ازقلم: محمد قمرالزماں ندوی
حقیقت کا اعتراف کرنا، مثبت تنقید کو برداشت کرنا ،سچائی کو تسلیم کرنا اور اپنی کمی ،کوتاہی اور غلطی کو مان لینا یہ ان لوگوں کی روش اور عادت ہوتی ہے، جو صحیح المزاج اور مثبت سوچ و فکر کے حامل ہوتے ہیں،حقیقت پسندی جن کی طبیعت میں ہوتی ہے، اور جو صحیح اور تعمیری تنقید سن کر خاموش ہو جاتے ہیں ، خواہ مخواہ مناظرہ، بحث و مباحثہ اور قیل قال میں پڑنے کے بجائے اپنی کمی، کوتاہی اور غلطی پر شرمندہ اور نادم ہوتے ہیں اور آگے اپنی اصلاح کی فکر کرتے ہیں، آج تو حال یہ کہ جانتے ہوئے کہ ہم غلط پر ہیں ،ہمارا فیصلہ درست نہیں ہے، ہم نے اصلاح کے نام سے جو اصلاح کی ہے، وہ خود اصلاح طلب ہے، پھر بھی اپنی بات اور فیصلے پر بضد ہوتے ہیں ،مصر رہتے ہیں اور سامنے والا حقائق اور اپنے تجربات کی روشنی میں اگر صحیح مشورہ دیتا ہے تو اس کو کوئی اہمیت نہیں دیتے۔ ہم یہاں ہندوستان کے مشہور فارسی شاعر مرزا بیدل کا ایک واقعہ ذکر کرتے ہیں ، جس سے معلوم ہوگا کہ انسان کو حقیقت کا اعتراف کس طرح کرنا چاہیے اور اپنی کمی کوتاہی کو کیسے مان لینا چاہیے ۔۔۔۔۔۔
،،آغا ! ریش می تراشی ؟ ،، ( جناب آپ داڑھی تراشتے ہیں؟)
جب ایران کے سفیر کی ملاقات دہلی میں فارسی کے مشہور شاعر مرزا بیدل سے ہوئی، تو اس نے حیرت اور تعجب کے ساتھ یہ چھبتا ہوا سوال کیا۔ اس سوال کا پس منظر یہ تھا کہ مرزا بیدل کا کلام ایران تک پہنچا تھا اور صوفیانہ مضامین دیکھ کر لوگ بیدل کو قطب سمجھنے لگے تھے ۔ ایسے کسی بھی قطب کی وضع قطع کا جو عام معیار ہونا چاہیے، اس پر مرزا بیدِل پورے نہیں اتر رہے تھے ۔کیونکہ وہ داڑھی تراشتے تھے جس کی وجہ سے ان کی داڑھی خشخشی تھی ۔
مرزا بیدل نہایت ذہین اور حاضر جواب تھے ۔اس سوال پر بولے ،، ریش می تراشم ولے دل کسے نمی تراشم ،، ( جی ہاں میں اپنی داڑھی تو ضرور تراشتا ہوں لیکن کسی کا دل نہیں چھیلتا) بظاہر یہ خاموش کر دینے والا جواب تھا، مگر سفیر ایران بھی کافی پڑھا لکھا اور ذہین تھا ،اس نے جواب دیا ، ،، بلے دل رسول اللہ می خراشی،، ( ہاں مگر آپ اپنے اس عمل سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دل( مبارک) ضرور چھیلتے ہیں)
مرزا بیدل اپنی ذہانت اور شاعرانہ جودت طبع سے اب بھی کوئی جواب تلاش کرسکتے تھے, مگر یہ سنتے ہی وہ خاموش ہوگئے اور اپنی غلطی کے احساس سے سر نیچا کرلیا ،اس کے بعد گھر 🏠 گئے تو اس جملہ کا اثر اتنا تھا کہ تین دن تک گھر سے باہر نہیں نکلے ۔۔(چراغِ راہ ،ص،278)
مولانا محمد رضوان القاسمی صاحب رح نے اپنی کتاب ،،چراغ راہ،، میں اس واقعہ کو ذکر کرنے کے بعد بڑا اچھا تبصرہ کیا ہے وہ لکھتے ہیں ،،
"واقعہ یہ ہے کہ جو لوگ صحیح اور مثبت سوچ و فکر کے حامل آدمی ہوتے ہیں اور حقیقت پسندی ان کی طبیعت میں ہوتی ہے وہ اسی طرح صحیح اور تعمیری تنقید سن کر خاموش ہو جاتے ہیں ،وہ ایسے موقع پر خواہ مخواہ قیل و قال میں پڑنے کے بجائے اپنی غلطی پر شرمندہ اور نادم ہوتے ہیں, اور اپنی اصلاح کی فکر کرتے ہیں ۔ہم اپنے گرد و پیش کا جائزہ لیتے ہیں تو زندگی کے ہر شعبے میں اور ہر سطح پر سینکڑوں برائیاں اور کمزوریاں ہیں, جو ہماری زندگی کو گھن کی طرح کھا رہی ہیں ،لیکن انجام سے بے خبر ہم اپنی ظاہری حالت میں مست ہیں کوئی توجہ دلائے اور ہماری کسی کوتاہی کی نشاندہی کرے تو ہم ناراض ہوتے ہیں ،چڑھتے ہیں اور ایسے شخص کا شکر ادا کرنے کے بجائے اسے برا بھلا کہتے ہیں اور اسے اپنا مخالف سمجھنے لگتے ہیں ۔ حضرت امام غزالی رح کا قول ہے کہ ،، فی الحقیقت وہ میرا دوست نہیں جو میرے منھ پر میری تعریف کرے،بلکہ دوست وہ ہے,جو میرے سامنے میری برائی بیان کرے اور اصلاحی و تعمیری تنقید کرکے مجھے اپنی زندگی کو بنانے اور سنوارنے کا موقع فراہم کرے،، ۔ یقینا ایک مشت داڑھی سنت ہے ،اس ترک سنت پر سفیر ایران نے جس بلیغ مگر چھبتے انداز میں مرزا بیدل کو تنبیہ کی وہ تو قابل توجہ ہے ہی, مگر بیدل نے صحیح تنقید سن کر اصلاح حال کی طرف توجہ کی اور اس کا احساس اس قدر شدید ہوا کہ تین روز تک گھر سے باہر نہیں نکلے۔ اس میں بھی بڑا درس ہے "-
( بحوالہ /انسانی عظمت کے تابندہ نقوش ،ص، 79.80مرتبہ راقم الحروف)