مولانا عبدالقیوم شمسی فرشتہ صفت انسان

ویشالی ضلع ایک مردم خیز خطہ کہلاتا ہے،جہاں ایک سے بڑھ کر ایک اہل فضل و کمال،شیخ طریقت اور دانشور پیدا ہوئے جنہوں نے اپنی تحریر و تقریر کے ذریعے امت مسلمہ کی بیش ہہاخدمات انجام دیں،جن میں حضرت مولانا سید محمد شمس الحق سابق شیخ الحدیث جامعہ رحمانی مونگیر،حضرت مولانا مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پٹنہ،حضرت مولانا سید مظاہرعالم قمر شمسی،مجاہد اردو انوار الحسن وسطوی کے نام قابل ذکر ہیں،ایسے ہی باکمال لوگوں میں جناب مولانا الحاج عبدالقیوم صاحب شمسی بھی ہیں جنہوں نے علم کا چراغ روشن کر کے ایک مثال قائم کی اور زبان حال سے یہ کہا کہ

اپنی تو بس مثال ہے اس پیڑ کی طرح
جو اوروں کو چھاؤں دے اور خود دھوپ میں جلے

مولانا عبدالقیوم صاحب شمسی یکم دسمبر 1960 میں اماموری پاتے پور ضلع ویشالی میں پیدا ہوئے،ان کے والد محترم کا نام شیخ موسی اور دادا کا نام شیخ بخش علی جبکہ نانا کا نام محمد عمر تھا۔مولانا شمسی شروع ہی سے ایماندار،نیک صفت انسان تھے،غربت وافلاس کی زندگی بسر کرنا پسند کیا لیکن ناجائز اور حرام خوری سے اپنے بھی بچے اور بچوں کو بھی پاک و صاف رزق کھلایا اور اپنی ذاتی شرافت کو نہیں چھوڑا۔کسی نے ایسے ہی لوگوں کے لیے کہا ہے:

جن کے کردار سے آتی ہو صداقت کی مہک
ان کی تدریس سے پتھر بھی پگھل جاتے ہیں

سہولت حاصل ہونے کے بعد اگر کچھ کرے تو اس کا کوئی کمال نہیں،ہے سر و سامانی اور کسمپرسی کی حالت میں اگر اپنی محنت و لگن سے کسی مقام تک انسان پہنچتا ہے تو اس کی قدر و قیمت اور مثال ہوتی ہے۔یہ حقیقت ہے مہدی جتنی گھستی ہے اتنی ہی رنگ لاتی ہے۔
مولانا عبدالقیوم صاحب شمسی کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا،ماں کے سایہ عاطفت سے بچپن ہی میں محروم ہو گئے،والد نے اباںکرپور کواہی مکتب میں داخلہ کرایا،پھر محلے کی مسجد میں ایک قابل استاد آگئے، ان کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا،اس کے بعد گھریلو حالت خستہ ہونے کی وجہ سے پڑھائی چھوڑ چھاڑ کر شہر عظیم آباد چلے گئے اور بیڑی بنانے لگے،پھر طبیعت نے کروٹ لی اور تعلیم کو اپنا مطمحہ نظر بنایا۔اس کے بعد بے سروسامانی میں اللہ کے بھروسے چند مخلصین نے ایک مدرسہ کی بنیاد ڈالی،جن میں مولانا عبدالقیوم صاحب شمسی سر فہرست تھے،اس مدرسہ کا نام "مدرسہ اسلامیہ اماموری” ہے،یہ مدرسہ مینارہ نور ثابت ہوا،اور اس کی روشنی دور دراز علاقوں کو منور کرنے لگی،اور الحمدللہ آج بھی مدرسہ اسی آب و تاب کے ساتھ چمک دمک رہا ہے اور کیوں نہیں چونکہ اس کی بنیاد خلوص و للہیت پر پڑی تھی،اس لیے وہ آج تک اسی آب و تاب کے ساتھ رواں دواں ہے۔
مولانا عبدالقیوم صاحب سادہ مزاج،کم سخن،دین و سنت کے بے حد پابند، متانت، سنجیدگی ان کے چہرے سے عیاں، بزرگ صفت انسان جن کے دیکھنے سے خدا یاد آجائے،نفس مسئلہ پر عمل کرنے والے ہیں۔
آج سے تقریبا دس سال قبل میری ملاقات مولانا مظہر الحق عربی و فارسی یونیورسٹی پٹنہ میں ہوئی تھی،علیک سلیک کے بعد پوچھا تو نہایت معصومیت سے جواب دیتے ہوئے کہا کہ میرا مکان اماموری ہے۔میں کاپی دیکھنے کے لیے آیا ہوں۔ اس کے بعد پھر دوسری ملاقات مدرسہ حمیدیہ قلعہ گھاٹ دربھنگہ میں ہوئی،میں کوآرڈینیٹر تھا اور مولانا عبدالقیوم صاحب درجہ فوقانیہ کے ہیڈ تھے،ایک درجن اساتذہ کرام ان کے اندر میں کاپی دیکھ رہے تھے،جب ملاقات ہوئی،مولانا نے جیب سے عطر نکال کر مجھے لگایا۔ایک دفعہ اساتذہ کرام کی بے راہ روی سے تنگ آکر بگڑنے لگے،میں فورا وہاں پہنچا اور ان اساتذہ کرام کو سمجھایا کہ پرانے خیال کے لوگ ہیں،بے راہ روی برداشت نہیں کرتے،ذرا لحاظ خیال کر کے چلیں،اس کے بعد معاملہ ٹھیک رہا۔
مولانا کی نیکی کی وجہ سے اللہ نے انہیں نوازا اور حسن کارکردگی کی بدولت آج علاقہ اور قرب و جوار میں عزت و قدر کی نگاہ سے دیکھے جا رہے ہیں،ان کے دو صاحبزادے ہیں جو الحمدللہ محنتی اور باصلاحیت ہیں، ایک مولانا محمد قمرعالم ندوی ہیں جو مدرسہ احمدیہ ابابکرپور میں مدرس ہیں اور پورے علاقے میں اپنے والد محترم کی طرح دینی اور ملی کاموں میں سرگرم عمل ہیں،اور ہر قسم کے سماجی و فلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کے حصہ لیتے ہیں، اور علاقے میں کافی مشہور و مقبول ہیں،جب کہ دوسرے صاحبزادہ مولانا محمد صدر عالم ندوی جو پلس ٹو اسکول بھگوان پور رتی،ویشالی میں ٹیچر ہیں،یقینا یہ سب مولانا عبدالقیوم کا فیض اور ان کی نیم شبی اور آہ سحرگاہی کا نتیجہ بھی کہا جا سکتا ہے۔
بہرحال مولانا عبدالقیوم صاحب نے جو کارہائے نمایاں ادا کیا،اس میں اللہ تعالی کی خاص رحمت و مدد ان کے ساتھ رہی،بغیر اللہ کی مدد کی کوئی کچھ نہیں کر سکتا۔

ایں سعادت بزور بازو نست
تا نہ بخشد خدائے بخشندہ

ازقلم: (مولانا) محمد عابد حسین رحمانی
سابق پرنسپل مدرسہ قدرتیہ شکری مدھوبنی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے