تجارت- قرآن واحادیث کی روشنی میں

تحریر: محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھارکھنڈ

مولانا ڈاکٹر پروفیسر آفتاب عالم قاسمی(ولادت یکم اپریل 1966ء) بن طفیل احمد (م 16/ جولائی 2010ء) بن ایوب علی بن عبد الغفار، آبائی وطن بیل پکونہ ضلع مظفر پور حال مقام مدنی نگر مہوا،مالک تاج اسٹیل گاندھی چوک مہوا، سابق استاذ مدرسہ فتح پور کاوا، سابق ناظم مدرسہ اسلامیہ چہرہ کلاں، استاذ اکچھیوٹ کالج مہوا ویشالی، عالمانہ اوصاف اور داعیانہ کردار کے ساتھ بڑے تاجر ہیں، علماء طبقہ عموما تجارت سے دور رہتا ہے، لیکن انہوں نے اس مشغلہ کو اپنایا اور بچوں کو بھی اس میں لگایا ہے۔ان کی قوت ارادی مضبوط ہے، دن رات جب اسٹیل، پیتل اور لوہے لکڑ کوانسان دیکھے گا تو اس کا اثردل ودماغ اور جسم وجان پر تو پڑتا ہی ہے، اس لیے تجارت کی ترقی کے ساتھ ان کا عزم وارادہ بھی دن بدن ترقی پذیر اور روز افزوں مضبوط ومستحکم ہو رہا ہے، انہوں نے دار العلوم دیو بند سے فضلیت، بہار یونیورسٹی سے ایم اے، اردو، فارسی) اور حضرت مرزا مظہر جان جاناں اور ان کی فارسی شاعری پر تحقیق کا کام مکمل کرکے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے، اس لیے ان کو حق ہے کہ وہ یہ کہیں کہ
میرے دیکھے ہوئے ہیں مشرق ومغرب کے مئے خانے
مولانا چوں کہ بڑے تاجر ہیں، اس لیے انہوں نے تجارت کی طرف مسلمانوں کو متوجہ کرنے کے لیے ”تجارت قرآن واحادیث کی روشنی میں“ کے عنوان سے ایک جامع کتاب مرتب کی ہے، اس کتاب کا مقصد اصلاً مسلمانوں خصوصا ًعلماء طبقہ کو تجارت کی طرف راغب کرنا ہے، یہ مسائل کی کتاب نہیں ہے، لیکن ضمناً باتوں کو سمجھانے کے لئے خرید وفروخت، تجارت کے اقسام، بیع وربو ٰ کا فرق اور مختلف معاملات پر فقہی احکام اور جزئیات بھی تفصیل کے ساتھ اس کتاب کی زینت بن گیے ہیں۔ انہوں نے اپنے تجارت سے جڑنے کے واقعات اور تجربات سے بھی قارئین کو با خبر کرنے کی کوشش کی ہے، اور ثابت کر دیا ہے کہ صرف پڑھانا لکھانا ہی کام نہیں ہے، اسلامی اصولوں پر تجارت بھی خود غیر رسمی دعوت کا کام ہے، ایسا نہیں ہے کہ تجارت میں الجھ کر انسان اپنی ذمہ داری بھول جاتا ہے بلکہ وہ ایمانی تقاضے اور اسلامی اعمال کویاد رکھتا ہے۔ مولانا نے خود ہی انکشاف کیا ہے کہ ”ساری مشغولیات کے باوجود بلوغیت کے بعد سے میری نمازیں نہیں چھوٹی ہیں، اس لیے میں صاحب ترتیب ہوں“۔ قرآن کریم میں ایسے ہی تاجروں کے بارے میں کہا گیا ہے کہ انہیں کاروبار زندگی اللہ کے ذکر سے غافل نہیں کرتا، وہ نماز پڑھتے ہیں، زکوٰۃ دیتے ہیں اور اس دن سے ڈرتے ہیں جس دن دل اور بصارت متغیر ہو جائیں گے۔
کتاب چھ ابواب پر مشتمل ہے، شروع میں ایک طویل مقدمہ ہے، جس میں کتاب کی تالیف کی غرض وغایت، تجارت کی اہمیت وافادیت اس کے فوائد اور قرآن واحادیث میں اس کی ترغیب کے حوالہ سے مفید اورمدلل گفتگو کی گئی ہے، اس مقدمہ کا اختتام بزرگوں، معاصرین اور عزیزوں کے شکریہ پر ہوتا ہے، جنہوں نے اس کام کے لیے مولانا کو ابھارا، ان کی حوصلہ افزائی کرتے رہے اور اس کام میں ان کا تعاون کیا، یہ ایک رسمی اندراج ہوتا ہے، جس نے آج کل رواج پالیا ہے، سب کو خوش رکھنے کے لیے یہ مؤثر ہتھیار ہے، اس لیے اسے ”بمد خوش کرنی“ ہی سمجھنا چاہیے۔
اس کے بعد کتاب کے اصل موضوع کی طرف مولانا نے توجہ مبذول فرمائی ہے، اور پہلا باب ”تجارت قرآن پاک کی روشنی میں“ رکھا ہے، مختلف سورتوں میں جن آیتوں کا تعلق کسب معاش، تلاش فضل رب اور تجارت سے ہے، ان آیتوں کو ترجمہ اور اعراب کے ساتھ لکھا ہے، پھر اس پر مختلف مفسرین کی تفسیر یں، آیت کا شان نزول، آیت سے متعلق کوئی واقعہ ہے تو تفصیل سے اس کا بھی ذکر کیا ہے۔ اور اندراج میں سورتوں کی ترتیب کو بھی ملحوظ رکھا ہے۔
دوسرا باب ”تجارت احادیث کی روشنی“ میں ہے، اس باب میں تجارت سے متعلق احادیث کا ترجمہ حوالہ کے ساتھ ذکر کیا ہے، اعراب بھی لگایا ہے؛ تاکہ کم پڑھا لکھا آدمی بھی ان روایتوں کو یاد کرنا چاہے تو کرلے، در اصل نصوص تو یہی دو ہیں، قرآن واحادیث اور ان کے حوالوں سے جب کوئی بات کہی جائے تو دل مطمئن ہوتا ہے اور دماغ اسے قبول کرتا ہے، دل ودماغ جب قبول کرلیں تو اعمال کی راہ ہموار ہوتی ہے، اس لیے ان دونوں ابواب کی اس کتاب میں بڑی اہمیت ہے اور کہنا چاہیے کہ یہی موضوع کی روح ہے۔
کسی بھی کام کے کرنے کے لیے علم کی ضرورت ہوتی ہے، معاملہ عبادت کا ہویا معاملات کا، بغیر علم کے کام آگے نہیں بڑھ سکتا، اس یے ہمیں ان کا موں کے کرنے کا علم اور سلیقہ بھی ہونا چاہیے، اہمیت اور فضیلت جاننے کے باوجود جس چیز کی تجارت انسان کرنا چاہتا ہے اس کا علم نہ ہو تو مایوسی، محرومی بلکہ کبھی کبھی بربادی کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے، اس لیے مولانا نے کتاب کے تیسرے باب میں ”تجارت کے لیے علم کی ضرورت“پر روشنی ڈالی ہے
چہل حدیث کے جمع کرنے، یاد کرنے اور اسکے پھیلانے کا بڑا ثواب ہے، اسی لیے ”اربعین“ اور چالیس احادیث کے عنوان سے اسلامیات کی لائبریری میں درجنوں کتابیں موجود ہیں، بعض رسائل عمومی ہیں اور بعض خاص موضوعات پر، مولانا نے اس باب میں تجارت کے موضوع پر چالیس احادیث کو جمع کر دیاہے، مختلف ابواب میں آیات قرآنیہ اور احادیث موضوع کے اعتبار سے پہلے بھی آچکے ہیں، اس لیے مختلف ابواب میں خصوصا اس باب میں پوری کتاب پڑھنے والے کو تکرار سمجھ میں آئے گا، لیکن بعض دفعہ معانی کو ذہن میں بیٹھانے کے لیے یہ مفید مطلب ہوتا ہے، قرآن کریم میں باربار فبأی آلاء ربکما تکذبٰن۔ وویل یومئذ للمکذبین کی تکرار اسی نقطہ نظر سے ہے، تکرار وتصریف آیات واحادیث کی اپنی اہمیت اور افادیت ہے، اس لیے اس باب اور دوسرے ابواب میں تکرار کو غیر ضروری نہیں سمجھنا چاہیے۔
تجارت میں ہمارے اکابر اور بزرگان دین کی مشغولیت کا کیا حال رہاہے اور تجارت سے متعلق آیات قرآنی واحادیث رسول پر ان کا اپنا عمل کس قدر اور کتنا رہا ہے، اس کے لیے مولانا نے ایک باب ”تجارت اور ہمارے بزرگان دین“ کا رکھاہے۔ یہ باب بڑی اہمیت کا حامل ہے اس باب میں ان کے اقوال واعمال، مشاہدات وتجربات کے مطالعہ سے ہمارے اندر تحریک پیدا ہوتی ہے اور تجارت میں کن چیزوں کی رعایت ہمیں کرنی چاہیے اس کا بھی بھر پور علم اس باب کے مطالعہ سے ہوتا ہے۔
مولانا نے سب سے اخیر میں اسلام کے معاشی نظام کا تقابلی مطالعہ پیش کیا ہے۔ جو جدید وقدیم حوالوں سے مزین ہے، اس کے مندرجات میں جدید وقدیم طبقہ کو مطمئن کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ اسلام کے معاشی نظام پر بڑی اچھی گفتگو مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی کی”اسلام کا اقتصادی نظام“،اسلام اور جدید معاشی مسائل، مفتی محمد تقی عثمانی کی دو اہم کتابیں ہیں، مولانا عبد الباری ندوی کی ”تجدید معاشیات“ اس موضوع پر ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کی متعدد کتابیں اسلام کے معاشی واقتصادی نظام پرموجود ہیں، ان کا مطالعہ اس باب میں درج معلومات کو آگے بڑھانے کا کام کرے گا، مولانا نے اپنی اس کتاب میں ان میں سے کئی کتاب کے حوالہ سے گفتگو کی ہے اور ان کا تقابلی مطالعہ پیش کیا ہے، میں مولانا کو اس اہم کتاب کی تالیف پر مبارکباد پیش کرتا ہوں اور امید رکھتا ہوں کہ تجارت کے ساتھ لکھنے پڑھنے کا مشغلہ وہ جاری رکھیں گے،ا ن کے پاس علم بھی ہے، لکھنے کا سلیقہ بھی اورچھپوانے کے لیے مال بھی، اس لیے اس سلسلے کو رُکنا نہیں چاہیے۔
اللہ سے دعا ہے کہ وہ اس کتاب کو قبول عام وتام عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین وصلی اللہ علی النبی الکریم وعلیٰ اٰلہ وصحبہ اجمعین۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے