دی ٹیلی گراف اور مگرمچھ کے آنسو۔۔۔۔

قدرت نے ہر زندہ مخلوق کی آنکھوں میں اشکباری کی صلاحیت رکّھی ہے، جب کبھی دل پگھلتا ہے تو آنکھیں آنسو بہاتی ہیں، بسااوقات الفاظ’ جذبات کی خاطرخواہ ترجمانی نہیں کرپاتے اور آنکھ سے ٹپکنے والا ایک آنسو جذبات کی مکمل عکاسی کردیتا ہے کیوں کہ آنسو جھوٹ نہیں بولتے، مبالغہ آرائی نہیں کرتے اور ملمع سازی سے کام نہیں لیتے۔ انسان تو انسان حیوانوں میں بھی یہی رسمِ فطرت پائی جاتی ہیں، حزن و الم پر آنسو بہنے لگتے ہیں۔
تحقیق یہ کہتی ہے کہ انسان اور جانور کے آنسؤوں میں کوئی فرق نہیں دونوں ہی میں یکساں و مماثل کیمائی عناصر پائے جاتے ہیں اور ان آنسؤوں کا تعلّق براہِ راست جذبات و احساسات سے ہوتا ہے اس زمرے میں فقط مگرمچھ ایک ایسا جانور ہے جس کے آنسو جذبات سے عاری ہوتے ہیں۔ مگرمچھ جب کبھی خشکی پر ہوتا ہے تو قدرتی طور پر اس کی آنکھوں سے آنسو بہتے ہیں محقّقین کا ایک گروہ کہتا ہے کہ یہ آنکھوں کی صفائی کا قدرتی عمل ہے۔ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ کھارے پانی کا مگرمچھ شکار کے مزے اڑاتے ہوے آنسو بہاتا ہے اس پر یہ جواب دیا جاتا ہے کہ وہ کھانے میں موجود نمک کی زیادہ مقدار آنسؤوں کی شکل میں باہر نکالتا ہے۔ ان آنسؤوں کے پیچھے چاہے جو راز پوشیدہ ہو مگر ظاہر میں یوں لگتا ہے جیسے مگرمچھ شکار کی موت پر افسردگی کا اظہار کررہا ہے اور غمزدہ ہو کر آنسو بہارہا ہے اسی لیے جب کبھی کوئی انسان دکھاوے کے طور پر غمگین ہونے کی اداکاری کرے تب کہتے ہیں وہ مگرمچھ کے آنسو بہارہا ہے۔
مگرمچھ کے آنسو بہانا بطور کہاوت انگریزی میں بھی مستعمل ہے اور اردو میں بھی، تحریر سے ملحقہ برنہارڈ گیلم کی تصویر میں روسی سیاست داں اور سابق فوجی افسر یولیسیس ایس گرانٹ کو دکھایا گیا ہے جو یہودیوں پر ہورہے مظالم پر شکوہ کناں ہے اور ان کی خدمت و ترقی کے لیے متفکّر و کوشاں جبکہ یہی "گرانٹ” ماضی میں یہودیوں سے تعصّب روا رکھے ہوے تھا۔
ہندوستان کی ریاست منی پور کے حالات دگرگوں ہیں، عیسائی برادری "کوکی” پر کسی بھی سمت سے قیامت ٹوٹتی ہے اور جنگل راج کا وہ نقشہ پیش کیا جاتا ہے جاے دیکھ کر جنگلی جانور بھی تھرتھر کانپنے لگے۔ دو مہینے قبل ایک بستی پر حملہ ہوا اسے تاراج کرنے کے بعد دہشت گردوں کو راستے میں پانچ افراد (دو مرد اور تین خواتین)دکھائی دیے، مردوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا اور بالجبر خواتین کو بےلباس کردیا گیا پھر وہ سب ہوا جنہیں لکھتے ہوے بھی شرم محسوس ہوتی ہے۔ میڈیائی اہلکار سیما حیدر جیسے موضوع کے اردگرد طواف کرتے رہیں، حکومت یوں غفلت کے ساتھ اعراض کرتی رہی جیسے معاملہ چین و جاپان میں پیش آیا ہو، جب منی پور میں انٹرنیٹ بحال ہوا اور ویڈیو گردش کرنے لگی، چاروں طرف سے حکومت کا ڈنکا بجنے لگا تو ۷۹ دن کے بعد وزیراعظم (ہندوستان) نے لب کشائی کی اور فرمایا کہ وہ منی پور کی بیٹیوں کے مجرموں کو سزا دلوائیں گے۔ اس پر دی ٹیلی گراف نے ایک تصویری خاکہ پیش کیا جس میں مگرمچھ کو آنسو بہاتے ہوے دیکھا جاسکتا ہے۔ منفرد انداز میں صحافتی چٹکیاں لینے دی ٹیلی گراف نمایاں مقام رکھتا ہے، یہ ان صحافتی اداروں میں سے ہیں جنہوں نے اب تلک ضمیر و ایمان کا سودا نہیں کیا۔

اقلم: تابش سحر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے