ سکتے ہے کہ بنگال کے نشاۃثانیہ میں کلکتہ کا ایک کلیدی کردار رہا۔ اسلئے کلکتہ کو بنگال نشاۃ ثانیہ کا مرکز کہنا بالکل درست ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے