ڈاکٹروں کا احتجاج اور آر ایس ایس

سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود آر جی کے میڈیکل کالج اسپتال کولکتہ ریپ معاملے میں احتجاج کر رہے ریاست کے جونیئر ڈاکٹر احتجاج ختم کرنے پر راضی نہیں ہو رہےہیں۔سپریم کورٹ نے گزشتہ منگل کی شام پانچ بجے تک ڈاکٹروں سے احتجاج ختم کر کام پر واپس آنے کے لئے کہا تھا لیکن جونیئر ڈاکٹروں کی ہڑتال ہنوز جاری ہے ۔جبکہ سپریم کورٹ میں ممتا سرکار کے وکیل نے سنوائی کے دوران کہا ہے کہ احتجاج کی وجہ سے اب تک 23 مریضوں کی جان جا چکی ہے ۔مغربی بنگال میں ڈاکٹروں کے احتجاج کی وجہ سے سرکاری اسپتالوں میں حالات خراب سے خراب تر ہوتے جا رہے ہیں لیکن احتجاجی ڈاکٹر کچھ بھی سننے کے لئے تیار نہیں ہیں جبکہ جونیئر ڈاکٹر ریپ معاملہ سی بی آئی کے سپرد کر دیا گیا ہے ۔اور ریاستی حکومت اسمبلی میں ریپ معاملے میں سخت قانون پاس کر گورنر کو بھیج دیا ہے لیکن مغربی بنگال کے گورنر مرکزی سرکار کے ایجنٹ کی شکل میں کام کرتے نظر آ رہے ہیں اس بل پر مضمون لکھے جانے تک دستخط نہیں کیے ہیں ۔آخر کام بند کر سڑکوں پر اترے مغربی بنگال کے جونیئر ڈاکٹر سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود کام پر واپس کیوں نہیں آ رہے ہیں ؟
کولکتہ کے جونیئر ڈاکٹر ایک مہینہ سے زیادہ وقت گزر جانے کے باوجود سڑکوں پر ہیں جبکہ اُنکے سبھی مطالبات ریاستی حکومت مان چکی ہیں اُسکے باوجود ڈاکٹر کام پر واپس آنے کے لئے تیار نہیں ہیں تو اس کی خاص وجہ ڈاکٹروں کی تنظیم کا اسٹرکچر اور وہ ذہنیت ہے جو بی جے پی کے لئے کام کرتا ہے ۔
اس سلسلے میں مضمون نگار نے اپنے ذاتی تجربہ اپنے قاری کے سامنے رکھنا چاہتا ہے ۔ڈیڑھ سال پہلے کی بات ہے کہ میرا روڈ جو مہاراشٹر کے تھانے ضلع میں واقع ہے اور اسی شہر میں مضمون نگار رہتا بھی ہے ایک دن مقامی ڈاکٹروں کی جانب سے گرین کورٹ کلب میں پریس کانفرنس کی خبر دی گئی ۔پریس کانفرنس میڈیکل کونسل آف انڈیا کی جانب سے ہونے کی بات بتائی گئی ۔دوسرے دن بارہ بجے زیادہ تر مقامی صحافی اس پریس کانفرنس میں موجود نظر آئے۔چونکہ میں بھی ایک اردو ہفتہ روزہ پہلی خبر اور ایک ہندی پندرہ روزہ ترچھی آنکھ اپنی ادارت میں 2002 سے شائع کرتا رہا ہوں تو اس حثیت سے اپنے کسی نمائندہ کو اہمیت کے حامل اس پریس کانفرنس میں بھیجنے کے بجائے میں خود جانے کا فیصلہ کیا ۔پریس کانفرنس شروع ہونے سے پہلے کچھ چنندہ ڈاکٹروں کی اسٹیج پر نام کے پلیٹ نظر آ رہے تھے لیکن پریس کانفرنس شروع ہوتے ہوتے اسٹیج بڑا ہو گیا یعنی کرسیوں کی تعداد بڑھ گئی تھی اور جو ڈاکٹر بیٹھے تھے اُسکے پیچھے بھی تنظیم کے ڈاکٹر کھڑے ہو گئے تھے ۔تقریباََ تیس ڈاکٹر اسٹیج پر بیٹھے اور کھڑے تھے۔پورے بھارت سے تنظیم کے عہدیدار ڈاکٹر اس کانفرنس میں شرکت کے لئے آئے ہوئے تھے ۔پریس کانفرنس کے بعد دو دنوں کا کانفرنس بھی ہونے تھے۔پریس کانفرنس اس بات کے لئے کی جا رہی تھی کہ مودی سرکار نے پرائیویٹ کلینک کھولنے کے لئے ایک پیمانہ تیار کیا ہے جس کے تحت ہر ایک ڈاکٹر کو اپنا کلینک کھولنے کے لئے کم سے کم پانچ سو اسکوائر فٹ کی جگہ ہونی چاہئے اور فائر کی این او سی ہونی چاہئے یعنی کونسل کے ڈاکٹروں کا ماننا تھا کہ نچلی سطح پر جو ڈاکٹر کام کر رہے ہیں سرکار اُسے بند کر اس کام کو بھی پوری طرح کارپوریٹ کے ہاتھوں سونپ دینا چاہتے ہیں ۔لیکن میری نظر جب اسٹیج پر رکھے نام کے پلیٹ کی طرف گیا اور کھڑے ڈاکٹروں کا جو تعارف کرایا گیا تھا اُن سب کا تعلق ہندوؤں کے اعلیٰ ذات یعنی برہمن اور بنیا سے تھا۔میرے دماغ میں فوراً یہ سوال آیا کہ یہ سارے لوگ 2014 اور 2019 میں مودی کو لانے میں اہم کردار نبھائے ضرور ہیں تو سرکار سے اگر کوئی شکایت ہے تو اُنہیں مودی جی سے براہ راست بات کرنی چاہئے ۔میں نے یہ سوال کیا بھی تو انہوں نے قبول کیا کہ مودی جی سے بات نہیں ہو پائی ہے یا اُنکا وقت نہیں ملا ہے لیکن سرکار کے کئ مرکزی وزراء کے سامنے اُن کونسل کے ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ ہم نے بات رکھی لیکِن کوئی سننے کو تیار نہیں ہے ۔تو ایک ساتھی صحافی نے فوراً پوچھا کہ آپ احتجاج کیوں نہیں کرتے ہیں تو اُنکا کہنا تھا کہ ہم آپ کے ذریعے اپنی بات سرکار تک پہنچانا چاہتے ہیں ۔احتجاج پر خاموش ہو گئے۔میں نے پھر پوچھا کہ مودی جی کے لانے میں آپلوگوں کا اہم کردار رہا ہے اور آپ کو مودی جی وقت نہیں دے رہے ہیں اور آپ میں اتنی ہمت نہیں ہے کہ معقول موضوع ہونے کے باوجود احتجاج کر مودی جی تک اپنی بات پہنچائیں۔انہوں نے صاف کہا کہ ہم احتجاج نہیں کر سکتے ہیں اور آپ کے ذریعے اپنی بات مودی جی تک پہنچانا چاہتے ہیں تو ایک بار پھر میں نے کہا کہ جب آپ اپنی بات مودی جی کے سامنے نہیں رکھ سکتے ہیں تو میڈیا کی کیا اوقات ہے ۔میرا کہنے کا مطلب ہے کہ ڈاکٹروں میں تین حصہ آر ایس ایس اور بی جے پی سے جڑے ہوئے ہیں ۔یاد ہوگا 2014 سے پہلے ایک چھوٹے سے واقعے پر پوری ڈاکٹر برادری احتجاج پر اُتر آتی تھی۔انڈین میڈیکل کونسل کے ایک بیان سے سرکار کے ہاتھ پاؤں پھول جاتے تھے لیکن 2014 کے بعد یعنی کووڈ میں ڈاکٹروں سے سختی کی گئی۔بنا کسی سہولیت کے ڈاکٹروں نے مخالف حالات میں کام کیا اور یہاں تک کہ ڈاکٹروں کو وقت پر تنخواھ نہیں ملے لیکن ڈاکٹروں کی حمایت میں میڈیکل کونسل آف انڈیا نے ایک بھی اسٹیٹمینٹ جاری نہیں کیا۔ ۔ڈاکٹروں کی سبھی بڑی تنظیموں پر اعلیٰ ذات برہمنوں اور بنیوں کا قبضہ ہے اور اُنکے رشتے آر ایس ایس اور بی جے پی سے پہلے سے رہے ہیں ۔اسلئے مغربی بنگال میں جونیئر ڈاکٹروں کا احتجاج اسی روشنی میں دیکھا جانا چاہئے ۔ممتا سرکار یا کوئی بھی سرکار ڈاکٹروں کے خلاف کسی طرح کی سختی نہیں کرنا چاہتی ہیں لیکن سرکار کی بھی ذمےداری ہے کہ ریاست کے لوگوں کو سرکاری اسپتالوں میں وقت پر علاج مہیّا ہوتا رہے ۔سرکار احتجاجی ڈاکٹروں کو منانے کی ہر طرح سے کوشش کر رہی ہے اور اب تو سپریم کورٹ نے بھی کہہ دیا ہے کہ ڈاکٹروں کا کام پر نہ جانا غیر قانونی ہے تو سپریم کورٹ کا حکم مانتے ہوئے ممتا سرکار ضرور سخت ہو جائے گی لیکن ڈاکٹر اور سرکار کا ٹکراؤ اچھا نہیں ہے ۔اسلئے ڈاکٹروں کو چاہئے کہ خود کو سیاست سے الگ رکھیں اور آر جی کے میڈیکل کالج میں جونیئر ڈاکٹر کے ریپ ملزم کو جلد سے جلد سزا ملے اس میں تعاون دیں،کیونکہ جانچ اب سی بی آئی کر رہی ہے ۔مستقبل میں ڈاکٹروں کے ساتھ پھر کوئی اس طرح کا واقعہ نہ ہو اس کے لیے بہتر اقدامات کی تجویز پر ریاستی حکومت سے بات کریں اور اُسے فل پروف بنوانے کی کوشش کریں۔اسی میں ڈاکٹروں کی بھلائی ہے ۔

تحریر: مشرف شمسی
میرا روڈ ،ممبئی
موبائیل 9322674787

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے