تحریر:محمد وسیم فیضی
اللہ تعالی کی رضا کے پیش نظر دوسروں کی ضرورت کو اپنی ذاتی حاجت پر ترجیح دیناایثار کہلاتا ہے۔یہ ایک ایسا جزبہ ہے جس کا تعلق دل اور نیت سے ہوتا ہے، کیونکہ جب کوئی اپنی ضرورت کوپس پشت ڈال کر دوسرے کی ضرورت کو پورا کرتا ہے تو اس وقت اللہ اس سے پوری طرح راضی ہو تا ہے،اور اسکا وہ فعل بارگاہ رب العزت میں بڑا مقبول ہوتا ہے۔
ایثارکو اللہ تعالی نےاہل مدینہ کا وصف خاص قرار دیا ہے،کیونکہ مسلمان جب مکہ مکرمہ سےہجرت کر کے مدینہ طیبہ تشریف لاۓ،تو وہاں پہلےسے رہنے والوں نے مہاجرین کے ساتھ جو حسن سلوک کیاجس میں جزبہ ایثار قدم قدم پر نمایاں نظرآتا ہے۔ در حقیقت خود ضرورت مند ہوتے ہوۓ بھی انہوں نے اپنے مہاجر بھائیوں کی ہرلحاظ سے مدد کی اس لۓاللہ کو ان کا ایثار بہت پسند آیا۔
جزبہ ایثار کا تقاضا ہے کہ اللہ کی راہ میں دوسروں کی تکلیف دور کر نے کے لۓ قیمتی سے قیمتی چیز دینے سے دریغ نہ کیا جاۓ ،اور دنیا کی اشیاء کی محبت رضاۓ الہی میں رکاوٹ نہیں بننی چاہۓ۔
ایثار کے متعلق اللہ تعالی نے بڑے جامع الفاظ میں یوں ارشاد فرمایا ہے:٬٬جب تک تم اپنی پیاری چیزوں سے خرچ نہ کےو۔بھلائ ہر گز حاصل نہیں کر سکتے :(آل عمران) اس آیت میں جزبہ ایثارکی تعریف بڑے عمدہ طرقے سے بیان کی گئی ہے۔
ایثار کے بارے میں رسول اکرم ﷺکے چند ارشادات ملاحظہ ہوں۔
بلا شبہ صدقہ(خیرات) اللہ کے غضب کو ٹھنڈا کر دیتا ہے اور بری موت سے بچاتا ہے۔(ترمزی شریف)۔
اےابن آدم! تیرے لۓضرورت سےزائد مال کا خرچ کر دینابہتر یےاور اسے روکے رکھنابرے نتائج کا حامل ہے: مسلم،ترمذی
ان احادیث پاک سے ہمیں معلوم ہوا کہ صدقہ کرنے سے بلائیں
دفع ہوتی ہیں،اور انسان بری موت سے محظوظ ہوجاتا ہے۔
حالیہ ایام میں ہندوستانی گورنمنٹ کے اعلان کےتحت،کروناوائرس کے بچاؤکے خاطرآج پورے ملک میں لوک ڈاؤن چل رہا، اور سارے کاروبار ٹھپ ہوچکے ہیں۔دھاڑی مزدور جو دن میں کام کرتے تھے تو دو وقت کاکھانا نصیب ھوتا تھا،اور غریب طبقہ کے لوگ ،انکی بہت ہی بری حالت ہوچکی ہے۔لیہذا ہمیں چاہۓ کہ ہمارے درمیان جن کو اللہ رب العزت نے دولت سے نواز ہے ،وہ حضرات صحابہ کرام کی سنت پر عمل کرتے ہوۓ ، جو ہمارے آس پاس غریب اور دھاڑی مزدور بستے ہیں،ہم اپنے صدقات وخیرات کے ذریعہ اان کی مدد کریں۔اللہ تعالی اسکا صلہ ضرور عطا فرماۓگا۔
کیونکہ اللہ تعالی خود فرماتا ہے۔۔وہ جو اپنے مال خیرات کرتے ہیں رات میں اور دن میں،چھپے اور ظاہر انکا نیگ انکے رب کے پاس ہے انکو نہ کچھ اندیشہ ہو نہ غم۔ البقرہ
مفسرین کرام اس آیت کی تفسیر یوں فرماتے ہیں کہ یہ آیت حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے حق میں نازل ہوئی آپ نے جبکہ راہ خدا میں چالیس ہزار دینار خرچ کۓ تھےدس ہزار رات میں ،دس ہزار دن میں ،اوردس ہزارپوشیدہ ،دس ہزار ظاہر۔
فائدہ۔۔ آیت کریمہ میں نفقہ لیل کو نفقہ نہار پر اور نفقہ سر کو نفقہ اعلانیہ پر مقدم کیا گیا ہے ،اس میں یہ اشارہ ہے کہ چھپا کر کے دینا ظاہر سے افضل ہے۔ خزائن العرفان
اس آیت کریمہ سے پتہ چلتا ہے کہ اگر کوئی شخص خیرات کرتا ہے تو وہ رائیگا نہ جا ۓگا اللہ تعالی اسکو اسکااجر ضرور عطا فرمائے گا اور یہ بھی پتہ چلتا ہے کی چھپا کر دینے میں زیادہ ثواب ہے۔
لیکن ہم نے تو آج صدقہ وخیرات کا نیا فیشن نکال دیا ہے کہ اگر ہم کسی کو دس روپۓ کی چیز دیتے ہیں تو اسکے ساتھ دس تصویر لیتے ہیں اور اسکو شوشل میڈیا پر وائرل کرتے ہیں ،خدارا! غریبوں کی مذاق بنانے سے بچیں۔
اللہ رب العزت کی بارگاہ میں دعا ہے کی حضورﷺ کے صدقے میں ہمیں ریا اور دکھاوا سے محفوظ فرمائے ۔امین۔