معاشرے میں بڑھتی ہوئی سماجی برائیوں میں منشیات کاچلن اور اس کی روک تھام

معاشرہ دن بہ دن اخلاقیات کے باب میں روبہ زوال ہوچکا ہے بالخصوص نوجوان طبقہ اخلاقی حدود کو توڑ کر حیوانیت اور درندگی سے بہت قریب ہوچکاہے۔ اب تو صورت حال یہ ہوچکی کہ بُرائی اور گناہ کو معیوب نہیں بلکہ فیشن سمجھا جارہا ہے۔کچھ لوگ ہیں جو بُرائی کو بُرائی تو سمجھتے ہیں مگر اس کی قباحت اور ہلاکت سے ناواقف ہیں۔ آئے دن اخبارات اور سوشل میڈیا جرائم کی فہرست کو نمایاں طور پر پیش کررہا ہے۔ جرائم وحادثات میں ایک خبر تو نشہ سے متعلق ضرور رہتی ہے کیوں کہ نشہ تمام برائیوں کی جڑ اُمُّ الخبائث ہے اورجہاں کہیں بھی کوئی بُرائی اور جرم ہوتاہے وہاں شراب اور نشہ کا بڑا دخل ہوتا ہے۔ قتل و غارت گری، زنا اور بدکاری،ظلم و ناانصافی، خودکشی اور حرص وہوس اور لالچ کی وجہ بھی شراب نوشی اور نشہ ہے۔ منشیات سے پیدا ہونے والی خرابیاں صرف آج ہی دریافت نہیں ہوئیں بلکہ ان کو علم نفسیات کے بانی حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ شراب اور نشہ آور چیزیںہر برائی کی کنجی ہے۔(ابن ماجہ) شراب اورنشہ کے عادی لوگوں میں بہت ساری کمزوریوں اور برائیوں کے ساتھ مہلک بیماریاں بھی جنم لیتی ہیں۔ یہ لوگ کاہل، گندے، بے حس، لاپرواہ ہوجاتے ہیں۔ بھوک نہیں لگتی، کام کرنے کو جی نہیں چاہتا،ہاتھ پیر لڑکھڑاتے ہیں۔ گفتگو میں بیزاری، نفرت، یادداشت کمزور اور عقل کمزور ہوجاتی ہے۔ جسم کے عضلات ڈھیلے ہوجاتے ہیں۔ پھیپھڑے خراب ہوجاتے ہیں۔شریعت کی روشنی میں شراب کے بارے میں بتایاگیا کہ ’کل مسکرِ حرامٌ‘ ہر نشہ آور چیز حرام ہے۔ (ابوداؤد) اس وضاحت کےبعد بھنگ سے لے کر ہیروئن اور شراب سے لے کر LSDتک کو شامل کرکے ان کے استعمال کوحرام کردیاگیا۔آغاز اسلام کے وقت حالت یہ تھی کہ اس کے لئے کوئی قید اور پابندی نہیں تھی۔ بدچلنی اور شراب نوشی کےاڈے معبدوں میں ہوتے تھے۔ اسلام نے اس کو بتدریج حرام کیا،پہلے اس کی خرابی بتائی پھر اس کوگندگی کہہ کر دور رہنے کی تاکید کی پھر نشہ کی حالت میں نماز پڑھنے سے روکا گیااور اس کے نقصان دہ پہلو کو سامنے رکھ کر لوگوں کو اس سے نفرت دلائی ۔دھیرے دھیرے جب لوگ اس سے اجتناب کرنے لگے تو آخر کار اس کے حرام ہونے کا حکم نافذ کیا۔منشیات سے متعلق تمام چیزوں کو بھی حرام قرار دیا اور اس پر لعنت بھیجی۔ نشہ ایک عادت ہے اورجب انسان اس کا عادی بن جائے تو اس سے روکنے کے لئے نشہ سے اتنی نفرت دلائیں کہ اس کو ایک نجس چیز سمجھنے پر مجبور ہوجائے تو پھر وہ اس عادت کوچھوڑنے پرمجبور ہوجائے گا۔ منشیات کی کاشت، تیاری، فروخت بلکہ اس کی باربرداری کرنے والے شخص کو لعنت کا مستحق قرار دے کر اس کی صنعت اور تجارت کو روکنا اسلام کا منفرد کارنامہ ہے۔ کسی مسلمان کو منشیات سے باز رکھنے کے لئے وہ سب کچھ کیاگیا جو ضروری تھا اور اس کو استعمال کرنے والا لعنتی جب تک توبہ نہ کرے تو اس کی کوئی نماز اور نیکی اور عبادت قبول نہ ہوگی۔یہ بھی بت پرست کی طرح ہے، اس لئے آپؐ نے فرمایا :روزمحشر نشہ کرنے والے کے ساتھ وہی سلوک کیاجائے گا جو بت پرستوں کے ساتھ کیا جائے گا۔(ابن ماجہ بروایت ابوہریرہ) اسلام کی بنیادی پالیسی یہ ہے کہ اس نے ہر اس چیز کو حرام کیا جس کے استعمال سے صحت کونقصان ہو اور جو شریعت کی نظر میں حرام ہے جیسے ’’مردار کا گوشت، خون، سؤر کاگوشت اور جو چیزاللہ کے علاوہ دوسرے کے نام مشہورکیاگیاہو، جس کولاٹھی سے مارا گیا ہو، بلندی سے گراہو، ٹکر کھایا ہو یا کسی درندے نے پھاڑا ہو۔

حرام اورنشہ والی چیزیں اضطراری حالت میں استعمال کا حکم
اسلام کی مکمل فہرست میں گندگی کھانے والا جانور، کچلی والے زہریلے جانور، پنجے میں پکڑ کر کھانے والے، خچر، گدھا، چیونٹی، شہدمکھی، لومڑی، بھیڑیا، کوّا، مینڈ ک اوربلی حرام ہیں۔ اسی طرح شراب بھی حرام ہے اور کسی متنازعہ چیز کےبارے میں تویہ غلط فہمی ہو کہ اس کو کھانے یا پینے سے اس کی بیماری کو فائدہ ہوسکتا ہے تو قرآن مجید نے کچھ شرائط کے ساتھ جائز قرار دیا۔ سورۃ البقرہ۔ترجمہ: اور اگر تم کسی اضطراری کیفیت میں مبتلا ہو اور تمہارا ارادہ اللہ کے احکام کی خلاف ورزی نہ ہو اور نہ ہی تم اس خلاف ورزی کو عادتاً کرناچاہتے ہو تو تم کو ممنوعہ چیزیں استعمال کرناجائز ہوگا۔’’اللہ بخشش کرنے والا مہربان ہے‘‘یہی بات سورۃ المائدہ، سورۃ الانعام اور سورۃ النحل میں بھی واضح کی۔ حرام چیز اور نشہ آور چیز کااستعمال کسی مجبوری و اضطراری کیفیت میں ہی استعمال کیاجائے۔(۲) حرام چیز کے استعمال کا فیصلہ مریض کی مرضی پر نہ ہوبلکہ کسی مستند حاذق،طبیب حالات کو دیکھ کر تجویز کرے (۳) حرام چیز کی مقدار اور مدت استعمال بھی طبیب متعین کرے (۴)اضطراری حالت کو وہ اپنی عادت نہ بنالے، لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں ایک بات کی وضاحت فرمادی کہ کسی حرام چیز میں کوئی شفا نہیں۔

منشیات سے متعلق جدید علم نفسیات
انسانی معاشرے میں منشیات کا استعمال ذہنی و جسمانی خرابیوں کا باعث رہا ہے۔ زمانہ قدیم سے لوگ محض چسکا لینے کے لئے اور پھر عادت کے طور پر استعمال کرنے لگے۔ ہندوستان میں ایشیائے کوچک سے آنے والے آریہ اپنے ساتھ ایک ’’سوم رس‘‘ کا نسخہ بھی لے کر آئے تھے۔ ان کا رواج تھا کہ و ہ تیوہاروں اور غم غلط کرنے کے لئے سوم رس پی کر موج مناتے تھے۔ مندروں کے پروہت خود پوست گھوٹ کر پیتے تھے اور اپنے عقیدت مندوں کو پلاتے تھے۔دیگر مذاہب میں بھی منشیات کو لوگوں نے عبادت میں داخل کردیا، یہاں  تک کہ انگور کی شراب میں خمیری روٹی بھگوکر معبدوں میں آج بھی متبرک کے طور پر دی جاتی ہے۔ سگمنڈفرائیڈ وہ پہلا شخص تھا جس نے طب جدید میں کوکین کو آنکھوں کی جراحی کے دوران سن کرنے کے لئے استعمال کیا،لیکن جسم کے اندر یہ اچھائی اوربرائی کا مرکب ہے۔ ذہن سے تھکاوٹ دور کرتی ہے۔ خیالات کے سلسلہ کو مربوط کرتی ہے اور دماغی کام کرنے والوں کے لئے لاجواب تحفہ ہے۔طب جدید بیسویں صدی کے وسط تک مقوی اعصاب سمجھ کراستعمال کیاجاتا رہا ہے۔ کوکین کو نسوار سے ناک میں سوراخ پڑ جاتا ہے اس کو کھانے سے دماغی ہیجان پیدا ہوتاہے۔ ایسے لوگ کام کے قابل نہیں رہتے۔ جسمانی کمزوری اور دماغی انحطاط کی وجہ سے غذائی کمی اور جگر کی خرابیوں سے پاگل ہوکر مرجاتاہے۔نشہ کی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے وہ چوریاں کرتے ہیں،ڈاکے ڈالتے اور جرم کرکے اپنی لت پوری کرتے ہیں۔منشیات مختلف صورتوں میں تاریخ کے ہر دور میں رہی ہیں۔ کبھی تو ان کا استعمال غم غلط کرنے، کبھی موڈتبدیل کرنے، کبھی مشاعروں اور جلسوں میں تقریرکرتے وقت استعمال کیاجاتاہے۔ یوروپی ممالک میں اب صورت حال یہ ہے کہ کوئی ایسا گھرنہیں جہاں شراب نہ پی جاتی ہو۔ یہ فیشن بن گیا ہے ۔آریہ لوگ تہواروں، دعوتوں اور تقریبات میں شراب نہ پئیں تو ان کی شخصیت مسخ ہوجاتی ہے۔

شراب کے بارے میں دورجدید کی تحقیقات
یہ دماغ اور اعصاب کے لئے زہر قاتل ہے۔ مقدار کم ہو یا زیادہ دونوں صورتوں میں نقصان دہ ہیں۔ منشیات کی ہر قسم اب علم العلاج سے اس لئے خارج ہوگئی ہے کہ یہ کسی بیماری کا علاج نہیں ،ان کو دوا قرار دینا انسانی صحت سے ظلم کے برابر ہے ۔ مسکنات سے کسی بھی بیماری کا علاج نہیں ہوتا بلکہ حقیقت میں یہ مریض کو دھوکہ دیا جاتاہے اور وہ مریض کے احساسات اور شعور کو کُند کرکے توقع کررہا ہے کہ وہ بیماریوں کو بھول جائے۔ نام نہاد سکون آور ادویات کے بے جا استعمال سے لوگ ان کے عادی ہوگئے ہیں۔ معدہ کی بیماریوں میں منشیات آنتوں کو سُن کرکے پیٹ کی گرگڑاہٹ کو کم کرتی ہے۔

منشیات کے ذہنی اثرات
یہ بات طے شدہ ہے کہ شراب پینے سے معدہ اور آنتوں میںسوزش، جگر میں سوزش ،اعصاب میں سوزش اور دماغ کے خلیات تباہ ہوتے ہیں۔وہ شخص جو یہ جانتا ہے کہ شراب پینے سے اسے نقصانات ہیں، اس کے باوجود شراب پیتا ہے ہم اسے خودکشی ہی قرار دیں گےاور ایسے لوگ احساس کمتری کا شکار رہتے ہیں۔ بھنگ اور شراب دیہات میں فساد کروانے کے لئے استعمال کی جاتی ہے۔ نشہ کی حالت میں اچھائی اوربرائی میں تمیز ختم ہوجاتی ہے۔

منشیات کا مسئلہ اور حل
جدید تحقیقات کے مطابق الکحل اور منشیات کی رغبت کو جنون قرار دےکر اسے Dypsomaniaکا نام دیاہے۔ صدمہ ہونے پر نشہ کا سہارا لینا یا خودکشی کا سوچنا بزدلی اور فراریت کی بدترین مثال ہے۔ سستی،کاہلی، جسمانی صفائی سے پہلوتہی، کام کرنے سے کترانا، ذمہ داری سے بھاگنا، نشہ بازی کے ابتدائی نتائج ہیں۔

منشیات کا علاج
منشیات، نشہ آورچیزیں عقلی، حِسیّ، شرعی اوراخلاقی اعتبار سے نقصاندہ ہیں اس میں کسی بھی طرح کا دنیوی اور اُخروی فائدہ نہیں۔ شریعت شراب پینے کو گناہ کبیرہ قراردیا۔ ہر وہ شخص مرد ،عورت،بوڑھا اور جوان خوب جان لیں کہ یہ عادت بہت بُری ہے۔ عقل کو تباہ کرنے والی،ضمیر کو مردہ کرنے والی ہے۔یہ تمام برائیوں کی جڑ ہے۔ شراب پی کر آدمی اپنی ماں اوربیٹی سے بھی زنا کرسکتا ہے۔ یہ کوئی بیماری کا علاج نہیں اس سے بچنے کے لئے کچھ اصولوں کو اپناناہوگا۔اس بیماری کا علاج مشکل ہے، لیکن ناممکن نہیں۔سب سے پہلے ایسے لوگوں کو سمجھانا چاہئے،ان کی کونسلنگ کریں کہ اسلام نے جسم جان پیسہ کو نقصان پہنچانے والی صحت کو تباہ کرنے والی چیزوں کے استعمال سے منع کیا۔ اس کی قباحتیں بتائی کہ یہ نجس وناپاک ہے۔ بری صحبتوں سے ایسے لوگوں کو دور رکھیں کیوں کہ صحبتیں ہی انسان کو اچھایا برا بناتی ہے۔ آج معاشرہ کی تباہی وبربادی اور جرائم میںزیادتی کی ایک اہم وجہ بُری صحبتیں ہیں اوربُرے دوست ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے ،لہٰذا اسے دیکھناچاہئے کہ کس کو دوست بنائے۔منشیات،جرائم،برائیاں، فحش عریانیت، لادینیت، فطرت سے بغاوت، ظلم وتشدد، ناانصافیاں، حق تلفیاں بڑھنے کا ایک اہم سبب انسان اپنی فطرت اورحقیقت کو بھول گیا اور وہ گناہ کے انجام سے بے خبر ہے کہ اگر اس نے ذرہ برابر بھی شر اورگناہ کیا تو قیام کے دن  اس کے برے انجام اور سزا و عذاب کو دیکھ لے گا، ایک اہم وجہ شراب کو حرام کرنے کی یہی کہ اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ انسان کے لئے کیا چیز نقصان دہ ہے اور کیا فائدہ مند۔وہ اپنے بندوں کو بُرے کام او رنقصان دہ چیز استعمال کرنے کا حکم نہیں دیتا۔ و ینھی عن الفحشاء والمنکر (النحل 90)وہ فحش اورمنکر چیزوں سے روکتا ہے۔منشیات کے نقصانات کودنیا میں سب سے پہلے اسلام نے بتایا۔ اسلام نے مسئلہ کو پیدا ہونے سے پہلے ہر شخص کو منشیات سے باز رہنے کی ہدایت دی۔ فرمایا : لاتقربوالصلوٰۃ و انتم سکاریٰ (النساء 43)تم لو گ حالت نشہ میں ہو تو نماز کے قریب نہ جاؤ، یہ ابتدائی حکم اور ہدایت تھی۔ معاشرہ کو منشیات سے محفوظ رہنے اور اس سے روکنے کے سلسلہ میں جو اہم اقدامات کئے ہیں وہ یہ ہیں۔

(۱) ہر نشہ آور چیز حرام ہے (۲) جس کی مقدار تھوڑی ہو یا زیادہ حرام ہے (۳)منشیات آپس میں جھگڑا، فساد اور دشمنی کا باعث ہوتے ہیں (۴) جس نے نشہ کیا اور وہ توبہ کئے بغیرمرگیا تو اس کا حشر مسلمانوں میں نہ ہوگا (۵)قیامت کے دن ہمیشہ نشہ شراب کے عادی لوگوں کو دوزخیوں کے زخموں سے بہنے والی پیپ پلائی جائے گی (۶) منشیات کسی بیماری کا علاج نہیں ہوسکتا کیوں کہ یہ بذات خود بیماری ہے (۷) اللہ تعالیٰ نے حرام چیزوں میں شفا نہیں رکھی (۸) منشیات کے تمام کاروبار اور تجارت بھی حرام ہے (۹) کوئی بھی شرابی مسلمان خلوص دل سے اس بری عادت کو چھوڑنے کا ارادہ نیت اورعزم کرے تو اللہ تعالیٰ کی توفیق سے یہ عادت چھوٹ سکتی ہے (۱۰) دور نبوت اور دورخلفائے راشدین میں شراب پینے والوں کو 20-40کوڑے لگائے جاتے تھے۔ حکومتتیں بھی چاہے تو شراب معاشرہ سے ختم ہوسکتی ہے جس طرح دورنبوت وخلفائے راشدین کے دور میں ختم ہوئی تھی کیوں کہ یہ حکومت کی خاموشی بلکہ اس کی پشت پناہی سے ہی معاشرہ میں شراب کھلی ہوئی ہے اورحکومتیں اپنی رعایا پر آسانی اور رحم کامعاملہ کرتے ہوئے شراب پر پابندی لگادے۔

از- ڈاکٹر سید آصف عمری، حیدرآباد
موبائل نمبر:9885650216

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے