دیوبند کا آفتاب امریکہ میں غروب ہوا

ہندو پاک سے لے کر امریکہ تک پڑھا لکھا طبقہ میں شاید ہی کوئی ایسا فرد ہوگا جو موجودہ دور میں ملحدین کو راہ حق کی طرف رہنمائی کرنے والے نوجوان عالم دین مفتی ڈاکٹر یاسر ندیم صاحب مدظلہم العالی کے نام و کام سے نا آشنا ہوگا ، بلکہ جو بھی صاحب اولاد ہوگا ہر ایک کی دلی خواہش ہوتی ہوگی کہ کاش میرے لخت جگر بھی ایسا ہی ہوتا ،وہ بارہا رب کریم سے دعا گو ہوتا ہوگا کہ ربا! میرے نور نظر کو بھی ایسا ہی بنا دے،میرے جگر پارے کو بھی ایسے ہی خدمت دین کے لئے قبول فرمالے۔
ایسا ہونہار عالم دین جس گود میں پلا بڑھا ہوگا وہ ضرور اپنے حق میں یہ کہہ سکتا ہے کہ مالک ارض و سما نے میری اس قرآنی دعا کو شرف قبولیت بخشی۔
وَالَّذِيۡنَ يَقُوۡلُوۡنَ رَبَّنَا هَبۡ لَـنَا مِنۡ اَزۡوَاجِنَا وَذُرِّيّٰتِنَا قُرَّةَ اَعۡيُنٍ وَّاجۡعَلۡنَا لِلۡمُتَّقِيۡنَ اِمَامًا۞(الفرقان:74)
اور جو (دعا کرتے ہوئے) کہتے ہیں کہ : ہمارے پروردگار ! ہمیں اپنی بیوی بچوں سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما، اور ہمیں پرہیزگاروں کا سربراہ بنا دے۔
اپنی دعا کی شرف قبولیت دیکھنے والے خوش نصیبوں کی فہرست میں ایک نام سر زمیں علم و فن ،دیوبند کا فرزند ارجمند حضرت مولانا ندیم الواجدی صاحب قاسمی رحمہ اللہ کا بھی آئے گا ، جن کے نام کے ساتھ آج کلمات دعائیہ "رحمہ اللہ”لکھتے کلیجہ منہ کو آرہاہے۔
حضرت مولانا مفتی ڈاکٹر یاسر ندیم صاحب مدظلہم العالی آپؒ کے ہی نہیں بلکہ اپنے دادا ،پردادا اور نانا محترم کے سچے خلف الرشید ہیں ۔
حضرت مولانا ندیم الواجدی صاحب (رحمہ اللہ) کی طبیعت سے متعلق کوئی دوہفتہ قبل یہ خبر آئی تھی کہ مولانا محترم کی طبیعت علیل ہے اہل علم حضرات شفایابی وصحت یابی کے لئے دعا کریں ، میں سمجھتا ہوں کہ ملک و بیرون ملک کی ایک بڑی تعداد نے حضرت مولانا کی شفایابی کے لئے دعا کی ہوگی ، اور پھر گرامی قدر صاحب زادہ کی طرف سے خیر کی خبر بھی آئی کہ والد صاحب رو بہ صحت ہیں ،کمزوری و نقاہت ہے مکمل صحتیابی کی دعا کی جائے ۔
کل شام تقریباً آٹھ بجے واٹس ایپ کے بعض گروپوں میں یہ خبر آئی کہ حضرت مفتی ڈاکٹر یاسر ندیم صاحب مدظلہم العالی کے والد گرامی حضرت مولانا ندیم الواجدی صاحب کا انتقال ہوگیا ہے، دل نے قبول کرنے سے انکار کیا،اور ایسا ہی ہوا کہ یہ خبر جھوٹی تھی ،کچھ ہی دیر کے بعد حضرت ڈاکٹر صاحب مدظلہ العالی نے لکھا کہ والد صاحب بقید حیات ہیں اس مشکل گھڑی میں غلط خبر شائع کرکے تکلیف نہ پہنچائیں ۔
یہ خبر دیکھنے کے بعد حضرت مولانا ندیم الواجدی صاحب کی صحتیابی کے لئے دل سے دعائیں نکلیں ، لیکن تقدیر ہر طرح کی تدبیر پر غالب آگئی اور پھر شب دس بجے کے بعد حضرت ڈاکٹر مفتی یاسر ندیم صاحب مدظلہ العالی نے خود ہی لکھا:
إنا لله وانا اليه راجعون
میرے سر سے میرے والد کا سایہ اٹھ گیا
حضرت مولانا ندیم الواجدی صاحب قاسمی رحمہ اللہ جو حقیقت میں کریم ابن کریم ابن کریم تھے، سرزمین دیوبند سے ہزاروں کیلومیٹر دور امریکہ میں مسافران آخرت میں شامل ہوکر فردوس نشیں ہوگئے ۔
إنا لله وانا اليه را جعون
أفان مت فهم الخالدون
حضرت مولانا ندیم الواجدیؒ اس عہد میں اکابر دیوبند کے یاد گار تھے ،مصدر فیاض نے انہیں کئی خوبیوں سے نوازا تھا ان میں سب سے اہم خوبی "قلم کی طاقت” تھی، آپ نے اس سے بھر پور فائدہ اٹھایا اور ہر سلگتے مسائل اور ابھرتے حالات پر خامہ فرسائی کرکے امت اسلامیہ ہندیہ کی رہنمائی کرنے میں کبھی کمی کوتاہی نہیں کی، اس کے لئے آپؒ کے مضامین کا مجموعہ "رشحات قلم”کو دیکھا جاسکتا ہے۔
حضرت مولانا ندیم الواجدیؒ دیوبند سے ایک ماہ نامہ "ترجمان دیوبند”شائع کرتے تھے جس کے مولانا رحمہ اللہ مدیر تھے، یہ رسالہ صرف "ترجمان دیوبند ہی نہیں بلکہ ترجمان دارالعلوم” بھی تھا، اور ایک زمانہ میں اس کی اہمیت وہی تھی جو کبھی مولانا عامر عثمانیؒ کے رسالہ ماہ نامہ "تجلی”دیوبند کا تھا۔
راقم الحروف کو حضرت مولانا ندیم الواجدیؒ کے نام سے واقفیت 2008/ء میں ہوئی اور اس کی تقریب کچھ اس طرح سے ہے کہ ہمارے برادر کبیر حضرت قاری محمد نعیم الدین صاحب سن 2008/ء میں دیوبند گئے تھے وہیں حضرت مولانا ندیم الواجدیؒ سے ملاقات ہوئی اور ان سے صرف ملاقات ہی نہیں ہوئی بلکہ ان کے کارناموں سے بے حد متأثر بھی ہوئے اور پھر ماہ نامہ "ترجمان دیوبند”کے خریدار بن کر قارئ "ترجمان دیوبند” بھی ہوگئے ۔
"ترجمان دیوبند ” ہمارے گھر(سمری ،کرت پور، دربھنگہ،بہار)دو سال تک آیا ،البتہ ڈاک سسٹم صحیح نہیں تھا جس کی وجہ سے دوسال کے بعد جاری نہ رہ سکا ،انہیں ایام میں راقم الحروف نے گھر میں جتنا بھی”ترجمان دیوبند "آیا تھا سبھی کو بحمدللہ پڑھ گیا،اور پھر اسی وقت سے مولانا ندیم الواجدیؒ کے نام لیواؤں میں سے ایک ہوگیا ۔
سن 2014/ء میں دورۂ حدیث شریف کے لئے دارالعلوم دیوبند جانا ہوا ،اور بفضل باری تعالٰی دارالعلوم دیوبند میں داخلہ ہوا، حسن اتفاق کہ دارالعلوم دیوبند میں اعظمی منزل کمرہ نمبر 48/ متصل کمرہ حضرت مولانا حبیب الرحمٰن اعظمی رحمہ اللہ(سابق استاذ حدیث دارالعلوم دیوبند و سابق ایڈیٹر ماہ نامہ”دارالعلوم” دیوبند) ملا۔
ہمارے کمرہ سے قریب ہی مولانا ندیم الواجدیؒ کا کتب خانہ "دارالکتاب”تھا ،بارہا مولانا رحمہ اللہ سے ملاقاتیں اور باتیں ہوتی تھیں،راقم السطور دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ سے عالمیت کے بعد گیا تھا مولانا رحمہ اللہ سے ندوہ اور اہل ندوہ سے متعلق بھی باتیں ہوتی تھیں، مولانا رحمہ اللہ کو مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی حسنی ندوی قدس سرہ سے والہانہ لگاؤ تھا، مولانا کی عربی زبان و بیان کے بڑے مداح تھے۔
مولانا رحمہ اللہ کی باتوں سے معلوم ہوتا تھا کہ آپ معتدل پسند ہیں، اور ہر مکاتب فکر کے اہل علم کی قدر داں تھے۔
آہ! دیوبند کا یہ چراغ علم کل شب ہمیشہ ہمیش کے لئے دیار غیر امریکہ میں بجھ گیا ، اللہ تعالیٰ حضرت مولانا رحمہ اللہ کی کامل مغفرت فرمائے اور پسماندگان خصوصاً حضرت مفتی ڈاکٹر یاسر ندیم صاحب مدظلہم العالی کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ (آمین)
آپ رحمۃ اللہ علیہ کا سوانحی خاکہ "یادگار زمانہ شخصیات کا احوال مطالعہ”کے حاشیہ سے ملاحظہ فرمائیں:
تاریخ پیدائش:23/جولائی 1954/ء ،آبائی وطن : دیوبند ،ضلع سہارن پور ،مادر علمی: دارالعلوم دیوبند ،سن فراغت:1974/ء ،تکمیل ادب: دارالعلوم دیوبند ،تصانیف: التعبيرات المختارة ،معلم العربية ،احیاء العلوم کا اردو ترجمہ ،خدا رحمت کند وغیرہ ،مناصب: معتمد:بانی عربک ٹیچنگ سینٹر دیوبند ،مدیر ماہ نامہ "ترجمان دیوبند”(ص:251)
گزشتہ پانچ سالوں میں جتنی مقبولیت مذکورہ بالا کتاب یعنی "یاد گار زمانہ شخصیات کا احوال مطالعہ” کو حاصل ہوئی ہے اتنا کسی اور کتاب کو مقبولیت نہیں ملی ہے ،اس کتاب میں غالباً دو یا تین ایسے نصیبہ ور شخصیات ہیں کہ جن کے اپنے مضمون کے ساتھ ساتھ اپنے لخت جگر کا مضمون بھی شامل کتاب ہے ان میں ایک حضرت مولانا ندیم الواجدیؒ بھی ہیں آپ کا مضمون بعنوان "میری علمی و مطالعاتی زندگی” ہے، جو 9/صفحات پر صفحہ 251/تا 260/تک ہے، اور آپؒ کے فرزندِ ارجمند حضرت مفتی ڈاکٹر یاسر ندیم صاحب مدظلہم العالی کا مضمون بعنوان "میرے مطالعے کا مختصر سفر” ہے، جو 6/صفحات پر صفحہ 713/تا 719/تک ہے۔
اللہ تعالٰی آپؒ کے فرزند ارجمند کو اپنے آباء واجداد کا سچا جانشیں بنائے ، اور زمانہ کے ہر طرح کی شرور و فتن سے اپنے حفظ وامان میں رکھتے ہوئے خوب سے خوب تر خدمت اسلام کی توفیق بخشے۔ (آمین)

ازقلم: ابو معاویہ محمد معین الدین ندوی قاسمی
جامعہ نعمانیہ،قاضی پیٹ، وی کوٹہ (آندھرا پردیش)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے