ازقلم محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف ، پٹنہ
۲۳؍ اگست ۲۰۲۱ء کو ملک کی وزیر خزانہ نرملا سیتارمن نے ’’راشٹریہ مدری کرن پائپ لائن‘‘کے نام سے ایک نئے منصوبے کا اعلان کیا ہے ، اس منصوبہ کے تحت ہندوستان کے ہوائی اڈے، گیس اور تیل پائپ لائن ، کوئلہ کھدانیں، ریل اور ریلوے اسٹیشن، بندر گاہ ، برقی توانائی ، سبھی کچھ ٹھیکے، پٹے لیز اور کرایہ پر دیا جائے گا ، تاکہ اس سے آنے والی آمدنی سے ملک کی لڑکھڑاتی معیشت کو سہارا دیا جاسکے، اس کام میں آٹھ وزارت کی پونجی اور سرمایہ کو داؤ پر لگایا جائے گا، جس سے چار سال میں چھ لاکھ کڑوڑ کی رقم آئے گی، اس منصوبے کے تحت چار سو ریلوے اسٹیشن ، ۲۵؍ ہوائی اڈے، ۱۲؍ بندرگاہ اور کئی کھیل اسٹیڈیم بڑے کارپوریٹ گھرانوں کے قبضے میں چلا جائے گا،اس کے نتیجے میں پورا ملک گروی ہوجائے گا، یہ بات صحیح ہے کہ وزیر خزانہ نے ان سرمایے کو بیچنے سے انکار کیا ہے اور بار بار اس بات کو دہرایا ہے کہ ملکیت ہر حال میں سرکار کی رہے گی۔
یہ بات غور طلب ہے کہ سرکار اس تیزی کے ساتھ کیوں کانگریسی دورحکومت میں حاصل کردہ چیز کو دوسروں کے حوالے کر رہی ہے ، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ سرکار ان کمپنیوں کو چلا نہیں پا رہی ہے ، ان میں سے کئی کا بجٹ خسارے کا چل رہا ہے ، سرکار اسے کارپوریٹ گھرانوں کے حوالہ کرکے اپنی جان چھڑا نا چاہتی ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ ملک کا معاشی رجحان مودی دور حکومت میں سرمایہ دارانہ بنا ہے، اور امریکہ سے بڑھتی دوستی نے ہمارے وزیر اعظم کو یہ سکھایا ہے کہ حکمراں طبقہ تجارت کرنے کے لیے نہیں، حکومت کرنے کے لیے ہے،ا س لیے سرمایہ کاری اور تجارت کا کام تجارتی گھرانوں کے حوالہ کر دیا جائے، اس سے سرمایہ داروں سے حکومت کی قربت بڑھے گی اور وہ وقت پر کام بھی آئیں گے ، وزیر اعظم مودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ کا تعلق گجرات سے ہے اور یہ بڑے کاروباری گھرانے گجرات سے آتے ہیں، اب تک کی تاریخ بتاتی ہے کہ حکومت نے جو کچھ حوالہ کیا ہے، ان میں زیادہ تر وہی کمپنیاں ہیں ، جن کا تعلق گجرات سے ہے ، یہ ہم خرمہ وہم ثواب کے قبیل سے ہے ۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ ملک کا رجحان کانگریسی دور حکومت میں روس کی طرف تھا وہاں سرمایہ دارانہ نظام کو کچل کر رکھ دیا گیا تھا اور ساری دولت حکومت کی سمجھی جاتی تھی ، انفرادی ملکیت کا تصور دھیرے دھیرے ختم ہو گیا تھا، روس سے قربت کے نتیجہ میں کانگریسی دور حکومت میں آمدنی کے وسائل کو قومیالیا گیا، تاکہ وسائل پر حکومت کا قبضہ ہو اور اس کی آمدنی سے کاروبار حکومت کو چلا یا جائے۔
اب حکومت پھر سے قومی وسائل کو اونے پونے داموں کا رپوریٹ گھرانے کو دے رہی ہے ، اس کا ایک بڑا نقصان یہ ہوگا کہ بہتر خدمت کے نام پر چیزوں کی قیمتیں بڑھیں گی ، حکومت کا قیمت پر کنٹرول نہیں رہے گا، حالات ایسے پیدا کیے جائیں گے کہ آپ خواہی نخواہی ان کے پروڈکٹ اور مصنوعات لیں، جیسا کہ مواصلات میں ہم نے تجربہ کیا ، آج بی اس ان ال سے زیادہ دوسری کمپنیوں کے سِم ہمارے موبائل میں لگے ہوئے ہیں، جو سِم کے افتتاحی پروگرام میں خود وزیر اعظم نے اسے لانچ کیا تھا ایسے میں بی اس ان ال نیچے چلا گیا ، جو لوگ اس میں کام کرنے والے ہیں ، ان سے دوسری کمپنیوں نے تعلقات بنا لیے اور کار کردگی اس قدر بی اس ان ال کی گر گئی کہ اس کا فل فارم ’’بھائی صاحب نہیں لگے گا‘‘، بن گیا ، ایسے میں صارفین (کسٹومر) کے پاس اس کے لیے چارہ نہیں تھا کہ وہ دوسری کمپنی کی خدمات حاصل کر لیں ۔
مستقبل میں یہی حال ہوائی جہاز ، ریلوے ، جہاز رانی ، برقی توانائی ، گیس وغیرہ کا بھی ہونا ہے ملک دھیرے دھیرے امیروں کے ہاتھ میں چلا جائے گا، انگریزوں کی غلامی ہندوستان میں تجارت ہی کے حوالے سے آئی تھی ، اب دوسری غلامی ان کارپوریٹ بڑے تاجر گھرانوں کی کرنی ہوگی ، جس کے علاوہ ہندوستانیوں کے پاس کوئی چارہ کار نہیں ہوگا۔
وزیر خزانہ نرملا سیتارمن نے کہا ہے کہ اس سے روزگار میں اضافہ ہوگا، یہ بات ہماری سمجھ سے بالا تر ہے ، اس لیے کہ بڑی کمپنیوں میں کام انسانوں سے کم، مشینوں سے زیادہ ہوتا ہے، صنعتی انقلاب کے دوسرے دور میں بے روزگاری کا تناسب اسی لیے بڑھا ہے کہ کام کا انحصار مشینوں پر ہو گیا ، پہلے سڑک کے کام میں کتنے مزدور لگتے تھے؟ اب جے سی بی تنہا سیکڑوں لوگوں کا کام گھنٹوں میں نمٹا دیتی ہے ، یہ ایک مثال ہے جو سامنے کی ہے اور سب کی نظر کے سامنے ہے ، ورنہ انسانوں کی جگہ پر روبوٹ (مصنوعی انسان) کس تیزی سے مختلف قسم کے کاموں کو نمٹاتا ہے ، اس کا اندازہ ان لوگوں کو ہے ، جنہوں نے اسے کام کرتے ہوئے دیکھا ہے ۔سنٹر فار مائیٹرنگ انڈین اکانومی کی رپورٹ کے مطابق ملازمت کی تعداد جولائی میں ۳۸-۳۹۹ ملین سے کم ہو کر اگست میں ۷۸-۳۹۷ ملین رہ گئی ہے، صرف ایک مہینہ میں ۱۳؍ لاکھ لوگوں نے اپنی ملازمت سے ہاتھ دھولیا ہے، سی ام آئی کے مطابق جولائی میں قومی بے روزگاری کی شرح ۹۵ء ۶ فی صد سے بڑھ کر ۳۲ء ۸ فی صد ہو سکتی ہے۔
حاصل اس بحث کا یہ ہے کہ بی جے پی دور حکومت میں ملکی وسائل امیروں کے پاس گر وی رکھے جا رہے ہیں، جس سے بے روزگاری بڑھے گی اور مہنگائی میں اضافہ ہوگا، بڑے تاجر گھرانے جو چاہیں گے کریں گے اور حکومت کو ٹُک ٹُک دیدیم – دم نہ کشیدم کا صحیح مصداق بن کر رہ جائے گی۔