ملک میں تاریخی مساجد کے خلاف من گھڑت دعووں کا ایک نیا سلسلہ شروع ہو چکا ہے، جس کا مقصد نہ صرف مسلمانوں کی مذہبی شناخت کو مجروح کرنا ہے بلکہ فرقہ وارانہ تقسیم کو مزید گہرا کرنا بھی ہے۔ حال ہی میں ہندو سینا کے قومی صدر وشنو گپتا نے دہلی کی جامع مسجد کا سروے کرانے کا مطالبہ کیا، یہ دعویٰ کرتے ہوئے کہ اورنگ زیب نے جودھ پور اور ادے پور کے کرشنا مندروں کو گرا کر ان کی مورتیاں جامع مسجد کے نیچے دفن کر دی تھیں۔ یہ دعویٰ کسی تاریخی ثبوت یا تحقیقی بنیاد سے عاری ہے اور صرف نفرت انگیز سیاست کو ہوا دینے کی ایک کوشش معلوم ہوتی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جامع مسجد کے قریب چند سال قبل میٹرو کی کھدائی کے دوران ایک پرانی مسجد کے آثار ملے تھے، جو "اکبرآبادی بیگم مسجد” کے نام سے مشہور ہے۔ یہ مسجد شاہ جہاں کی اہلیہ اکبرآبادی بیگم نے تعمیر کرائی تھی، لیکن 1857 کی جنگ آزادی کے بعد انگریزوں نے اس کے کچھ حصوں کو منہدم کردیا تھا۔ کھدائی کے دوران یہ مسجد تقریباً مکمل تعمیر کی حالت میں ظاہر ہوئی، جو تاریخ کے صفحات میں درج ایک اہم حقیقت کی تصدیق کرتی ہے۔ تاہم، اس کے باوجود حکومت نے اس مسجد کو مسلمانوں کے حوالے کرنے کے بجائے دوبارہ دفن کر دیا۔
یہ بات واضح ہے کہ ایک طرف مسلمانوں کی اپنی تاریخی مساجد، جو زیر زمین سے دریافت ہو رہی ہیں، انہیں واپس نہیں دی جا رہیں، بلکہ ہندوستان میں سیکڑوں پرانی مسجدیں مقفل ہیں جنہیں مسلمانوں کے لیے کھولا نہیں جا رہا ہے اور دوسری طرف موجودہ مساجد پر مندر ہونے کے جھوٹے دعوے کرکے ان کے سروے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ یہ حکومت کی دوغلی پالیسی اور مسلمانوں کے ساتھ کھلی ناانصافی نہیں تو کیا ہے۔!
ایسی صورت حال میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ملک کے اقلیتوں کے ساتھ ایسا رویہ دستورِ ہند کے اصولوں کے مطابق ہے؟ کیا تاریخی ورثے کے ساتھ یہ کھلواڑ جائز ہے؟ حکومت کو اس متعصبانہ رویے کو ترک کر کے انصاف اور مساوات پر مبنی پالیسی اپنانی چاہیے، تاکہ ملک کی گنگا-جمنی تہذیب کا تحفظ کیا جا سکے۔
ازقلم: آفتاب اظہر صدیقی
کشن گنج، بہار
4 دسمبر 2024ء