پیوستہ رہ شجر سے، امید بہار رکھ (مسلک پرستی اور اختلاف امت)

تحریر:حافظ میر ابراھیم سلفی
مدرس:سلفیہ مسلم انسٹچوٹ پرے پورہ
رابطہ نمبر:6005465614

اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی

ان کی جمعیت کا ہے ملک و نسب پر انحصار
قوت مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تری

دامن دیں ہاتھ سے چھوٹا تو جمعیت کہاں
اور جمعیت ہوئی رخصت تو ملت بھی گئی

دین اسلام نے روز اول سے ہی امت کو ایک جسم بن کر رہنے کی دعوت دی۔ادیان عالم کے بنیادی اصولوں پر نظر ڈالنے سے واضح ہوجاتا ہے کہ دین اسلام واحد دین ہے جس میں اتحاد کو شعبہ مقاصد میں رکھا گیا اور اس مقصد تک رسائی کرنے کے لئے باضابطہ قواعد و ضوابط وضع کئے گئے۔ لیکن عجیب معاملہ ہے کہ داعیان اسلام ہی تفرقہ، فرقہ واریت، مسلکی تضاد پھیلانے میں سرگرم ہیں۔ جب عصری تالیفات کی طرف رجوع کیا جاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ مؤلف خدمت دین کے بجائے خدمت مسلک کرنے میں مشغول ہے۔خود کو حق کی طرف منسوب کرنے والے مخالف گروہ کو نفرت بھری نگاہوں سے دیکھتا ہے اگرچہ وہ اس کا اظہار نہیں کرتے لیکن الفاظ کافی کچھ بیان کرجاتے ہیں۔ راقم کی نظر جہاں تک پہنچ چکی ہے وہاں سے اتنا معلوم ہوتا ہے کہ شعوری یا غیر شعوری طور پر مختلف فکر رکھنے والے مسلم بھائی کو کفر کی وادیوں میں دھکیلا جاتا ہے۔راقم کی نظروں میں اس وقت ملت اسلامیہ میں الحاد و ارتداد کا فتنہ جعلی کتب و رسائل اور مسلک پرستی کے شکار علماء و مبلغین کی وجہ سے پھیل رہا ہے۔ جعلی کتب سے مراد ایسی کتابیں ہیں جن پر لیبل تو بظاہر اسلام کی لگائی گئی ہے لیکن دعوت اپنی فکر کی طرف دی جاتی ہے۔ راقم کے پاس ہزاروں کی تعداد میں ایسی کتب پڑی ہوئی ہے جن کو پڑھ کر لگا کہ ملت اسلامیہ کب کی زیر زمین دفن ہوچکی ہے۔ اب فقط مسالک زندہ ہے اور ایسے مسالک جو ایک دوسرے کے ایمان و عمل کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں۔

جب بھی کوئی مسلک سے منسلک فرد سٹیج پر آتا ہے اتحاد کی باتیں کرنے لگتا ہے، اتحاد۔۔۔ اتحاد۔۔۔ اتحاد۔۔۔ لیکن جب گفتگو سماعت کی جاتی ہے، انداز گفتگو ہو، الفاظ گفتگو، پیغام گفتگو ہو سب کچھ نفرت انگیزی پر مبنی ہوتا ہے۔امت کو پارہ پارہ کرچکے ہیں یہ خطباء۔راقم کی اتنی اوقات نہیں کہ کسی مخصوص فرد یا تنظیم کے متعلق اپنی راے رکھے لیکن مجبور ہوں یہ کہنے پر کہ ہمارے بڑوں کی زبان بہت ہی سخت ہے، کبھی ان کی زبان سے میٹھے بول نہیں نکلتے۔ بس اپنا تعارف، اپنی تشہیر، اپنا دفاع۔ علمی اختلاف کو علماء کے مابین علم کے حدود میں رکھا جاتا تو ملت کے لئے بہت ہی بہتر ہوتا لیکن علمی اختلاف کو عوام میں ڈال کر آخر ثابت کیا کرنا چاہتے ہو؟؟؟ کس چیز کی طلب ہے تمہیں؟ کیا تم خون کی ندیاں بہانا چاہتے ہو؟ کیا تم عزتوں کا جنازہ نکالنا چاہتے ہو؟ کیا تم حصول کرسی کے لئے ایسا کررہے ہو؟ خدارا۔۔۔۔! اپنے ضمیر کو ٹٹول۔۔ مسلکی تضاد کو اسلام اور کفر کی تصویر میں پیش کیا۔ جس ملت کا رب واحد ہو، نبی واحد ہو، آسمانی کتاب واحد ہو، قبلہ واحد ہو، جن کا عقیدہ ہو کہ ہمارا باپ بھی واحد ہے وہی افراد آج ایک دوسرے کے سامنے بیٹھنے کو بھی تیار نہیں۔قرآن کی آیات، نبیﷺ کے فرامین جس سینے میں محفوظ ہو، وہ کس طرح اتنا فتنہ پرور ہوسکتا ہے۔ درحقیقت معاملہ یہ ہے کہ یہ سب کچھ اقتدار اور منصب کی لڑائی ہے۔ دین کا اس کے ساتھ کوئی بھی تعلق نہیں۔

بقول ھاشم فیروزآبادی
سینکڑوں خدا ہیں جن کے ایک جگہ کھڑے ہیں ایک خدا والے سارے بکھرے ہوئے پڑے ہیں

امت کا درد رکھنے والے بھی موجود ہیں لیکن ان کا وجود گمنام ہوچکا ہے۔جب علم میں وسعت پیدا ہوتی ہے تب جاکر سمجھ آتا ہے کہ یہ اختلاف تو تشریحات کا اختلاف ہے، تاویلات کا اختلاف ہے، سمجھنے اور سمجھانے کا اختلاف ہے۔۔۔ جسے تم کفر سمجھتے ہو صحابہ اسے کچرے کے ڈبے میں ڈالا کرتے تھے۔قربان جاؤں قرآنی آیات پر۔۔۔ فرمان ربانی ہے کہ، "اور اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو جو اس نے تم پر اس وقت کی جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے۔ پھر اللہ نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی تو تم اس کی مہربانی سے بھائی بھائی بن گئے”.(آل عمران) دوسری جگہ رب العالمین کا فرمان ہے کہ، "اور مشرکین میں شامل نہ ہو جانا جنہوں نے اپنے دین کے ٹکڑے کر دیے اور خود گروہوں میں بٹ گئے”.(سورہ روم) توحید توحید کی رٹ لگانے والے کیا ان آیات پر غور و تدبر نہیں کرتے۔ ملت کے کلیجے کو چیر کر پھاڑ ڈالنا بھی رب العزت کے نذدیک شرک ہے، باپ کو بیٹے سے، بیٹے کو باپ سے، بھائی کو بھائی سے جدا کرنے والے ان دین کے لٹیروں کو وہ آیات دکھائی نہیں دیتی جن میں ملت اسلامیہ کے متبعین کو سیسہ پلائی دیوار بن کر رہنے کی تاکید کی گئی ہے۔انہی کے متعلق میرے رب نے اعلان کیا ہے کہ، "جن لوگوں نے اپنے دین میں تفرقہ ڈالا اور کئی فرقے بن گئے، ان سے آپ کو کچھ سروکار نہیں۔ ان کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے۔ پھر وہ خود ہی انہیں بتلا دے گا کہ وہ کن کاموں میں لگے ہوئے تھے”.(الانعام)

اختلاف رائے رکھنے والوں کا حال یہ ہے کہ فجر نماز کے وقت یہ گہری نیند میں ہونگے۔ دکانوں پر جنت و جہنم کی اسناد تقسیم کرنے والے آپ کو فجر میں دکھائی نہیں دیں گے۔ جب ان سے سوال کرو گے کہ تم تو نمازوں کے بھی پابند نہیں تم کیوں فتنے کی آگ کو بھڑکا رہے ہو، وہاں سے جواب ملے گا کہ ہم تو توحید والے ہیں، یا جواب ہوگا ہم تو نبی ﷺ کے دامن کو پکڑنے والے ہیں، یا جواب ہوگا کہ ہم اس امام کے پیچھے نماز نہیں پڑتے۔۔۔ یا سبحان الله
شیطان نے انہیں کس طرح گمراہ کر دیا، یہ خود بھی نہیں جانتے۔ جب بیٹی یا بہن کو وراثت دینے کی بات آتی ہے تو یہ اس طرح حرام کو حلال بنانے میں لگ جاتے ہیں جیسے خدائی طاقت ان کے ہی پاس ہو۔۔۔ان سے اگر سؤال کیا جائے کہ تم تو دین کی بڑی بڑی باتیں کرتے ہو، ہر روز دینی دروس میں ہوتے ہو، ہر دن تمہارا اجتماع ہوتا ہے،تم کیوں کسی کا حق مار رہے ہو۔۔ تو جواب ملے گا کہ بہن نے ہمیں بخش دیا حالانکہ صنف نازک معاشرے کے ڈر سے اپنی زبان کھول نہیں پاتی۔۔یہ وقت کے مناظر اسلام بھی ہونگے لیکن کردار ان کا سیاہ ہوگا۔۔ سوشل میڈیا کھول کر دیکھنے سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جلد ہی اللہ ہماری پکڑ کرنے والا ہے ۔۔ ہر ایک منصف بن بیٹھا ہے، ہر ایک اپنے آپ کو promote کرنے میں لگا ہوا ہے۔سوشل میڈیا کیا ہے؟ یہاں تو دین سے بیزار افراد بھی مفتیان کرام کا بھیس لگا کر تبادلہ خیال کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

خدارا انصاف کرو۔۔۔ نبی ﷺ کے مقدس پیغام کو اس طرح سرعام نیلام نہ کرو۔قبر میں اللہ کے فرشتوں کا سامنا کرنا ہے، پل صراط سے گزرنا ہے، میزان کے سامنے پیش ہونا ہے۔نامہ اعمال حاصل کرنا ہے۔ ذرا سوچو! تم کون سا ذخیرہ آگے بھیج رہے ہو۔ کیا تم اس قابل ہو کہ حوض کوثر پر نبی ﷺ کے مبارک ہاتھوں سے جام کوثر پیو۔یہ منصب، یہ مسلک، یہ کرسی، یہ شہرت۔۔۔ سب کچھ فنا ہونے والا ہے۔اپنی فکر کرو۔۔۔ حساب قریب آتے جارہا ہے۔ مغربی اقوام ملت پر ٹوٹ پڑے ہیں اور تم ابھی مناظرہ بازی میں لگے ہوئے ہو۔۔اپنے قلم کو، اپنی زبان کو، اپنی صلاحیت کو ملت کے خیر کے لئے استعمال کر۔ فرمان ربانی ہے کہ، "مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں ایک دوسرے کے مدد گار ہیں جو بھلے کام کا حکم دیتے ہیں اور برے کام سے روکتے ہیں، وہ نماز قائم کرتے اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانتے ہیں۔[٨٦] یہی لوگ ہیں، جن پر اللہ رحم فرمائے گا بلاشبہ اللہ سب پر غالب اور حکمت والا ہے”.(سورہ توبہ)

بات چاہے بے سلیقہ ہو کلیم
بات کہنے کا سلیقہ چاہئے

There is only one happiness in this life, to love and be loved.
True love comes quietly, without banners or flashing lights. If you hear bells, get your ears checked.

ضرورت اس بات کی ہے کہ انا کو قربان کیا جائے، عصبیت کا خاتمہ کیا جائے۔ اجتماعیت اور اتحاد کو قائم کرنے کے لئے سعی و کوشش کریں۔ اسلام کے عادلانہ نظام کو فروغ دیا جائے۔ یہ بات یاد رکھیں کہ اختلاف ایک فطری چیز ہے اس لئے کہ اذہان اور عقلیں مختلف ہیں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وحدت ملت جیسے عظیم مقصد کو ہمارے قلوب میں راسخ کریں۔۔۔۔ آمین یا رب العالمین۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے