1977کے وسط میں مرادآباد سے دہلی آیا تو میری عمر پندرہ برس تھی۔ ایک سرکاری اسکول میں آٹھویں کلاس تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد بڑے بھائی نے ’مولوی‘بنانے کے لیے مرادآباد کے مدرسہ امدادیہ میں ڈال دیا تھا۔ وہاں ایک ایسے استاد سے سابقہ پڑا جو نابینا ہونے کے باوجود انتہائی سخت گیرتھے۔ نام ان کا شوکت حسین تھا۔ روشنی نہ ہونے کے باوجود آنکھیں غیض وغضب سے ہمیشہ لال رہتی تھیں۔ ہاتھ میں ایک مضبوط ڈنڈا ہوتا تھا۔ اگر کوئی طالب علم غلطی کرتا تو اس ڈنڈے میں قدرتی حرکت پیدا ہوجایا کرتی تھی۔یہ جانے بغیرکہ ڈنڈا سر پہ لگے گا یا کہیں اور، وہ اسے چلادیا کرتے تھے۔ اس لیے ان کی چھوٹی سی کلاس میں بڑا چوکنا ہوکر بیٹھنا پڑتا تھا۔ یہ فارسی کے ایسے استاد تھے کہ شاید ایران میں بھی کوئی ان کے مقابلے کا نہ ہو۔ اپنے اسی غیض وغضب کے ساتھ انھوں نے پہلے پہل ’کریما‘ رٹوانی شروع کی۔ اس کے بعد’گلستاں‘ اور پھر ’بوستاں‘۔ ہم اردو کی طرح فارسی بولنے لگے۔ کچھ دنوں تک مدرسے میں قرأت بھی سیکھی۔ لیکن یہاں دل نہیں لگا۔ ماموں عبید الرحمن’کچھ‘بنانے کے لیے اپنے ساتھ دہلی لے آئے۔یہاں جیب خرچ کے لالے تھے۔ کسی نے بتایا کہ ’شمع‘ کے دفتر میں معمہ چیک کرنے والوں کی ضرورت ہے۔ اچھی اردو آنی چاہیے ۔ اردو کیا ہم تو فارسی سیکھ کرآئے تھے۔آصف علی روڈ پر واقع ’شمع‘ کے دفتر پہنچے تو فوراً رکھ لیا گیا۔ بوریوں میں بھرے ہوئے معموں کے ڈھیر دیکھ کر اس دھنے کی یاد آئی جو ایک گاڑی میں روئی بھری ہوئی دیکھ یہ سوچ کر بے ہوش ہوگیا تھا کہ اتنی روئی کون دھنے گا۔ بہرحال درجنوں لوگوں کے ساتھ ہمیں بھی معمہ چیک کرنے کے لیے ٹیبل پر بٹھا دیا گیا۔بوریوں سے معمے انڈیلے جانے لگے۔ کام شروع۔ لیکن اس میں اتنی تیزی دکھانی تھی کہ ایک لمحے کے لیے غافل ہونا گناہ تھا۔ پیچھے ہاتھ میں چھڑی لیے ایک آدمی کھڑا ہوتا تھا۔ تھکنے کے بعد جیسے ہی ہاتھ روکا وہ چھڑی زور سے ہمارے ہاتھ پر آکراس آواز کے ساتھ لگتی تھی۔”خالی کیوں بیٹھے ہو۔“یہ کم وبیش دس گھنٹے کی ڈیوٹی تھی۔ درمیان میں کھانے اورناشتے کا انتظام ’شمع‘ والوں کی طرف سے ہوتا تھا۔ یہ کام کئی دن چلتا تھا اور ہمیں ساڑھے بارہ روپے یومیہ کے حساب سے مزدوری ملتی تھی۔’شمع‘ کا دفتر کیا تھا ایک پوری کہکشاں تھی۔ یہ ’شمع‘ کے عروج کازمانہ تھا۔ دفتر میں کم وبیش سو افراد کام کرتے تھے۔ ایک تیز آواز جو ہروقت دفتر میں گونجتی رہتی تھی وہ حافظ یوسف دہلوی کی تھی جو ’شمع‘ کے مالک ومختار تھے۔ سفید کرتے پاجامے میں ملبوس حافظ صاحب کا رعب ایسا تھا کہ سب چوکنا رہتے تھے۔ہمارے سامنے ہی ’شمع‘ کے ایڈیٹر یونس دہلوی اور ان کے بھائیوں ادریس دہلوی و الیاس دہلوی کے کمرے تھے۔
مہینوں ’شمع‘ کے ہرے بھرے خاندان اور اس کی کامیابیوں کو بڑی حسرت بھری نگاہوں سے دیکھا۔ میری یادوں میں آج بھی 43 سال پہلے کے ’شمع‘ کے دفتر کی بہت سی دلکش چیزیں محفوظ ہیں۔ ’شمع‘ نے برصغیر کی فلمی وادبی صحافت میں اپنی مقبولیت اور ہر دلعزیزی کا ریکارڈ قائم کیاتھا۔ ہندوستان ہی نہیں پاکستان میں بھی ’شمع‘ کو بے پناہ مقبولیت حاصل تھی۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتا ہے کہ لاہور اور کراچی ایئرپورٹ پر جس کسی ہندوستانی کے پاس سے ’شمع‘ برآمد ہوتا تھاتو اسے کسٹم افسران گرین چینل سے جانے کی اجازت دیتے تھے۔ پاکستان میں ’شمع‘ کی نقل میں کئی ماہنامے شائع ہوئے لیکن وہ کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوسکے۔ ’شمع‘ کی مقبولیت کا مقابلہ اردو کا کوئی رسالہ آج تک نہیں کرسکا۔ اپنے دور کی بڑی بڑی فلمی اور ادبی شخصیات ’شمع‘ میں شائع ہونے کو اپنے لیے باعث افتخار سمجھتی تھیں۔ کچھ فنکار ایسے بھی تھے جنہیں شمع نے ہی قارئین سے روشناس کرایا تھا۔ ان میں ایک نمایاں نام حیدرآباد کی مشہور افسانہ نگار واجدہ تبسم کا ہے، جنہوں نے یہ اعتراف کیا تھا کہ ’شمع‘ نے ان کی شہرت اور دولت میں اضافہ کیا۔
آصف علی روڈ کی ایک وسیع عمارت کی پہلی منزل پر واقع ’شمع‘ کے دفترمیں بہترین ادیبوں، فنکاروں، آرٹسٹوں اور کاتبوں کی پوری کہکشاں موجود تھی۔ وہاں اشاعتی صنعت کے بہترین ماہرین جمع تھے۔
حافظ یوسف دہلوی کی شخصیت بڑی رعب دار تھی ۔ وہ دہلی کی پنجابی سوداگران برادری کے ایک اہم فرد تھے اور انہوں نے ’شمع‘ کا آغاز پرانی دہلی کے پھاٹک حبش خاں سے کیا تھا۔ حالانکہ بعض گھروں میں ’شمع‘ کو فلمی سیکشن کی وجہ سے کبھی پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھاگیا۔ بعض لوگ اسے گھروں میں لے جانا پسند نہیں کرتے تھے ۔
1960 سے 1990تک کا زمانہ ’شمع‘ کے عروج کا زمانہ تھا اور اس کی تعداد اشاعت ایک لاکھ سے زیادہ ہوگئی تھی۔ ’شمع‘ رنگین طباعت سے نہایت عمدہ کاغذ پر شائع ہوتا تھا۔ ’شمع‘ اکلوتا رسالہ تھا جسے ملک کے تمام بڑے تجارتی اداروں کے رنگین اشتہارات ملا کرتے تھے۔تجارتی دنیا میں ’شمع‘ کی عزت ووقعت کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتا ہے کہ1969میں یونس دہلوی ہندوستان میں اردو اخبارات وجرائد کی سب سے بڑی تنظیم انڈین نیوز پیرس سوسائٹی (INS) کے صدر منتخب ہوئے تھے۔ کسی اردو رسالے کو یہ اعزاز پہلی مرتبہ حاصل ہوا تھا اور شاید آخری بھی۔ اتنا ہی نہیں وہ اخبارات وجرائد کی سرکولیشن کا سرٹی فکیٹ دینے والی سب سے معتبر تنظیم آڈٹ بیورو آف سرکولیشن (ABC) کی ایکزیکٹیو میں بھی شامل تھے۔ وہ اخبارات وجرائد کی کئی عالمی تنظیموں سے بھی وابستہ رہے۔وہ 1999 میں اردواخبارات وجرائد کی سب سے قدیم تنظیم آل انڈیا اردو ایڈیٹرس کانفرنس کی سلورجوبلی کے موقع پر اس کے جنرل سکریٹری چنے گئے۔ اس موقع پر راقم الحروف کو کانفرنس کا سکریٹری منتخب کیاگیا تھا۔ اس طرح یونس دہلوی کو دوسری بار قریب سے دیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملا۔ وہ کم گو، سنجیدہ، باوقار اور مہذب انسان تھے۔ چائے کے مقابلے میں گرم پانی کو ترجیح دیتے تھے۔
’شمع‘ میں کرشن چندر، عصمت چغتائی، راجندر سنگھ بیدی، خواجہ احمد عباس، حفیظ جالندھری، حسرت جے پوری، قتیل شفائی، سلام مچھلی شہری، رضیہ سجاد ظہیر، راجہ مہدی علی خاں، ساحر لدھیانوی، رام لعل، سراج انور، شفیع الدین نیر، جیلانی بانو، نریش کمار شاد اور واجدہ تبسم کی تخلیقات مسلسل شائع ہوتی تھیں۔ تمام سرکردہ ادیب ’شمع‘ میں شائع ہونے کو ترجیح دیتے تھے۔ کہاجاتا ہے کہ ایک زمانے میں اداکارہ میناکماری اور نرگس نے بھی ’شمع‘ کو اپنی تحریروں سے نوازا تھا۔ دلیپ کمار سمیت تمام بہترین اداکاروں کے انٹرویوز ’شمع‘ میں شائع ہوا کرتے تھے۔ ’شمع‘ کا ایک انتہائی مقبول کالم سوال وجواب کا تھا۔جس میں قارئین کے سوالات کے انتہائی دلچسپ اور معلوماتی جوابات دیئے جاتے تھے۔ ہر جواب میں ایک دلچسپ قصہ، لطیفہ یا حکایت ضرور نقل کی جاتی تھی۔ سوال وجواب کا کالم میرے ہم وطن مرحوم جلیس عبدی کے ذمے تھا جو ایک گوشہ نشین قسم کے انتہائی کم گو انسان تھے۔شمع‘ کے عروج کے زمانے میں جو سرکردہ ادیب اور صحافی اس سے وابستہ رہے ان میں سعید سہروردی، سلامت علی مہدی اور ظہیر ناصر کے نام قابل ذکر ہیں۔
ادارہ ’شمع‘ کو حافظ یوسف دہلوی نے 1939میں پرانی دہلی کے پھاٹک حبش خاں سے شروع کیا تھا۔ ’شمع‘ کی ابتدائی قیمت دو آنے اور سالانہ چندہ ایک روپیہ تھا۔ ملک کی تقسیم کے وقت ’شمع‘ کا دفتر پھاٹک حبش خاں کی جس ’دل خوش بلڈنگ‘ میں واقع تھا، وہاں اس کا کاغذ کا گودام لوٹ لیاگیا اور بلڈنگ پر قبضہ کرلیاگیا۔ ’شمع‘ کی اشاعت کچھ عرصے کے لئے بند ہوگئی۔ مئی 1948میں ’شمع‘ کا دوبارہ اجراء عمل میں آیا اور اسی سال حافظ یوسف دہلوی نے اپنے بیٹوں کے اصرار پر بچوں کا ماہنامہ ’کھلونا‘ جاری کیا۔’کھلونا‘ نے اپنی صاف ستھری طباعت کے سبب مقبولیت حاصل کی اور اس کی اشاعت بھی 40 ہزار تک پہنچ گئی۔’کھلونا‘ کے ذریعے اکثر بچوں نے اردو سیکھی۔
1958میں ادارہ ’شمع‘ نے خواتین کے لئے ماہنامہ’بانو‘ کی اشاعت کا سلسلہ شروع کیا۔ جس کی مدیرہ یونس دہلوی کی اہلیہ زینت کوثر دہلوی تھیں۔ 1967 میں ادارہ ’شمع‘ نے ’شبستاں‘ ڈائجسٹ کا آغاز کیا۔ فیض احمد فیض کے انتقال کے بعد ’شبستاں‘ نے انتہائی معیاری ’فیض نمبر‘ شائع کیا جس کی صورت گری سعید سہروردی مرحوم نے کی تھی۔ ’شبستاں‘ کے مدیر ادریس دہلوی تھے۔ جس زمانے میں جاسوسی ادب کا بول بالا تھا اور ابن صفی کا طوطی بول رہا تھا تو ’شمع‘ نے 1966 میں جاسوسی کہانیوں پر مشتمل جریدہ ’مجرم‘ جاری کیا اور بعد کو ہندی قارئین کے لیے اس کا ہندی ایڈیشن ’دوشی‘ بھی جاری کیا گیا۔’شمع‘ کا بھی ہندی ایڈیشن ’سشما‘ کے نام سے جاری کیا گیا تھا، جو ہندی قارئین میں بہت مقبول تھا۔ ’شمع‘ سے شائع ہونے والا ہفت روزہ ’آئینہ‘ اپنی طرز کا ایک منفرد اخبار تھا جس کی ادارت معروف صحافی ظ۔انصاری کو سونپی گئی تھی۔ لیکن اس کی اشاعت زیادہ دنوں تک جاری نہیں رہ سکی۔ قانونی مجبوریوں کے تحت معمہ بند ہوا تو ’شمع‘ کی اشاعت بھی متاثر ہوئی اور آہستہ آہستہ یہ تاریخ ساز ادارہ اردو صحافت میں ایک تاریخ رقم کرکے ختم ہوگیا۔آصف علی روڈ پر واقع ’شمع‘ کا دفتر آج ایک کھنڈر کی صورت میں موجود ہے، جب کبھی وہاں سے گزرتا ہوں تو پرانی یادیں تازہ ہوجاتی ہیں۔ اللہ باقی من کل فانی
تحریر: معصوم مرادآبادی