لبنان میں حزب اللہ کے قائد سید حسن نصراللہ کی شہادت کے بعد امریکہ اور اسرائیل نواز میڈیا نے دعویٰ کیاتھاکہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کسی محفو ظ مقام پر چھپ گئے ہیں۔دنیا پراسرائیل کی عسکری طاقت اور اس کے دہشت گردانہ حملوں کا خوف اس قدر حاوی تھاکہ بڑی تعداد نے اس افواہ کو حقیقت مان لیا۔جب کہ آیت اللہ خامنہ ای نے سید حسن نصراللہ کی شہادت کے بعد ۲ اکتوبرکو طلبہ سےخطاب کیا تھاجسے براہ راست نشر کیاگیا۔عام طورپر ان کے خطابات براہ راست نشر نہیں ہوتے مگر میڈیا کی افواہوں کو زندہ درگورکرنے کے لئے یہ قدم اٹھایاگیا۔اس کے بعد انہوں نے اسرائیل کو چیلینج کرتے ہوئے نماز جمعہ کی امامت کا اعلان کردیا۔ایسے حالات میں کہ جب اسرائیل دہشت کی تمام حدوں کوپار کرنے پر تُلاہے،عوام کے تاریخی اجتماع میں شرکت کرنا اس بات کی دلیل تھی کہ انہیں دشمن کا ذرہ برابر خوف نہیں۔تقریباً پانچ سالوں کی طویل مدت کے بعد وہ نماز جمعہ کی امامت کےلئے تہران کی جامع مسجد ’مصلیٰ ‘پہونچے ۔اس سے پہلے جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد انہوں نے نماز جمعہ پڑھائی تھی ۔دنیا بہترجانتی ہے کہ اس اجتماع کا مقصدکیاتھا۔لاکھوں کی تعداد میں مردوزن انہیں سننے کے لئے تہران کی مسجد میں جمع ہوئے تھے ۔گویاکہ یہ اسرائیل اور اس کی حلیف طاقتوں کے خلاف اعلان جنگ تھا۔کیونکہ اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو نے کچھ دن پہلے ایرانی عوام سے خطاب کرتے ہوئے انہیں اپنی قیادت سے دستبردار ہونے کے لئے کہاتھا۔یہ اجتماع نتن یاہو کے منہ پر ایرانی عوام کا زوردار طمانچہ بھی تھاجس کی گونج پوری دنیا نے سنی ۔
آیت اللہ خامنہ ای کے خطاب کو پوری دنیا میں نشرکیاگیاتھا۔حتیٰ کہ وہ میڈیا بھی اس خطاب کو نشرکررہاتھا جس نے یہ دعویٰ کیاتھاکہ وہ اسرائیل کے خوف سے چھپ گئے ہیں ۔میڈیا کو نماز جمعہ سے زیادہ دلچسپی نہیں تھی ۔کیونکہ اس سے پہلے بھی آیت اللہ خامنہ ای نے جمعہ کی نماز پڑھائی ہے مگر کبھی میڈیا نے اس قدر توجہ نہیں دی ۔چونکہ اسرائیل پر ایران کے حملے اورحزب اللہ کے قائد سید حسن نصراللہ کی شہادت کے بعد وہ پہلی بار منظر عام پر آرہے تھے اس لئے دنیا ان کے مؤقف کو سننے کے لئے بے چین تھی ۔خاص طورپر وہ افراد زیادہ تذبذب کا شکار تھے جو اسرائیل نوازی میں مرےجارہے ہیں ۔۷ اکتوبر ۲۰۲۳طوفان الاقصیٰ کے بعد مزاحمتی محاذ نے بڑی کامیابی کامیابیاں حاصل کیں مگر شہیدوںکی تعداد بھی کم نہیں ہے ۔خاص طورپر حماس کے لیڈر اسماعیل ہنیہ کہ جنہیں دشمن نے ایران میں نشانہ بناکر مقاومتی محاذ کی کمرتوڑنے کی کوشش کی تھی۔بہرکیف!اس صورت حال کے باوجود جب دنیا نے آیت اللہ خامنہ ای کی پہلی جھلک دیکھی تو ان کی باڈی لنگویج سے ظاہرتھاکہ وہ کس قدر مطمئن ہیں ۔ان کے چہرے پر کسی طرح کاخوف تھا اور نہ حزن وملال ۔وہ شیرصفت آئے اور دشمن کوللکارتے ہوئے اپنا خطبہ مکمل کیا۔ان کے خطبے میں کئی اہم نکات تھے جن میں اہم نکتہ مسلمانوں کو دشمن کے خلاف اتحاد کی دعوت تھی۔لیکن کیا مسلمان حکومتیں امریکہ اور اسرائیل کے خلاف متحد ہوسکتی ہیں ؟یہ بعید معلوم ہوتاہے لیکن ناممکن نہیں ہے !اس کے لئے جرأت اور غیر اسلامی کی ضرورت ہے اور بس!ایران نے مشکل وقت میں انہیں اتحاد کی دعوت دی ہے جسے کشادہ ظرفی کے ساتھ قبول کرنا چاہیے ۔کیونکہ جب تک مسلمان متحد نہیں ہوں گے اسی طرح تباہ ہوتے رہیں گے ۔
آیت اللہ خامنہ ای نے اپنی تقریر میں اسرائیل پر ایران کے حملے کوجائز ٹھہراتے ہوئے آئندہ حملوں سے بھی خبردار کیا۔انہوں نے واضح الفاظ میں اسرائیل اور امریکہ کوخطاب کرتے ہوئے کہاکہ ہم اپنے فرائض کی ادائیگی میںنہ کبھی ہچکچاتے ہیں اور نہ عجلت کرتے ہیں۔انہوں نے ایرانی حملے کو صہیونی جرائم کے مقابلے میں ایک معمولی کارروائی قراردیا۔اس طرح انہوں نے اسرائیل کو آئندہ ہوشیار رہنے کی ہدایت بھی دی۔انہوںنے صہیونی ریاست کو بغیر جڑ کی ریاست سے تعبیر کرتے ہوئے اس کو اکھاڑ پھینکنے کے عزم کااظہارکیا۔انہوں نے کہ اس ریاست کی کوئی بنیاد نہیں ہے اور فقط امریکی حمایت سے اس کا وجود باقی ہے ۔انہوں نے کہاکہ کسی بھی عالمی عدالت اور ادارے کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ فلسطینی عوام کو صہیونیت کے خلاف استقامت سے روک سکے ۔انہوں نے 7 اکتوبر2023 کو ہوئے حماس کے حملے ’طوفان الاقصیٰ‘ کو جائز ٹھہراتے ہوئے کہافلسطینیوں کو یہ قدم اٹھانے کاحق تھاکیونکہ ان کا مقابلہ ایک ایسے دشمن سے ہے جوانکے بنیادی حقوق حتیٰ کہ ان سے جینے کا حق بھی سلب کرلیناچاہتاہے ۔اس سے پہلےانہوں نے اپنے ایک بیان میں کہاکہ خطے میں بدامنی اور درپیش مسائل کی ایک بڑی وجہ امریکہ اور اس کے حلیف ملکوں کی مغربی ایشیا میں موجودگی ہے ۔انہوں نے پہلی بار علاقائی مسائل کی جڑخطے میں ناٹوافواج کی موجودگی کو قرارنہیں دیابلکہ وہ اس کا اعادہ کرتے رہتے ہیں ۔انہوں نےبارہا کہاہے کہ مشرق وسطیٰ سےامریکہ کوہرحال میں جانا ہوگا۔لیکن امریکہ مسلسل ہزیمتیں اٹھانے کے باجوود مشرق وسطیٰ میں موجود ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اپنی چودھراہٹ برقراررکھنے کے لئے کسی بھی حدتک جاسکتاہے ۔دنیا سے یک قطبی نظام کاخاتمہ ہوچکاہے اور اب کثیر قطبی نظام کا دور ہے ۔اس کے باوجود امریکہ یک قطبی نظام پرمصر ہےجس نے تیسری جنگ عظیم کے شعلے بھڑکادئیے ۔ویسے بھی امریکہ کو اس وقت یک قطبی نظام کا محور نہیں کہاجاسکتاکیونکہ اس کی چودھراہٹ بھی ناٹو افواج کے اتحاد پر منحصر ہے ۔اس لئے تنہا امریکہ بھی عالمی منظرنامے پر کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔
اسرائیل پر ایران کا حملہ دلیرانہ اور تاریخی تھا۔ایران نے ایسے وقت میں اسرائیل پر حملہ کیاجب پوری امت مسلمہ کشمکش میں مبتلاتھی ۔اس حملے نے یہ بھی ظاہر کردیاکہ مقاومتی محاذ انسانی اور اسلامی اقدار کے مطابق جنگ لڑرہاہے ۔ایران نے اسرائیل کی فوجی تنصیبات،ہوائی اڈّوں اور دفاعی مراکز کو نشانہ بنایا۔اس کے میزائیلوں کی زد میں رہائشی علاقے نہیں تھے ۔دوسری طرف اسرائیل ہے جس نے ہمیشہ رہایشی علاقوں پر حملے کئے ۔عورتوں اور بچوں کا بہیمانہ قتل کیا۔اسکولوں اور اسپتالوں کو خاص طورپر ہدف بنایا۔بظاہرمزاحمتی محاذ کی کمزوری کا ایک سبب بے گناہوں کے قتل سےاجتناب اور رہائشی علاقوں پر حملوں سے پرہیز ہے۔اگر حزب اللہ اور اس کی اتحادی تنظیمیں اسرائیل کے رہائشی علاقوں پر حملے کرتیں تو آسانی سے اس کو گھٹنوں پر لایاجاسکتاتھا۔لیکن انہوں نےکبھی ایسانہیں کیا۔جنگ جیتنے کے لئے غیر انسانی حربے استعمال کرنابزدلوں کاکام ہے ۔لبنان پر ہوئے تازہ حملوں میں دودھ پیتے بچے بھی مارے گئے ،لیکن ایک بار بھی میڈیا اور عالمی طاقتوں نے اس کی مذمت نہیں کی ۔کیونکہ میڈیا استعمارکازرخریدہے اور اسی نے اسرائیل کو جنم دیاتھا۔فی الوقت ایران یامزاحتمی محاذ کی جنگ اسرائیل کے ساتھ نہیں ہے ۔یہ پنجہ آزمائی عالمی طاقتوں کےساتھ ہے ۔جس طرح یوکرین میں عالمی طاقتیں روس کے خلاف متحد ہیں اسی طرح غزہ ،لبنان اور شام میں یہ طاقتیں اپنی پوری طاقت کے ساتھ لڑرہی ہیں ۔اس سے یہ بھی سمجھاجاسکتاہے کہ ایران کا حملہ اسرائیل پر نہیں بلکہ امریکہ اور اس کی حلیف طاقتوں کے خلاف تھا ۔اس زاویےسے ایران کے حملے کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے ۔
ایران کے حملے کے بعد اسرائیل اور اس کی حلیف طاقتیں خاموش نہیں بیٹھیں گی ۔ایران پر حملے سے پہلےتوانہیں ہزاربار سوچناپڑے گالیکن اس کا انتقام غزہ ،لبنان اور شام کی بے گناہ عوام سے لیاجائے گا۔اسرائیل کی مثال ’کھسیانی بلّی کھمبانوچے‘ کی سی ہے ۔اس کے دفاعی نظام اورعسکری قوت کی پول کیاکھلی اس پر مزید پاگل پن کے دورے پڑنے لگ گئے۔اس کے فضائی حملوں میں شدت آگئی ہے اوروہ لبنان کو غزہ کی طرح تباہ کرنے پر تُلاہواہے ۔اس کااصلی ہدف حزب اللہ کوختم کرناہے اس لئے وہ مسلسل اس کی قیادت کو نشانہ بنارہاہے ۔کیونکہ حزب اللہ وہ طاقت ہے جس نے عراق،شام اور لبنان میں داعش سے لوہالیاتھا اور اس کے خاتمے میں کلیدی کردار اداکیاتھا۔اس لئے استعماری طاقتوں کو حزب اللہ کا وجود ہرگز برداشت نہیں ۔لیکن کیاحزب اللہ اور حماس کوختم کرنا اتنا آسان ہے ؟کیونکہ اب حزب اللہ اور حماس دوتنظیموں کا نام نہیں بلکہ ایک مزاحمتی نظریے کانام ہے ۔اس لئے استعماری طاقتوں کو اس محاذ پر بھی منہ کی کھانی پڑے گی!
تحریر: عادل فراز
adilfaraz2@gmail.com
7355488037