عربی زبان وادب کے امتیازات وخصوصیات میں سب سے بڑی خصوصیت اس کا قیامت تک باقی رہنا ہے، کیوںکہ یہ اللہ ورسول صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام کی زبان ہے، اور اللہ نے اپنے کلام کی حفاظت ’’اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہُ لَحَافِظُوْنَ‘‘ کہہ کر خود لے لی ہے، اور جب قرآن کریم کو محفوظ رہنا ہے تو کتاب کی زبان عربی مبین کو کیوں کر ختم کیا جا سکتا ہے، دنیا کی بہت ساری زبانوں کا وجود باقی نہیں رہا یا وہ لکھنے بولنے کی زبان کے بجائے میوزیم میں پائی جانے والی زبان بن گئی ہے، عربی زبان وادب کے ساتھ ایسا ہونے کا کہیں کوئی شائبہ نہیں ہے۔
اس کی دوسری خصوصیت یہ بھی ہے کہ یہ ہماری علمی ، ادبی، مذہبی اور ثقافتی زبان ہے، بہت سارے ملکوں کی یہ عوامی اور سرکاری زبان ہے، جس کی وجہ سے عربی زبان پر قدرت رکھنے والوں کے لیے معاش کے حصول کے بہترین مواقع یہاں حاصل ہیں، یہی وجہ ہے کہ بر صغیر ہندو پاک اور بنگلہ دیش کے باشندگان بڑی تعداد میںان ممالک میں حصول روزگار کے کے لیے فروکش ہیں اور بر صغیر ہی کیا، دنیا کے ہر ملک سے لوگ یہاں معاش کی تلاش میں آتے ہیں، اور روزگار سے لگ کر نہ صرف اپنے خاندان کی کفالت کرتے ہیں، بلکہ یہ ہندوستان اور دوسرے ملکوں کے لیے غیر ملکی زر مبادلہ کی شکل میں اپنے اپنے ملک کے معاشی نظام کومستحکم کرنے کا بڑا ذریعہ ہیں، آپ کو یاد ہوگا کہ ماضی قریب میں سری لنکا اور پاکستان میں زر مبادلہ کے ذخیرہ کی کمی کی وجہ سے کیسے حالات پیدا ہو گیے تھے، ایسا اس لیے ہوا کہ غیر ملک کو سامان در آمد اور بر آمد کرنے میں ملکی کرنسی کے بجائے غیر ملکی زر مبادلہ کی ضرورت پڑتی ہے، عرب ممالک میں کام کرنے والے اس ضرورت کی تکمیل کرتے ہیں۔
اس زبان کی اہمیت اس لیے بھی ہے کہ ہمارا بڑا علمی ذخیرہ قرآن وحدیث، تفسیر وفقہ اور ادب کا اس زبان میں محفوظ ہے، یہ ایک مالدار زبان ہے ا س لیے کہ جتنی تعبیرات اور ایک شئی کے لیے جتنے الفاظ کمیت وکیفیت کے تغیر وتبدل کو واضح کرنے کے لیے اس زمان میںموجود ہیں، ایسا کسی دوسری زبان میں نہیں ہے۔
ان خصوصیات وامتیازات نیز اہمیت کا تقاضہ ہے کہ اسے مدارس اسلامیہ اور یونیورسیٹیوں میں زندہ زبان کی حیثیت سے پڑھایا جائے، اور اس قدر مہارت پیدا کردی جائے کہ وہ طلبہ کی عام بول چال کی زبان بن جائے، صرف عبارتوں کے سمجھنے، مسائل کے حل کرنے اور جزئیات کو ذہن نشیں کرانے کی زبان کی حیثیت اسے نہ دی جائے، بلکہ اسے بول چال کی زبان مشق وتمرین کے ذریعہ بنائی جائے، اس کے لئے ضروری ہے کہ تقلیدی اور روایتی انداز کو ترک کرکے براہ راست اس زبان میں لکھایا، پڑھا یا جائے، انداز ترجمہ کا نہ ہو بلکہ طریقۂ تعلیم میں میڈیم عربی رکھا جائے تو یہ کام انتہائی آسان ہوجائے گا۔
بد قسمتی سے ہمارے مدارس اسلامیہ اور دانش گاہوں میں عربی ادب کو ایک مضمون کے طور پر پڑھایا جاتا ہے، جس سے کتابیں حل ہوجاتی ہیں اور امتحان میں لڑکے کامیاب بھی ہوجاتے ہیں، لیکن ان کے اندر بول چال اور لکھنے کی مضبوط صلاحیت نہیں پیدا ہوتی، مشق وتمرین اور عربی بول چال کا ماحول بنا کر اس کام کو بحسن وخوبی انجام دیا جاسکتا ہے، اس کے لیے ماہر اساتذہ کی بھی ضرورت ہے، جو مدارس میں تنخواہ انتہائی کم ہونے کی وجہ سے نہیں مل پاتے۔ ہماری درسگاہوں سے جو قیمتی جواہر نکلتے ہیں اور عربی زبان وادب میں ممتاز ہوتے ہیں وہ حصول معاش کے لیے عرب کا رخ کر تے ہیں یا یونیورسیٹیوں کی راہ لیتے ہیںاور ہمارے مدارس کو اچھے اساتذہ نہیں مل پاتے، ہم اچھی تنخواہ اور سہولت دے کر عربی زبان وادب کے ماہرین کو اس کام پر لگا سکتے ہیں، معاملہ عربی ادب کو قرآن واحادیث کے زبان کے ناطے خصوصی توجہ کا ہے، عربی میں مہارت سے نصوص کا سمجھنا اور سمجھانا آسان ہوگا، اور ہم اس کو دوسری زندہ زبانوں کی طرح برت سکیںگے، یہ بھی ایک کام کرنے کا ہے جس سے دنیا کی فراہمی کے ساتھ ساتھ آخرت کی دولت بھی نصیب ہوگی، خانقاہ رحمانی مونگیر میں حضرت امیر شریعت دامت برکاتہم نے ایسا نظام بنایا ہے کہ حفظ کے بچے عربی زبان بولنے پر قادر ہوجاتے ہیں، خواہش مند لوگوں کو اس نظام کو قریب سے جا کر دیکھنا اور سمجھناچاہیے اورممکن ہو تو اسے ہر مدرسہ میں رائج کرنا چاہیے۔
تحریر: محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار ، اڈیشہ وجھارکھنڈ