ہندو۔مسلم اتحاد کی ایک مثال ہے امرناتھ یاترا: معراج احمد قمر

بارہ بنکی(ابوشحمہ انصاری)گزشتہ یکم جولائی ٢٠٢٣ کو امرناتھ یاترا کا آغاز ہو چکا ہے امرناتھ کی یہ یاترا دو مہینے چل کر ٣١، اگست کو اختتام پزیر ہو گی۔ یہ یاترا ہندوٶں میں بڑی مقدس مانی جاتی ہے جس کے تحت وہ یونین ٹیریٹری جموں اینڈ کشمیر میں واقع پہلگام اور بالٹال بیس کیمپ میں جمع ہوتے ہیں تاکہ وہ گپھا کے لئے ایک ساتھ اپنے سفر کا آغاز کرسکیں- اس یاترا کے تئیں انکی عقیدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ زائرین پہلگام بیس کیمپ سے تقریباً ٥٠، کلو میٹر کی مخدوش سیدھی چڑھائی کا پہاڑی راستہ پیدل اور خچروں کے ذریعے طۓ کرتے ہیں جن میں زیادہ تر عقیدتمند پیدل ہی یاترا مکمل کرتے ہیں !
امرناتھ یاترا ہندو مذہب میں دن بدن مقبولیت حاصل کر رہی ہے- اسے پورا کرنے کے لئے موسم گرما کے ایام میں ملک بھر سے پہونچنے والے ہندو زائرین اپنے عقیدے کے مطابق مقدس گپھا میں شیولنگ کا درشن کرنے پہونچتے ہیں- یہ زائرین بڑی صعوبتیں برداشت کر گپھا میں حاضری کر درشن کرتے ہیں حالانکہ یہ یاترا ہندو مذہب سے وابستہ ہے لیکن بہت کم لوگوں کو یہ معلوم ہے کہ اس کا ایک مسلم خاندان سے بھی گہرا تعلق ہے- امرناتھ یاترا کی تاریخ اس بات کا جیتا جاگتا ثبوت ہے !
خیرسگالی، اخوت، کا جذبہ ناقابل فراموش ہے نفرت پھیلانے والوں کی تمام تر کوششوں کے باوجود یہ اتحاد امن و محبت کی ڈور ٹوٹنے والی نہیں- امرناتھ گپھا کو ١٨٥٠،ء میں ایک مسلم بوٹاملک نامی چرواہے نے تلاش کیا تھا جسے آج بھی امرناتھ شیولنگ کا واسکوڈیگاما کہتے ہیں علاقائی روایتوں کے مطابق بوٹاملک کو مویشی چرانے کے دوران ایک سنت ملے جنہوں نے اسے کوئلے سے بھرا ایک تھیلا دیا گھر آنے پر تھیلے میں بھرا کوئلہ سونے میں بدل گیا بوٹا ملک بھاگا بھاگا پہاڑی پر پہونچا لیکن اسے وہ بزرگ نہیں ملے انہیں تلاش کرتے چرواہے کو ایک گپھامیں یہ شیولنگ دکھ گیا لوگوں کاخیال ہے کہ وہ بزرگ جنہیں برفانی بابا بھی کہاجاتا ہے نے ایسا چاہا کہ شیولنگ کا چرواہے کے ذریعہ لوگوں کو پتہ چل سکے !
اس واقعہ کے بعد بوٹاملک کا خاندان اور ایک ہندو پروہت نے اس شیولنگ کی تشہیر کر لوگوں کو اس جانب متوجہ کر یہاں کا انتظام و انصرام سنبھال لیا زائرین کی بڑھتی تعداد اور چڑھاوے کی کثیر آمدنی کو دیکھتے ہوۓ مقامی برہمنوں نے مسلم بوٹاملک کے افراد خانہ کے ساتھ پروہت مہاسبھا و دشنامی اکھاڑا تشکیل دے کر امرناتھ گپھا کا انتظام بہتر طریقہ سے کرنا شروع کردیا !
آج کے فرقہ وارانہ ماحول میں یہ ہندو مسلم اتحاد کی ایسی مثال ہے جس کی معلومات عام کر کے سیاسی انتہاپسندوں کی فرقہ وارانہ سازشوں کو نکیل دی جاسکتی ہے حالانکہ سنہ ٢٠٠٠ء میں موجودہ وقت کی حکومت نے بوٹاملک اور ہندو خانوادوں کو بے دخل کر سارا انتظام خود سنبھال لیا ہے لیکن ہندوستان کی مشترکہ روایات، تہذیب و ثقافت ہمیشہ زندہ اور پائیدار رہیں گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے