ہمارے لیے نبیِ آخرالزماں صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ذات جہاں بہت سی صفات میں نمونہ ہے وہیں صبر و استقلال بھی ایک ضرب المثل اور بے مثال ہے اور امتِ خیر کے لیے پیروی کا عملی نمونہ ہے اور نہ جانے ایک اسوۂ حسنہ میں کتنے آفتاب و ماہتاب گم ہیں،
صبر و استقلال کی تعریف
صبر و استقلال دینِ اسلام پر چلتے ہوۓ ہر تکلیف، ظلم و تشدد اور جبر استبداد کو برداشت کرتے ہوۓ بغیر کسی شکوہ و شکایت کے اور یقین الٰہی کے ساتھ اپنے مشن میں جمے رہنے کا نام ہے۔
صبر و استقلال کی تعلیم تمام انبیاء نے امتِ خیر کو دی ہے اور خاص طور سے عرب و عجم کے رحمت اللعالمین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی مکی زندگی سرچشمہ اور صبر و استقلال کی تعلیم سے لباب ہے۔
نبیِ پاک کی نبوت سے قبل کی مکی زندگی شرافت و دیانت تدبر و فہم و فراست و عدل پروری پر مامور تھی اور آپ کے عظمت و ناموس کا کفارِ مکہ قائل تھا ، جس بنا پر کفار مکہ آپ کو صادق و امین کے لقب سے ملقب کیا، لیکن جوں ہی آپ کو چالیس سال کی عمر میں نبوت کی دولت سے سرفراز کیا گیا ، تو آپ نے تین سال تک خفیہ طور پر دعوتِ الی اللہ کا فریضہ انجام دیا ، لیکن جب آپ کو یہ حکم دیا گیا کہ آپ علی الاعلان دعوتِ دین کے کام کو انجام دیے اور بداعتقادی و بت پرستی اور منہیات و خرافات کے رسم رواج میں جکڑے ہوۓ انسانوں کو ایک معبودِ الٰہی کی طرف دعوت دیے تو آپ نے بحکمِ خدا ایسا کیا لیکن لوگوں نے آپ کی ایک نہ سنی اور بجاۓ صادق و امین کے کاہن و شاعر اور خبطی اور دیوانہ کہنا شروع کردیا اور طرح طرح سے اذیتیں اور تکلیفیں پہنچائیں کبھی ذہنی اور کبھی جسمانی تکلیفوں سے دوچار کیا، جب اس میں کفار مکہ ناکام و نامراد ہوا تو عہدہ و منصب اور حسن عورت کا لالچ دیا لیکن جب یہ بھی سازشیں پھیکی پڑگئی تو آپ کو شعب ابی طالب میں بند کردیا اور وہاں آپ نے فقر و فاقہ کی زندگی بسر کی پھر آپ جب شعب ابی طالب سے نکل کر طائف گئے کہ لوگ اللہ کی وحدانیت کو تسلیم کرینگے لیکن طائف والے تو کفارِ مکہ سے بڑھ کر نکلے اور وہاں کے اوباشوں اور لچٌے لفنگو نے آپ پر پتھروں اور کنکریوں کی بارش کی اور ہر ممکن طرح سے آپ کو ستایا اور اس قدر تکلیف پہنچائی کہ آپ کے نعلین مبارک سے خون کے پھوٌارے بہنے لگے بس اسلیے کہ آپ مشن خداوندی سے دست بردار ہوجاۓ لیکن آپ اپنے مشن میں جمے رہے اور آپ کفارِ مکہ کے گالیوں کا جواب دعاء خیر سے دیا اور پتھروں کا جواب نرم کلامی سے اور دل آہ زاری کا جواب غم گساری اور ہمدردی سے دیا، پھر ایک وقت ایسا آیا کہ مکہ دینِ اسلام کا گہوارہ اور مرکز بنا صرف اور صرف صبرو استقلال کی بنیاد پر، اور امت کو یہ تعلیم دی گئ کہ صبر و استقلال میں ایسی قوتِ تاثیر ہے جو ظلم کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کردیتا ہے اور ربِ کریم نے قرآن کریم میں کیا ہی خوب صبر کرنے والے کے تعلق سے فرمایا ہے، إِنَّ الله مَعَ الصَّابِرِينَ
اور دوسری جگہ فرمایا،«إِنَّمَا يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسَابٍ،
اور حدیث مبارکہ میں اللہ کے رسول نے فرمایا،الصَبْرُ ضیائ
اب اگر ہم اپنے موجودہ صورت حال کا محاسبہ کریں تو مکی زندگی کہ زیرِ سایہ نظر آۓ گا لیکن ہمیں ان مواقع پر گھبرانے کی ضرورت نہیں کیونکہ دنیا کی مشکلات عارضی ہوتی ہیں خواہ کتنی ہی مدت تک رہے بس ہمیں چاہیے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دی ہوئی تعلیمات و ہدایات اور آپ کے اسوۂ پر اپنی زندگی موقوف کردیں۔
ازقلم: منظر عالم ویشالوی