بھارت کی تقسیم کے بعد سے ہی آر ایس ایس کی کوشش رہی ہے کہ اس ملک کے مسلمانوں کو طاقت کے مراکز سے علاحدہ رکھا جائے۔دوسرے الفاظ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس ملک کے مسلمانوں کو ملک کے اہم فیصلوں کو لینے میں کوئی کردار نہیں ہو۔آزادی کے بعد سے ہی یعنی جب سے آر ایس ایس مضبوط ہوتا گیا اور ملک میں نفرت کی سیاست پروان چڑھتی گئی پارلیمنٹ اور اسمبلیوں میں مسلمانوں کی نمائندگی بتدریج کم ہوتی جا رہی ہے ۔بہت سے ریاستوں میں تو لوک سبھا میں مسلم نمائندگی بالکل ختم ہو گئی ہے ۔کئی ریاستوں میں مسلم نمائندگی نہ کے برابر رہ گئی ہے ۔
مہاراشٹر میں اسمبلی چناو ہو رہے ہیں اور اس ریاست میں مسلم نمائندگی اچھی خاصی ہوا کرتی تھی لیکن اس اسمبلی چناو میں مسلم امیدوار کا مسلم اکثریتی حلقے سے بھی کامیاب ہونا مشکل لگتا ہے ۔اسکی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مسلم اکثریتی علاقوں کو 2014 میں کی گئی حد بندی میں مسلم حلقے ختم سا ہو گیا ہے یا پھر مسلم اور غیر مسلموں کا تناسب برابر سا ہو گیا ہے ۔اس چناو سے پہلے بھی مسلم اکثریتی حلقے سے کئی مسلم امیدواروں کے کھڑے ہو جانے سے شیو سینا یا بی جے پی کے امیدوار جیت جایا کرتے تھے ۔اب تو ٹھاکرے شیو سینا انڈیا اتحاد میں شامل ہے۔ایسے میں گزشتہ اسمبلی چناو میں یہ بی جے پی کے ساتھ مل کر چناو لڑی تھی۔ ممبئی کے بائیکلہ جیسے مسلم حلقہ سے جہاں مسلم امیدوار جیت سکتا ہے لیکن یہ سیٹ شیو سینا کو گئی ہے ۔ممبئی کے ھی مانخورد اسمبلی حلقہ سے سماجوادی پارٹی کے ابو عاصم اعظمی مسلسل دو بار سے رکن اسمبلی ہیں لیکِن اُنکے سامنے راشٹروادی کانگریس پارٹی اجیت پوار نے ایم ایل اے نواب ملک کو امیدوار بنا دیا ہے ۔ابو عاصم اور نواب ملک دونوں کا تعلق اُتر پردیش کے اعظم گڑھ سے ہے۔اس حلقے میں اُتر پردیش کے ووٹروں کی تعداد اکثریت میں ہیں اور نواب ملک پیسے اور عوامی رابطہ میں کسی بھی طرح ابو عاصم سے کم نہیں ہے ۔ایسے میں دو مسلم ہیوی ویٹ کے ٹککر میں کوئی تیسرا غیر مسلم نکل سکتا ہے ۔
مسلمانوں کی نمائندگی کم ہونے کی ایک خاص وجہ یہ بھی ہے کہ مسلمانوں کے ووٹ غیر مسلم امیدوار کو ٹرانسفر ہو جاتے ہیں لیکِن اُسی جگہ اُسی پارٹی سے مسلم امیدوار کھڑا ہے تو اس پارٹی کے غیر مسلم ووٹ پوری طرح مسلم امیدوار کے حق میں نہیں جاتے ہیں ۔
حالانکہ بی جے پی کے ساتھ ایسا نہیں ہے۔اس کی مشال یہ ہے کہ بہار کے کھگریہ لوک سبھا حلقہ سے بی جے پی کے اتحادی لوک جن شکتی پارٹی نے 2014 اور 2019 میں ایک مسلم امیدوار محبوب قیصر کو کھڑا کیا تھا ۔20 فیصدی مسلم علاقے میں وہ دونوں بار جیت گئے۔جبکہ پانچ فیصدی مسلمانوں نے اُنہیں ووٹ نہیں دیے تھے۔وہ دونوں بار خالص غیر مسلم ووٹ سے جیتے تھے۔لیکِن بی جے پی اور اُنکے اتحادی شاید ہی مسلم امیدوار کھڑے کرتے ہیں اور امیدوار بناتے بھی ہیں تو مسلم حلقے سے ٹکٹ دیتے ہیں اور مسلم اکثریتی حلقے میں مسلمان اُنہیں ووٹ دیتے نہیں ہیں۔
بی جے پی اور اُنکے اتحادی اکّا دکّا جگہ سے ہی مسلمانوں کو امیدوار بناتے ہیں اور انڈیا اتحاد پارٹیاں بھی اچھی خاصی مسلم آبادی والے حلقے سے بھی مسلمانوں کو ٹکٹ نہیں دیتے ہیں کیونکہ اُنہیں غیر مسلم ووٹ نہیں ملیں گے اور غیر مسلم علاقے سے مسلمانوں کو شاید ہی ٹکٹ انڈیا اتحاد کی پارٹیاں دیتی ہیں ۔
امثال مہاراشٹر میں مسلم نمائندگی اور کم ہونے کی امید ہے ۔مسلمانوں کو اس سلسلے میں گہرائی سے سوچنے کی ضرورت ہے ۔ورنہ بہت جلد زیادہ تر ریاستوں کی اسمبلیوں سے مسلم نمائندگی نا پید ہو جائے گی اور آر ایس ایس کا منصوبہ پورا ہو جائے گا ۔
ملک کی تقسیم کے بعد اس ملک کے مسلمانوں پڑ پاکستان پرست ہونے کا الزام لگا اور اس الزام کی وجہ سے مسلمانوں کو خفیہ ایجنسیوں اور مرکز میں وزیر داخلہ کا عہدہ نہیں دیا جاتا ہے لیکن مفتی محمد سعید واحد رہنماء تھے جنہیں وزیر داخلہ بنایا گیا تھا ۔مفتی محمد سعید سے پہلے یا بعد میں کوئی مسلم نمائندہ کو وزیر داخلہ نہیں بنایا گیا ہے ۔
آر ایس ایس اور بی جے پی تو چاہتی ہے کہ مسلمانوں کی نمائندگی کارپوریشن تک محدود رکھی جائے۔مرکز اور ریاستی حکومت کے کاروبار میں مسلمانوں کو علاحدہ رکھا جائے ۔دیکھا جائے تو آر ایس ایس اور بی جے پی اس میں پوری طرح کامیاب ہوتی نظر آ رہی ہے ۔
تحریر: مشرف شمسی
میرا روڈ ،ممبئی
موبائیل 9322674787