تحریر:زین العابدین ندوی
آج کے نام نہاد، غیر شائستہ ادب ناشناس دور ترقی میں صحافیوں کی ریل پیل ہے، بزبان حال وہ بھہ صحافی کا دعویدار ہے جسے صحافت کے دائرہ عمل اور تاریخ سے بھی واقفیت نہیں، قلم پکڑ لینا اور بے تکے افکار کو قلمبند کرنا ہی ان کے یہاں صحافت کہلاتا ہے، انہیں اس کی ذرا بھی پرواہ نہیں ہوتی کہ وہ کس سے مخاطب ہیں؟ اور کس موضوع پر خامہ فرسائی فرما رہے ہیں؟ اس کی حقیقت کیا ہے اور زمینی واقعہ کیا ہے؟ حالانکہ ایک صحافی کے لئے سب سے پہلی شرط یہ ہے کہ وہ جس موضوع سے متعلق اپنی معلومات سپرد قرطاس کرنے جا رہا ہے اس کے مالہ وما علیہ سے مکمل واقفیت ہو، جذباتیت اور جوش وجنوں کا اثر کم اور سنجیدگی ومتانت کا عنصر غالب ہو، دوسری بات یہ کہ وہ کسی بھی موضوع پر قلم اٹھانے میں بالكل غیر جانبدار ہو، حقیقت اور سچائی بیان کرنے میں کوئی بھی شی حائل نہ ہونے پائے، اس کی زد میں خواہ کوئی اپنا ہی کیوں نہ آئے، تیسری اہم بات یہ کہ حقیقت حال کو بتانے کے لئے جس اسلوب اور جن الفاظ کا انتخاب کیا جائے اس میں انتقامی بھاونا کم اور خیر خواہی کے اثرات زیادہ نظر آئیں۔
اس دور میں بغير پڑھے ہوےلکھنے والے تو بہت ہیں، مگر ان شرائط کی پابندی کے ساتھ پڑھے لکھے صحافیوں کی تعداد انگلیوں پر شمار کی جا سکتی ہے، آج کل چونکہ سوشل میڈیا کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے اور ہر کوئی تقریباً اس سے جڑا ہوا ہے، اس میں میڈیائی مفکرین کا ایک طویل ترین سلسلہ ہے، ان میں سے بعض تو وہ ہیں جن کی تحریروں کا طرہ امتیاز ہی کیڑا نکالنا اور معائب بیان کرنا ہے، ایسا لگتا ہے کہ بلا اعتراض واختلاف ان کی تحریروں میں دم خم پیدا ہی نہیں ہو سکتا، جو اصلا غلط سوچ اور منفی ذہنیت کی پہچان ہے،اور ان سے مثبت باتیں کہی ہی نہیں جاتیں، (وہ ایسا کیوں کرتے ہیں وہ کبھی بعد میں بتائیں گے بس اتنا سمجھ لیجئیے معمول بہ چیزوں پر لوگوں کو تعجب نہیں ہوتا اور جب الٹی پلٹی باتیں سامنے آتی ہیں تو لوگوں کی توجہ زیادہ ہوتی ہے) اچھا کچھ تو وہ ہیں جو ضرورت سے زیادہ مثبت باتیں لکھنے کے عادی ہوتے ہیں ہر بات کی توجیہ ان کے یہاں موجود ہوتی ہے، ان کا حال یہ ہے کہ وہ گندگی کو بھی گندگی کہنے کو تیار نہیں، یہ طور تحریر اور انداز نگارش بھی مناسب نہیں۔
سچا اور امانت دار صحافی وہ کہلاتا ہے جو حق کو حق اور باطل کو باطل کہنے کی ہمت رکھے، اور اس کے لئے اعتدال پر مبنی تحریر کا استعمال کرے، وہ نہ تو جذباتیت سے مغلوب ہوکر سوقیانہ طرز تحریر کو اپناتا ہے اور نہ ہی نامناسب اسلوب اختیار کرتا ہے، یہ بات سمجھنے کی ہے کہ ایک صحافی کی ذمہ داری صحیح بات پہونچانے کی ہے، لیکن بعض ایسے قلمکار سمجھے جانے والے لوگ ہیں جو اپنی تحریروں میں صحافی سے زیادہ جج نظر آتے ہیں،ایسا معلوم ہوتا ہے کہ احکام کا نفاذ بھی انہیں کی ذمہ داری ہے، حالانکہ ایسا نہیں ہوتا اور ہونا بھی نہیں چاہیے، اچھی بات اور درست اقدامات کی ہمت افزائی اور غلط بات اور نامناسب افکار کی گرفت یقینا ایک صحافی کا فرض ہے، لیکن یہ عمل الزامی طور پر بلا دلیل کسی صورت مناسب نہیں، ہر صاحب قلم سے عاجز راقم کی یہ اپیل ہے کہ کوئی بھی بات یا فکرہ رقم کرنے سے پہلے خوب غور کر لیا کریں، اس کے عواقب و نتائج پر نظر ثانی کر لیا کریں، ان شاء اللہ تعالی اس سے فائدہ عام ہوگا اور آپ کی تحریروں میں بھی جان پیدا ہوگی۔