حوصلہ افزائی سے متعلق مولانا سجاد نعمانی سے مولانا کے والد ماجد کی ایک اہم نصیحت

اگر تم نے آخرت اور مغفرت کی نیت کرکے کام کیا،تب تو تم کام کے میدان میں جمے رہوگے،ورنہ کچھ دنوں کے بعد بھاگ کھڑے ہوگے!

یہ ایک حقیقت ہے کہ ‘حوصلہ افزائی’ سے انسان میں کام کرنے کا جذبہ مزید بڑھتاہے اور’ حوصلہ افزائی’ انسان کو مہمیز دینے:یعنی حرکت دینے کا عمل کرتاہے۔ اس لیے ہماری یہ خاصیت ہونی چاہیے کہ جب کوئی شخص کوئی دینی،ملی،سماجی،اور سیاسی خدمت سر انجام دے رہا ہو،تو ہم اس کے کام کا سراہنا کریں اور اس کی حوصلہ افزائی کریں،تاکہ اس میں کام کرنے کی مزید رغبت بڑھے اور اس کی خدمت سے قوم مسلم کو قوت و توانائی حاصل ہو۔
اور کام کرنے والے کو چاہیے کہ ہر کام صرف اور صرف خدا وند قدوس کی رضا و خوشنودی کے لیے کرے اور کسی کے شکر و سپاس اور حوصلہ افزائی کی امید قطعی نہ رکھے؛کیوں کہ شکریے اور حوصلہ افزائی پر چلنے والا شخص زیادہ مسافت قطع نہیں کرپاتاہے۔
حوصلہ افزائی سے متعلق آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے رکن حضرت مولانا محمد خلیل الرحمٰن سجاد نعمانی صاحب (مدظلہ العالی) نے اپنے ایک بیان میں خود سے کی گئی اپنے والد ماجد کی ایک اہم نصیحت کا تذکرہ کیا ہے،جسے میں افادہ عام کی خاطر سپرد قلم کررہاہوں،امید کہ قارئین کے لیے وہ مشعلِ راہ ثابت ہوگی۔

مولانا خلیل الرحمٰن سجاد نعمانی نے اپنے والد ماجد کی نصیحت کا تذکرہ کرتے ہوئے کہاکہ:جب میں مدرسہ سے رسمی فراغت حاصل کرکے گھر آیا ،تو میرے والد گرامی نے مجھے قریب بٹھاکر کہا کہ:اب تم زندگی کے ایک نئے دور میں داخل ہو رہے ہو!تجربوں کی روشنی میں تم کو میں کچھ ضروری باتیں سمجھانا چاہتا ہوں،دل کے کانوں سے سننا اور دل پر نقش کرلینا۔میں ہمہ تن گوش ہوکر بیٹھ گیا ،کیوں کہ وہ اس طرح کی تمہید باندھ کر گفتگو کرنے کے عادی نہیں تھے ؛اس لیے میں بالکل سناٹے میں آگیا کہ میرے والد اب مجھے کیا کہنے جارہے ہیں اور پھر انھوں نے کہا کہ:’ تم اس کو اچھی طرح سمجھ لو !کہ تم اس قوم کی خدمت کے لیے میدان میں اتر رہے ہو ،جس قوم کی طرف سے تم کو سوائے تنقیدوں کے اور سوائے ہمت شکنیوں کے کچھ نہیں ملنے والا ہے۔ یہ قوم تم کو خون کے آنسو رلائے گی اور تم اس قوم کی خاطر اپنے بچوں کو جھونک دوگے،اپنی صحت اور جان کو خطرہ میں ڈال دوگے،حتی کہ سب کچھ لٹا دوگے،تب بھی یہ قوم تمھیں بخشے گی نہیں۔اس لیے پہلے دن سے اپنی نیت کو خالص کرلو! کہ صرف اللہ کی طرف دیکھنا اور قوم کی طرف بالکل مت دیکھنا۔ اگر تم نے آخرت اور مغفرت کی نیت کرکے کام کیا،تب تو تم کام کے میدان میں جمے رہوگے،ورنہ کچھ دنوں کے بعد بھاگ کھڑے ہوگے۔

ازقلم: انوارالحق قاسمی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے