پانی پانی کرگئی مجھ کو قلندر کی یہ بات

تحریر: احمد رضا عارف شمسی
اپنے من میں ڈوبا ہوا خود سے باتیں کررہاتھا جیساخیال آتاگیا خود کا محاسبہ کرتے کرتے ویسےہی  تحریر رقم ہوگئی 
بات کہاں سے چلی اور کہاں جاکر ٹھہری 
آج کرونا وائریس اور لاک ڈاون سے پوری دنیا کس طرح پریشان ہے  یہ بیان کرنے کی حاجت نہیں 
کہیں بھوک ہے ، کہیں موت ہے ، کہیں ظلم ہے تو کہیں نفرت کی آگ سے سیاست کی روٹیاں سیکی جارہی ہیں  ، کہیں الزام تراشی ہے  کہیں مسلمانوں سے بائکاٹ ہے ، کہیں پھٹکار ہے تو کہیں ڈانٹ ہے 
مسجدیں سونی ہیں ، مدرسے خالی ہیں ، جمعہ کےلیے روک تھام ہے ، کہیں درپیش مسئلہ اذن عام ہے ،  دارالافتا کا رخ کیے عوام ہے ، مفتیان کرام بھی پریشان ہیں ، ہر مفتی کا مناظرے کیلیے صدائےعام ہے،  کہیں دفن کے مسائل ہیں   تو کہیں معاملہ غسل میت کاحائل ہے ، تو کہیں مسئلہ نماز جنازہ کا لےکے آیا سائل ہے  
نِت نئے مسائل ہیں الگ الگ دلائل  ہیں 
اس بیماری کو کسی نے  *جامد* کہا تو کسی نے *مشتق*
کسی نے  *لازم* کہا تو کسی نے *متعدی*
کوئی کہتا ہے کرونا بیماری خطرناک ہے   تو کسی نے کہا یہ سب پھیک پھاک  
کہیں سے آواز آتی ہے یہ بیماری ہے سچ ہے اس کی کئی مثالیں ہیں 
کوئی بول پڑا یہ سب یہودیوں کی چالیں ہیں 
پوری دنیا کہتی ہے یہ آیاہے چین کے وہان سے 
مگر ہندواستان کی میڈیا کہتی ہے یہ آیا ہے مسلمان سے 
کروناایساعجیب معمّہ بن کر رہ گیا ہے 
جیسے بات سمجھنے کی ہو نہ سمجھانے کی
ڈاکٹروں کا کہناہے یہ بیماری ہے لاعلاج 
پھر بھی اکثر صحت یاب کیسے ہوجاتاہےسماج؟
کیا یہ معمّہ نہیں ہے  
آخر یہ بیماری کیسی بیماری ہے 
جس پہ حیران دنیاساری ہے
تعجب ہے ! پانی سے ختم ہوجاتا ہے مگر دوا نہیں ہے  
یہ وائرس ہے اتنا باریک ہے کہ ہاتھ کے زریعے ناک اور منہ میں جاکر گلے اور سینے کو جام کردیتا ہے 
یہاں تک کہ ہاتھ کے مسام( یعنی بال کی جڑوں میں جو باریک سوراخ ہے) کے زریعے بدن میں پھیل جاتاہے اس لیے ہاتھ میں دستانہ پہنیے منہ اور ناک کو ماسک سے ڈھک لیجیے 
مگر یہ کان میں کیوں  نہیں گھس کر سینہ اور گلا جام کرپاتاہے  کہیں ایسا تو نہیں کہ وہان کے لیب میں یہ وائرس ادھوری پڑھائی کرکے آگیاہو کہ اس کو ہمارے کان کارستہ ہی نہ پتہ ہو کہ کدھر جاتاہے 
یہ عجیب معمّہ ہے نہ سمجھنے کا نہ سمجھانے کا  
کہاجاتاہے کہ وائرس زدہ شخص جس سامان کو چھولے اس میں بھی سماجاتاہے یہ مرض اس لیے سنٹائز کرتے رہیے 
دروازہ دھلیے کنڈی دھلیے ہاتھ دھوتے رہیے  
ہاتھ مت ملائیے احتیاط کیجیے دور سے لین دین کیجیے 
مگر روپیہ میں یہ وائریس کیوں نہیں لگتا 
اس لیے ہاتھوں ہاتھ لین دین ہورہاہے نہ روپیہ کا سنٹائز ہورہا ہے نہ اس کا کورنٹائن 
آخر معمّہ کیا ہے ؟ 
آخر کس سے سمجھیں، کس سے پوچھیں ، کدھر جائیں ، کون اس سوال کا جواب دے گا 
*فلسفی چپ ہیں، سائنسدان چپ ہے، ڈاکٹرس چپ ہے ،وزیر صحت بھی چپ ، خود ساختہ دانشورانِ قوم کی انجمن خاموش ، عقل و خرد گتھیاں سلجھانے والے مہر بر لب* 
*خداوندہ یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں* 
علما نے کہا ادھر آئیں ادھر آئیں 
لوگوں سے کہیں  کہ وہ سدھر جائیں  
جب لوگ اللہ ورسول کی فرمابرداری سے مکر جائیں ، تب آسمانوں سے اتراکرتی ہیں بلائیں، 
اس کو اللہ کا عذاب کہتے ہیں 
عذاب ایساہی ہوتا ہے 
اس سے متاثر تو سب ہوتےہیں
مگر فرمابرداروں کےلیے اتنی سی گنجائش ہے کہ اس کے لیے یہ آزمائش ہے 
 اللہ تعالی نے کتنے پیار سے ہمیں پکارا 
*یاایھاالانسان ماغرک بربک الکریم* 
اے انسانوں تمہیں اپنے کرم فرمانے والے رب سے کس نے دھوکے میں ڈالاہے
*کلا لما یقض ماامرہ* 
بےشک اب تک اس نے پورا نہ کیا جس کا اسے حکم تھا
جب کہ کروڑہا نعمتیں رب نے ہمیں دی

ں ہم نے کیا کیا 

*من ای شیء خلقہ* 
*من نطفة خلقہ فقدرہ* 
*ثم السبیل یسرہ* 
اس نے ایک قطرے پانی سے ہماری تخلق فرمائی پھر ہمارے لیے راستہ آسان فرمایا 
مزید یہ کہ 
*ثم اماتہ فاقبرہ* 
پھر ہمیں موت دی  پھر قبر دیا
جب کہ انسان پر حالات ایسےبھی آئےکہ موت کی تمنا لیے آیا اگر موت نہ دیتا تو کیاکرتا 
مرنے والے تو بہت مرے کسی کو نذر آتش کیاگیا کسی کو جنگلی اور دریائی درندوں چرندوں پرندوں نے چیر پھاڑ ڈالا مگر اے انسان تمہیں رب کی نعمت کا شکر ادا کرناچاہیے تھا کہ اس نے موت دے کر عزت کے ساتھ قبر میں رکھوایا 
آج ہمیں ہمارا رب دیکھارہاہے کہ دیکھو اگر تمہارا رب اپنا کرم تم پر سے اٹھالے تو تمہیں دفن کرنے کیلیے کوئی تیار نہ ہو، تمہیں قبرستان میں بھی جگہ نہ ملے 
*قتل الانسان ما اکفرہ* 
آدمی ماراجائے کہ کتنا نا شکرا ہے وہ 
*فااعتبرو یااولی الابصار* 
اہل بصیرت کےلیے عبرت ہے 
اس عبرت کو عقل مند ہی سمجھ سکتے ہیں 
فرماتاہے 
*عبرة لاولی الالباب*
کیا اللہ نے نشانی کےطور پر نہ دیکھادیا کہ 
*ِیوم یفرالمرء من اخیہ* ، *وامہ وابیہ*،  *وصاحبتہ وبنیہ*
بھائی بھائی سے کیسے بھاگے گا
ماں باپ اپنی اولاد سے کیسے بھاگیں گے 
   
کرونازدہ مریض اور میت کے حالات سے سمجھاجاسکتاہے
بات تو سچی ہے مگر سوال پیدا ہوتا ہے خدائے واحد کے جلال وجبروت کا اس طرح اظہار ہمیشہ کیوں نہیں ہوتا جب کہ گناہ ہوتے ہی رہتے ہیں  آخر ایسا کون سا گناہ ہے جو اللہ کے جلال کو دعوت دیتا ہے اور ساری دنیا پر قہر ٹوٹ پڑتاہے 
جواب دینے والے نے جو جواب دیا ہے سو فیصد ان کی بات کی تصدیق ہوتی ہے  
*پانی پانی کرگئی مجھ کو قلندر کی یہ بات* 
 کہ آج جوپوری قوم پر عذاب ہے اس کے  بہت سارےاسباب ہیں جن میں تین سبب اہم ہے 
*(١)* *گستاخی انبیا و اولیا*
*(٢)* *سود کا عام ہونا*
*(٣)* *نہتے کمزوروں پر ظلم*
غور کرنے کا مقام ہے کہ 
اللہ تعالی نے صرف دو گناہ پر اعلان جنگ فرمایا  کہ اللہ اس سے اعلان جنگ فرماتاہے 
جیساکہ بخاری شریف میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ 
*من عاد لی ولیا فقد اذنتہ للحرب*
جو میرے کسی ولی سے عداوت رکھے اس سے میں نے جنگ کااعلان کردیا
آج آئے دن کہیں نہ کہیں ناموس رسالت پر شب خون مارا جارہا ہے 
اور یہ یاد رہے کہ اللہ تبارک وتعالی نے کسی قوم پر اس وقت تک عذاب مسلط نہیں فرمایا جب تک قوم نے اپنے دور کی نبی و رسول کی تکذیب نہ کی  جب جب تکذیب کی ، شان رسالت میں  گستاخی کی ، اللہ نے اس قوم پر مختلف قسم کے عذاب نازل فرمائے 
 قابل غور بات یہ بھی ہےکہ  فرعون نے خدائی کادعوی کیا مگر عذاب نازل نہ ہوا 
بلکہ حضرت موسی علیہ السلام کو یہ حکم ہوتا ہے کہ جائیے اورفرعون کو نرمی سے سمجھائیے مگر جب خدائی کادعوی کرنے والا وہی فرعون حضرت موسی علیہ السلام کی گستاخی پر اتر آیا تو دریائے نیل میں غرق کردیاگیا
اگر کوئی فرد واحد گستاخی کرے تو اس پر بھی عذاب آکر رہےگا 
جو اس کا ساتھ دے اور گستاخوں سے دوستی نبھائے اس پر بھی غذاب مسلط کیا جائےگا
کیوں کہ اللہ  جسے محبوب رکھتاہے جسے اپنا دوست اور ولی فرماتاہے اس  کی گستاخی ہرگز پسند نہیں فرماتا  
اس اپناعذاب مسلط کرتاہی کرتاہے
آج دنیا بھر میں یہی کچھ ہورہا ہے کہ جس نے ناموس رسالت پر بھونکنا شروع کیا اسے حکومتی تحفظ مل جاتا ہے سروں پر دستار باندھی جاتی ہے یا کوئی عہدہ دے دیاجاتاہے 
جب یہ کام ملکی پیمانے پر ہورہاہے تو عذاب تو پورے ملک میں ہی آناہے 
*اس لیے انبیا ءورسل صحابہ و اہل بیت اور ولیوں کے دشمنوں سے ہمیشہ دور رہیے اور اس کو اپنے سے دور رکھیے* 
دوستی اللہ کیلیے اور دشمنی بھی اللہ کیلیے کیجیے جسے گستاخ پائیے اسے فورٙٙا اپنے سے جدا کردیجیے اپنا رشتہ ناطہ توڑ دیجیے  
یہ کیسے درست ہوسکتاہے کہ 
*سجدہ خالق کو بھی ابلیس سے یارانہ بھی*
دوسرا گناہ سود ہے جس کے متعلق اللہ تعالی کا ارشاد ہے 
*فان لم تفعل فاذنو بحرب من اللہ ورسولہ* اگر تم پھر ایسا کروگے (یعنی سود کاکاروبار) تو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے جنگ کا یقین کرلو 
اور یہ گناہ بھی ملکی پیمانے پر ہورہا ہ

ے دور حاضر میں کیانمازی کیا حاجی کیادنیادار سب اس میں ملوث نظر آتے ہیں 

یہ جانے انجانے میں بہت زیادہ ہورہاہے 
تیسرا سبب مظلوموں کی آہیں ہیں 
کیوں کہ مظلوم کی آہ اور اللہ کے درمیان کوئی پردہ نہیں ہے یہ عرش الہی کو ہلاکر رکھ دیتی ہے 
اس میں بھی پورا ملک ملوث ہے 
اور ان تینوں گناہوں میں قصدٙٙا ہو یا سہوٙٙا کسی نہ کسی طریقے سے ہم بھی شریک ہیں 
وہ شرکت خاموشی کی وجہ سےہو یا ایسے لوگوں سے میل جول کی وجہ سے لہذا ہم بھی گنہگار ہیں 
*الحاصل* 
*یہ کہ ہم اس وقت اللہ و روسول سے حالت جنگ میں ہیں*
اللہ اکبر   اللہ اکبر   اللہ اکبر
تصور سے ہی کانپ جانے کا مقام ہے کیا اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کرنے کی تاب کسی میں ہوسکتی ہے
اب سوال پیداہوتاہےکہ  
*اس عذاب سے بچنے کی صورت کیا ہے*
تو میرے عزیز دوستو تین چیزوں کو لازم پکڑلو
جس خدا نے جنگ کا اعلان فرمایا ہے اسی نے جنگ کے اصول میں یہ بھی فرمایاہے کہ اگر دشمن ہتھیار ڈال دے اور معافی چاہےتو معاف کردو 
*(١)* لہذا ہمیں چاہیے کہ سرکشی اور نافرمانی کے سارے ہتھیار ڈال کر ہاتھ اٹھادیں اور سجدے میں گرجائیں اس کی تسبیح کریں لاحول پڑھیں اور استغفار کی کثرت کریں
امید ہے کہ اللہ ہمیں معافی دےدیگا 
*(٢)* گھنٹہ دوگھنٹہ روزانہ درود وسلام کےلیے مختص کرلیں 
*(٣)* صدقہ بلاوں کو ٹالتا ہے گناہوں کو مٹاتا ہے لہذا اس کو بھی حتی المقدور اپنے اوپر لازم کرلیں صدقہ کی اہمیت کو سمجھیں 
اپنے رب کے منشا کو سمجھیں 
قسم توڑ دو تو دس مسکین کو کھانا کھلاو یہ اس کا کفارہ ہے
روزہ توڑدو تو ساٹھ مسکینوں کھانا کھلاو یہ اس کا کفارہ ہے 
ان تمام  مسائل سے کیا سمجھا آپ نے 
آخر کیا بات ہے کہ 
گناہ آپ کر رہے ہیں 
پیٹ غریب کا بھر رہاہےاور ادھر گناہ معاف ہورہاہے 
صدقہ کی اہمیت کا اندازہ ایک آیت سے لگائیے کہ
اللہ فرماتاہے
*ہم نے جو تمہیں رزق دیا اس سے اس وقت سے پہلے پہلے کچھ (ہماری راہ میں) خرچ کرلو کہ تم میں کسی کی موت آئے تو کہنے لگے کہ اے میرے رب تونے مجھے تھوڑی سی مدت تک کیوں مہلت نہ دی کہ میں صدقہ کرتا اور صالحین میں ہوجاتا*(س منٰفقون آیة ١٠)
مقام غور ہے کہ مرنے کے بعد آدمی دنیا میں آنے کی تمنا صرف اس لیے کرےگا کہ میں اپنامال صدقہ کردوں 
اعمال خیر تو بہت سے ہیں مگر صدقہ کی اہمیت اس سے واضح ہے 
جہاں احبا اقربا اور دوسرے غریبوں محتاجوں کا خیال رکھیے وہیں یہ بھی ضروری ہے کہ  ایسے سخت حالات میں مدارس اور مساجد کو نہ بھولیے 
مساجد سے مختلف پریشانیا سامنے آرہی ہیں اس لاک ڈاون کے ماحول میں لوگوں کی توجہ کم ہے 
مساجد کے بھی خرچے ہیں بجلی ،پانی ،مرمت ائمہ و موذنین کی تنخواہیں  یہ اشد ضروری ہیں 
یاد رکھیے دور حاضرمیں جو کچھ اللہ و رسول کا فرمان اور دینی باتیں لوگوں کی زبان پرہیں وہ صرف اور صرف مدارس اور مساجد کی مرہون منت ہیں ورنہ تھوڑی دیر کیلیے تصور کیجیے کہ آپ کے پاس نہ مدرسہ ہے نہ مسجد پھر جو ماحول اور حالات کا تصور ہوگا  اس کا صرف تصور ہی آپ کے وجود کو ہلاکر رکھ دےگا 
 سب کچھ ہوتے ہوے بھی آپ کے پاس مدارس و مساجد نہیں تو کچھ بھی نہیں ہے
لہذا جان بچانے کےلیے لوگوں کے کھانے پینے کا جہاں  انتظام کیجیے
تو وہیں  آنے والی نسلوں کے ایمان کو بچانے کےلیے مدارس اور مساجد میں بڑھ چڑھ کر تعاون بھی کیجیے 
ہر انسان کو اللہ نے کسی نہ کسی لائق ضرور بنایاہے ہرشخص اپنے لائق کام کرے جس کی وہ طاقت رکھتاہے 
ایک حکایت یاد آتی ہے کہ ایک شخص نہایت مفلسی کی زندگی گزار رہاتھا ، سات بیٹیاں شادی کرنی ہے، آمدنی کے کچھ زرائع نہیں ہیں ، روٹی روٹی کا محتاج ہے ، بیچارہ ایک بزرگ کے پاس گیا کہ کچھ وظیفہ لےکر اپنے لیے دعا کرائے اور برکت و حاجت پوری ہونے کا تعویذ بھی دے دیں 
گیا اور بزرگ سے مودبانہ اپنی پریشانی سنایا 
حضرت نے فرمایا سب ٹھیک ہوجائےگا روزانہ سو دو سو بھوکوں کو کھانا کھلاو 
اللہ تعالی سارا راستہ آسان فرمائےگا 
اتنا کہکر بزرگ اپنے کام میں مشغول ہوگئے 
سوچا کوئی مجذوب یا پاگل کے پاس ہم غلطی سے آگیے
اس شخص کی امید پر پانی پھر گیا مایوس ہوکر آنکھ میں آنسو لیے واپس ہورہاتھا 
کہ دروازے پر موجود بزرگ کےخادم نے پوچھا کیا بات ہے کیا مصیبت آن پڑی ہے
اس شخص نے اپنی حالت زار اور

بزرگ کا مشورہ سنایا 

اتفاق سے وہ خادم حضرت کا مزاج شناس تھا کہا 
حضرت نے بھوکوں کھلانے کیلیے کہا ہے اور بھوکے صرف انسان ہی نہیں ہوتے چونٹیاں بھی تو بھوکی ہوتیں ہیں مٹھی بھر آٹا آپ نہیں ڈال سکتے کیا اللہ نے آپ کو اتنی بھی حیثیت نہیں دی ہے 
وہ شخص گیا اور اس پر عمل پیرا ہوا
کہتا ہےکہ کچھ ہی مہینے گزرے ہونگے کہ ایسی برکت ہوئی کہ سب بیٹیوں کی شادی بھی ہوگئی اور اللہ نے مجھے غنی کردیا آج بھی اس کے نسل میں کئی پشتوں سے چڑیا کو دانہ ڈالنے کارواج ہے 
اس واقعہ سے ایسا نہ ہو کہ امیر کبیر شخص بھی صرف چونٹیوں کو شکر دے کر اپنی ذمہ داری سے دامن جھاڑ لے 
مقصد یہ ہے کہ مخلوق اللہ کی عیال ہے اس پر رحم کریں اللہ آپ پر رحم کرےگا 
ہر شخص اپنے حصے کا کام کرے اللہ نے سب کو لائق بنایا ہے 
اب اللہ کی راہ میں خرچ کا مطلب بھی سمجھتے چلیے 
ایک بزرگ کا کسی زمانے میں بہت شہرہ تھا ایک شخص غائبانہ ان سے محبت رکھتاتھا اور بیعت کی خواہش بھی 
تجارت کےلیے نکلا اور اسی ملک میں پہنچ گیا جہاں بزرگ رہتے تھے 
جاکر ملاقات کی اور بیعت کا طالب ہوا اور عرض کی حضور مجھے کچھ نصیحت فرمادیں ابھی عجلت میں ہوں تجارت سے واپسی ہوگی تو وقت دونگا اور جو سبق ارشاد فرمائیں گے اس پر عمل کرونگا 
حضرت نے فرمایا صرف ایک نصیحت یاد رکھنا وہ یہ کہ
*اللہ کو اپنے سے بڑا نہ سمجھ سکو تو چھوٹا بھی نہ سمجھنا*
وہ شخص اس نصیحت پر بڑا حیران ہوا کہ حضرت اس کا کیا مطلب ہے کون مسلمان اللہ کو چھوٹاجانے گا 
فرمایا جا اتناہی یاد رکھ مطلب بعد میں سمجھادونگا 
وہ شخص چلاگیا ایک جگہ قافلہ رکا خیمہ گاڑھ کر آرام کیا بھوک لگی بازار گیا آٹا دال اور مرغی لےکر آیا پکاکر کھانے بیٹھاتھا کہ دروازے پر کسی سائل نے صدا لگائی 
کوئی اللہ کے نام پہ کھاناکھلادے بابا
دو روٹی اور دال اٹھاکر سائل کو دےدیا 
پھر خودبھی کھایا اور سوگیا 
تجارت سے واپسی پر پھر اپنے اسی مرشد کے پاس پہنچا اور مزید سبق اور نصیحت کا مطالبہ کیا 
مرشد نے فرمایا ایک نصیحت یاد نہیں رکھ سکا اور دوسرا سبق کیا دوں 
کہنے لگا حضرت میں نے تو ایسا خیال تک نہیں لایا کہ اللہ ہم سے چھوٹا ہے 
فرمایا کہ 
اللہ کےنام پر تو دال روٹی دیتے ہو اور خود مرغی کھاتے ہو 
تو بتاو کہ اللہ کو کیا سمجھا 
کم سے کم برابر والا سلوک کرلیا ہوتا 
اللہ اللہ 
*پانی پانی کرگئی مجھ کو قلندر کی یہ بات* 
اس طرح کی بہت سی عبادت ہے جس میں ہم بڑی بڑی غلطیاں کرتے ہیں اور ہمیں خبرتک نہیں ہوتی ہمارا خیال درست نہیں ہوتا
اور اپنے کو نیکوں میں شمار کرتے ہیں جب کہ خودکا نیک ہونے پر مطمِئن ہوجاناہی بڑاگناہ ہے
خود بدعمل رہ کر بھی دوسروں کی بدعملی پر انگشت نمائی کرنا ہمارا شیوہ بن چکاہے 
ہم کہتے تو ہیں کہ دنیا میں گناہ بڑھ گیا مگر اپنا محاسبہ ہم کبھی نہیں کرتے 
ہمارے اسلاف نے کیسی کیسی مشقتیں برداشت کرکے ریاضتیں کیں پھر بھی اپنے کو گنہگار کہکر روتے رہے 
گزشتہ چند سال پہلے سلوک و تصوف کی کتاب کے مطالعہ میں ایک تحریر پہ نظر پڑی کہ 
بزرگان طریقت ایسے بھی گزرے ہیں جو اپنی نماز کو بھی گناہ سمجھتے تھے بلکہ زنا سے بدتر سمجھتے اور نماز پڑھ کر بھی رویا کرتے اور توبہ کرتے 
ان کا خیال یہ تھا کہ زنا میں انسان  حق کو بھول کر غیر حق میں مشغول ہوتا ہے
ہم بھی جب نماز کو کھڑے ہوے اللہ کی بارگاہ میں،  تو خیالِ دنیا آیا اور وہ بھی رب کے سامنے جب کہ اس وقت دل کو غیر حق کی یاد سے خالی ہوناچاہیےتھا تو گویا ہم نے نماز کیا پڑھی بارگاہ الہی کا ادب بھی نہ کرسکا 
اللہ نے تو فرمایا *اٙقِمِ الصّٙلٰوةٙ لِذِکْرِی* مگر دل میں تو غیر کا ذکرتھا 
اللہ اللہ 
*پانی پانی کرگئی مجھ کو قلندر کی یہ بات*
*تو جھکاجب غیر کے آگے تو من تیرا نہ تن* 
آخروہ کونسا تصور تھا جس سے سرکار غوث اعظم جیسا مقرب بندہ بھی کعبہ کے غلاف میں لپٹ کراپنی بخشش اس طرح طلب کررہاہے جیسے دنیا کا سب سے بڑاخطاکار ہو 
در اصل اللہ کی صفت صمدیت سے سب خوف زدہ رہے 
اللہ ہر چیزسے بے نیاز ہے نہ ہماری تسبیح نہ حمد کی اس کو حاجت ہے نہ ہم کو بخشنا اس پر لازم ہے وہ تو ہرچیز سے بے نیاز ہے اس کو کسی کی ضرورت نہیں سب اس کے محتاج ہیں 
آج ہم
حقیر فقیر سراپا تقصیر انکساری کے الفاظ لکھتے ضرور ہیں مگر یہ بھی تکبرکےساتھ
یہ کسی سچے نیکوکارکا صدقہ ہے جو اللہ ہمیں رزق کھلارہاہے ورنہ ہم تو زمین میں دھنسادیے جانے کے قابل ہیں 
ہمیں تو نہ نیکی کا پتہ ہے نہ گناہ کا 
جب جلال الدین رومی جیسا مرد دانہ اور صاحب علم 
ایک حقیقت آشنا کی صحبت کے بعد بےساختہ یہ کہنے پر مجبور ہوجاتاہے کہ
*مولوی ہرگز نہ شد مولائے روم*
*تا غلامِ شمس تبریزی نہ شد* 
تو ہم کس کھیت کے مولی ہیں ہم نے کیاجانا اور کیا سمجھا 
نہ کسی مرد دانہ کی صحبت اختیار کی نہ ان سے کچھ سیکھا
*اےشوق جنوں بےکار نہ رہ کچھ خاک اڑا ویرانے کی*
*دیوانہ تو بننا مشکل ہے صورت ہی بنا دیوانے*
اےاللہ ہم تو صرف نقالوں میں ہیں جس کی نقل کرتے ہیں اسی کے ساتھ اٹھانا مولی
صرف ہمیں اتنا معلوم ہے کہ تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا رب ہے  ہمارا رب ہے بس 
عبادت اور نیکی سے ہمارا دور دور تک کہیں کوئی واسطہ نہیں
   
اس تحریر کا مقصد صرف اتنا ہے کہ ہمیں توبہ کی ضرورت ہے 
فقط
مجھ گناہ گار کوبھی اپنی نیک دعاوں میں یاد رکھیں اور میرے لیے بھی بخشش کی دعاکریں

One thought on “پانی پانی کرگئی مجھ کو قلندر کی یہ بات

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے