چنگاری!!!

از:۔مدثراحمد۔شیموگہ۔کرناٹک۔9986437327


پچھلے کچھ سالوں کا موازنہ کریں، یہ دیکھیں کہ مسلمانوں کی نوجوان نسل کہاں کھڑی ہوئی ہے، سوچیں کہ مسلمانوں کی سوچ کہاں جاکر رک گئی ہے، اور ہم کن بچوں یا نوجوانوں کی تائید کررہے ہیں؟۔ ہم اور آپ اس بات کو محسوس کریںگے کہ ہم وہ نہیں ہیں جو مسلمانوں میں ہونا چاہئے تھا۔ آج ہماری، نسلیں اگر قتل کئے جارہے ہیں تو حق کیلئے نہیں، نہ، ہی توحید کیلئے، نہ ہمارا خون بہادری کے کارنامہ انجام دے کر بہہ رہا ہے نہ ہی قوم مسلم کی بقاء و تحفظ کیلئےہم خون بہارہے ہیں بلکہ ہماری موت ناحق، اپنے مفادات کی تکمیل اور گناہوں کی سزا کے طور پر ہورہی ہیں ۔ کتنے نوجوانوں کے تعلق سے ہم اور آپ اخبارات میں قتل کئے جانے کے تعلق سے خبریں پڑھ رہے ہیں ان تمام اموات کا پس منظر دیکھیں، کوئی نشے کی وجہ سے مررہا ہے تو کوئی نشے کے کاروبار میں ملوث ہوکر ہلاک ہو رہا ہے، کوئی پیسوں کے لین دین کی وجہ سے مررہا ہے تو کوئی لڑکیوں، عشق و ناجائز تعلقات کی وجہ سے مررہا ہے ۔ ہم میں سے اکثر معاملات میں یہ سمجھتے ہیں کہ مرنے والامظلوم، مارنے والاظالم ہےلیکن ایسا نہیں ہے ۔بہت سارے معاملات میں ہماری اپنی کوتاہیاں لے ڈوبتی ہیں۔ ہر کوئی مظلوم نہیں ہوتا ۔ کچھ سال پہلے تک اگر قتل کے معاملات کی خبریں سنتے تو یہ واقعات پوری طرح سے حق وباطل کی لڑائی کے ہوتے،دعوت وتبلیغ دین کے تعلق سے ہوتے،حق کے فیصلوںکے تعلق سےہوتے، عزت وآبروکی بقاء کیلئے ہوتے تھےاوریہ اموات شہادت میں شمار ہوا کرتی تھیں۔لیکن اب حالات بدل چکے ہیں۔ کوئی لڑکی کے معاملے میں مررہا ہے تو کوئی پیسوں کےمعاملے میں ہلاک ہورہا ہے۔ یہ سب اس وقت ہوتا ہے جب ہمارے اندر کا ایمان یا پھر حق وناحق کو پہچاننے کی حس مردار ہونے لگتا ہے۔ ایسے میں مسلمانوں کا ایک طبقہ ایسا ہے جو ان امور کو جانچے بغیر یا پھر جائزہ لئے بغیر تحفظ وبقاء کی خاطر ہاتھوں میں بیانرلئے احتجاج کیلئے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ جس وقت ریاست کرناٹک میں انسداد بین المذاہب،شادیوں (لوجہاد ) کے قانون کو نافذ کرنے کی بات شروع ہوئی تو کچھ مسلم سیاستدان اورمسلم تنظیمیں اس قانون کی حفاظت کرنے کیلئے کمربستہ ہونے لگے تھے۔ لیکن سوال یہ تھا کہ محبت کی شادیوں کو فروغ دینا شعار اسلام میں سے ہے یا پھر اسلام اسے اولین ترجیح دیتا ہے؟۔ اگر نہیں تو کیوں مسلمان ہر معاملے کو اپنے اوپر لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ جس کو محبت کی شادی پر اعتبار اوراپنی طاقت پر اعتماد ہے وہ شادی کرلے گا اورجوابدہ بھی ہوگا۔ کیونکہ مسلمان ان قوانین کو اپنے سے نسبت کرلے؟۔ اسی طرح سے گائوکشی کی بات کریں تو مسلمان ہی صف اول میں کھڑے ہیں کہ ہمیں گوشت کھانا ہے اس لئے اجازت دی جائے۔ جبکہ بڑے کےگوشت کی دکانوں اور ہوٹلوں کو جائیں وہاں دیکھیں کہ کونسے مذہب کے لوگ بڑے کےگوشت کواستعمال کرنے والے ہیں۔ بہت سارے مدعے عمومی ہوتے ہیں جن کا تعلق ہر مذہب ،ذات سے ہوتاہےاورہر معاملہ احتجاج سے نہیں جڑتا۔ اگر کوئی شخص گانجے کے نشے میں مرجائے، یا گانجے کی خریدوفروخت کرنے والاہو، یا کوئی نوجوان لڑکی کے معاملے میں ہلاک ہوتا ہوتویہ تمام معاملات کسی مذہب یا ذات سے جڑے ہوئے نہیں ہوتے بلکہ انفرادی نوعیت کے ہوتے ہیں۔ جن کے پاس اخلاق نہیں وہ سماج کے نہیں ہوتےاورجن کے پاس سوچ وفکر نہیں ہوتی وہ جہد کار نہیں بن سکتے۔ اکثر ایسے مدعے بھی ہم منظر عام پر کھینچ لاتے ہیں جس سے گدھوں کو شہنشاہ کا مرتبہ مل جاتا ہے۔ مثلاً پرمود متالک کی بات لیں وہ جاہل کچھ بھی کہتے رہتا ہے اورمیڈیا میں آنے کیلئے بکواس باتیں کرتا ہے۔ جب عام لوگ اسکے معاملات کو ترجیح نہیں دیتے اوراسکی باتوں کو نظرانداز کرتے ہیں تو ایسے میں اگر تنظیمیں وادارے اسے اہمیت دینے لگیں گے تو وہ ہیرو بن جاتا ہے۔اسلئے جدوجہد کی چنگاری کو لگانے سے پہلے سوچنے کی ضرورت ہے کہ ہم کس موقع پر اورکس لئے چنگاری جلا رہے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے