اس ترقی یافتہ دور میں ہر مسلمان مرد اور عورت پر لازم ہے کہ انہیں ہر ضروری اور واجب علم کی تعلیم دی جاۓ اور ساتھ ہی ساتھ اس کي اہمیت بہی بتائ جاۓ ۔ آج کے اس عصرِ حاضر میں بہت سے مسائل ہمارے اور ان کے سامنے درپیش آتے ہیں جن کی تعلیم دینا ہمیں بہت ضروری ہے۔ مگر ہمیں ان مسائلو ں کے نا علمي کی وجہ سے ہم اسے نزر انداز کر ديتے ہیں ۔مگر ان مسائل سے آج کل کے نوجوان ہمارے بھائی بہن بالکل بے خبر رہتے ہیں اور آج کل کے نوجوان بچے اور بچیاں اس قیمتی علم کے بارے میں جاننے کی کوشش بھی نہیں کرتے جس کے باعث ہمیں بڑی بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اور خدا تعلینے علم سکھنا ہر مسلم مرد اور عورت پر فرض کرار دیا ہے اس وجہ سے ہم مسلمانوں علماء اور مفتیوں پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اس کے بارے میں علم پھیلائیں اور نوجوان مرد اور عورت کو اس سے آگاہ اور آراستا کرے کریں۔
دنیا میں جب کبھی بھی کسی قوم یا تہذیب کے عروج اور زوال کی بات کی جاتی ہے تو اس میں سب سے اہم کردار علم اور تعلیم کا ہوتا ہے۔ ہر دور میں قومیں اس بات پر غور کرتی ہیں کہ کس طرح علم کو حاصل کر کے وہ ترقی اور خوشحالی کے نئے دروازے کھول سکتی ہیں۔ موجودہ دور میں جب کہ ہم تیز رفتار ٹیکنالوجی، عالمی گلوبلائزیشن، اور سائنسی ایجادات کے دور میں جی رہے ہیں، مسلمانوں کے لیے علم کا حصول پہلے سے کہیں زیادہ ضروری ہے۔
اسلام ایک دینِ کامل ہے جو انسانوں کی فلاح و بہبود کی مکمل رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ قرآن اور حدیث کی روشنی میں مسلمانوں کو علم کی اہمیت اور اس کی ضرورت کا بھرپور تذکرہ کیا گیا ہے۔ قرآن اور حدیث میں علم کے حصول کی بار بار ترغیب دی گئی ہے، اور یہ واضح کیا گیا ہے کہ علم انسان کی فلاح اور کامیابی کا واحد ذریعہ ہے۔ اس مضمون میں ہم قرآن اور حدیث کی روشنی میں مسلمانوں کے لیے علم کی اہمیت پر گفتگو کریں گے اور یہ سمجھنے کی کوشش کریں گے کہ آج کے دور میں ہمیں علم کی ضرورت کیوں ہے۔قرآن مجید میں علم کی اہمیت پر متعدد آیات آئی ہیں جن میں مسلمانوں کو علم حاصل کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ سب سے پہلی وحی جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی، وہ "اقْرَأْ” یعنی "پڑھ” تھی، جو کہ ایک حکم اور مسلمانوں کے لیے ایک اشارہ تھا کہ علم کا حصول ہر مسلمان پر فرض ہے
قرآن مجید کی پہلی وحی "اقْرَأْ” سے آغاز ہوئی۔ اللہ تعالی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے پہلی بار پڑھنے کا حکم دیا، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ علم کا آغاز کتاب سے اور قلم سے ہوتا ہے۔ اس آیت میں بھی علم کے حصول کی اہمیت کو واضح کیا گیا ہے۔”یَرْفَعِ اللَّہُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ” (المجادلہ: 11):
اس آیت میں اللہ تعالی نے فرمایا کہ اللہ ان لوگوں کو بلند درجات دیتا ہے جو ایمان لاتے ہیں اور علم رکھتے ہیں۔ اس آیت میں علم کے بلند مقام کا ذکر ہے، جو ہمیں یہ بتاتا ہے کہ علم کی اہمیت کا تعلق صرف مادی دنیا سے نہیں بلکہ روحانیت سے بھی ہے۔ علم انسان کو بلند کرتا ہے، اس کی روح کو سکون عطا کرتا ہے اور اس کی دنیا و آخرت کی کامیابی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔”قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ” (الزمر: 9):
اس آیت میں اللہ تعالی نے یہ واضح کیا کہ علم رکھنے والے اور نہ رکھنے والے برابر نہیں ہو سکتے۔ اس سے یہ بات سمجھ آتی ہے کہ علم انسان کو ایک خاص مقام اور مرتبہ دیتا ہے جو اسکے بغیر ممکن نہیں۔ اس آیت سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہمیں علم کی جستجو کرنی چاہیے تاکہ ہم دنیا و آخرت میں کامیاب ہو سکیں۔”وَقُل رَّبِّ زِدْنِي عِلْمًا” (طہ: 114):
یہ آیت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کو نقل کرتی ہے، جس میں آپ اللہ تعالی سے علم کی مزید بہتات کی درخواست کرتے ہیں۔ اس میں یہ پیغام ہے کہ علم کا حصول ایک مسلسل عمل ہے اور انسان کو ہمیشہ اس کی جستجو میں رہنا چاہیے۔
حدیث کی روشنی میں علم کی اہمیت
حدیث شریف میں بھی علم کے حصول پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے اور اسے انسان کی فلاح و کامیابی کا اہم ترین ذریعہ قرار دیا گیا ہے۔
"طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِیضَةٌ عَلَىٰ كُلِّ مُسْلِمٍ” (ابن ماجہ):اس حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ علم کا طلب ہر مسلمان پر فرض ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ علم کا حصول ایک بنیادی ذمہ داری ہے جو ہر مسلمان پر عائد ہوتی ہے۔ یہ حکم کسی خاص عمر یا حالت کے لیے نہیں بلکہ ہر مسلمان کے لیے ہے۔
"مَن سَلَكَ طَرِيقًا يَطْلُبُ فِيهِ عِلْمًا سَهَّلَ اللَّہُ لَهُ بِهِ طَرِيقًا إِلَىٰ الْجَنَّةِ” (مسلم):
اس حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص علم کے حصول کی غرض سے سفر کرتا ہے، اللہ تعالی اس کے لیے جنت کا راستہ آسان کر دیتے ہیں۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ علم کا راستہ انسان کی آخرت کی کامیابی کا ذریعہ بن سکتا ہے۔
"إِنَّ اللَّہَ وَمَلَائِكَتَهُ وَأَهْلَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ حَتَّىٰ النَّمْلَةَ فِي جُحْرِهَا وَحَتَّىٰ الْحُوتُ لَيُصَلُّونَ عَلَىٰ مُعَلِّمِ النَّاسِ الْخَيْرَ” (ترمذی):
اس حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ، اس کے فرشتے، آسمان و زمین کی مخلوق اور حتی کہ سمندر میں رہنے والی مچھلیاں بھی اس شخص پر دعا گو ہیں جو لوگوں کو علم سکھاتا ہے۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ علم کا شعبہ اللہ کی نظر میں انتہائی محترم اور قدر و منزلت کا حامل ہے۔
علم کی ضرورت کا جائزہ
آج کے دور میں، جب کہ دنیا بھر میں سائنسی، تکنیکی، اور فنی انقلاب آ چکا ہے، مسلمانوں کے لیے علم کا حصول پہلے سے زیادہ ضروری ہو گیا ہے۔ اس کی چند اہم وجوہات درج ذیل ہیں:
دنیا بھر میں ہونے والی سائنسی، تکنیکی، اور صنعتی ترقی نے انسانی زندگی کے ہر پہلو کو بدل دیا ہے۔ مسلمانوں کو اس ترقی کا حصہ بننے کے لیے جدید علم کا حصول ضروری ہے تاکہ وہ دنیا میں اپنی حیثیت کو مستحکم کر سکیں۔مسلمانوں کو اپنے معاشی حالات کو بہتر بنانے کے لیے تعلیم حاصل کرنی چاہیے۔ جدید علم و ہنر کے ذریعے وہ اپنی معیشت کو مستحکم بنا سکتے ہیں اور دنیا کے دیگر ممالک کے ساتھ اقتصادی تعلقات قائم کر سکتے ہیں۔عالمی سطح پر بے شمار چیلنجز درپیش ہیں جیسے کہ ماحولیاتی تبدیلی، غربت، جنگ، اور صحت کے مسائل۔ ان مسائل کا حل علم کی روشنی میں ہی ممکن ہے۔ مسلمانوں کو اس حوالے سے اپنے محنت کی بنیاد پر دنیا کی رہنمائی کرنی ہوگی۔مسلمانوں کو اپنے دین کی درست تشریح اور اس کے اصولوں کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کے لیے علم کی ضرورت ہے۔ علم کے ذریعے ہی وہ لوگوں کو اسلام کے حقیقی پیغام سے آشنا کر سکتے ہیں اور اپنے معاشرتی مسائل کو اسلامی اصولوں کے مطابق حل کر سکتے ہیں۔
اسلام میں علم کا بہت بڑا مقام ہے، اور اس کا حصول صرف دنیاوی فائدے کے لیے نہیں بلکہ دین کی سچائیوں کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کے لیے بھی ضروری ہے۔ مسلمانوں کو قرآن و حدیث کی گہری سمجھ کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنی روحانیت میں ترقی کر سکیں۔
قرآن اور حدیث کی روشنی میں علم کا حصول نہ صرف مسلمانوں کی دنیاوی ترقی کے لیے ضروری ہے بلکہ ان کی روحانیت، اخلاقیات اور معاشرتی بہبود کے لیے بھی لازم ہے۔ علم کا حصول ہر مسلمان پر فرض ہے اور اس کے بغیر کسی بھی فرد یا قوم کی فلاح ممکن نہیں۔ موجودہ دور میں جب کہ دنیا تیز ترین ترقی کر رہی ہے، مسلمانوں کو اس بات کا عہد کرنا ہوگا کہ وہ علم کے حصول میں کسی قسم کی کمی نہیں چھوڑیں گے۔ اس کے ذریعے ہی وہ اپنی تقدیر بدل سکتے ہیں اور دنیا و آخرت میں کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔
تحریر: محمد طارق اطہر
دارالھدیٰ اسلامک یونیورسٹی، کیرالہ