تحریر: محمد وثیق الفت نظامی مصباحی
کہا جاتا ہے کہ میڈیا عوام کی آواز ہوا کرتا ہے، لوگوں کی پریشانیوں اور ضروریات کو سرکارتک پہنچانا اس کا کام ہے. سرکار عوام کے مفاد کے خلاف اگر کوئی کام سر انجام دے تو اس پر سوال قائم کرنا اس کا شیوہ ہے۔ اسی وجہ سے میڈیا کو لوک تانتر کا چوتھا ستون کہا جاتا ہے۔ مگر پچھلے کچھ سالوں سے لوک تانتر کا چوتھا ستون کہا جانے والا میڈیا خود لوک تانتر اور جمہوریت کی بنیاد ہلا رہا ہے۔ الیکشن کے ایام ہوں یا عام حالات ہمیشہ وہ ایک مذہب کے ماننے والے لوگوں (مسلمان) کے خلاف اکثریتی طبقہ کو بھڑکانے کی جہد مسلسل میں لگا رہتا ہے، یہاں تک کہ کورونا وائرس کی مہاماری میں بھی وہ کھلے عام مسلمانوں کو کرونا وائرس کے پھیلانے کا ذمہ دار بتا کر کرونا جہاد، کرونا بم جیسے نہ جانے کتنے بھڑکاؤ الفاظ استعمال کرتے ہوئے مشق ستم بنانے کا ایجنڈا چلا رہا ہے۔ اس کا نتیجہ بھی اب دکھنے لگا ہے. کہیں مسلمانوں کو بستی میں داخل ہونے پر پابندی کا بورڈ لگایا جا رہا ہے، کہیں ٹھیلے والوں اور دکان داروں سے نام پوچھا جا رہا ہے. مسلمان نام بتانے پر بھدی بھدی گالیوں کے ساتھ ان کو مارا پیٹا جا رہا ہے۔جب کہ اہل عالم پر یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اس وائرس نے چین کی سرزمین سے جنم لیا اور دھیرے دھیرے پیر پسارتے ہوئے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا لیکن یہ میڈیا ہے جو ہر معاملے کو ہندو مسلمان کرکے مسلمانوں کو بدنام کرنے میں کسر نہیں چھوڑتا۔ ایسا لگتا ہے کہ اسے اس کام کے لئے خرید لیا گیا ہے. اسی لیے آج کل ہر ذی فہم و شعور اسے دلالی میڈیا، چاٹوکار میڈیا اور گودی میڈیا کے نام سے ہی پکارتا ہے۔ افسوس کہ آج کرونا وائرس سے زیادہ خطرناک میڈیا وائرس ہو گیا ہے۔
نفرت کی آگ جس نے لگائی ہے……. میڈیا
الفت کی آگ جس نے بجھائی ہے……. میڈیا
(الفت نظامی)