از:۔مدثراحمد۔شیموگہ
کرناٹک۔9986437327
اترپردیش،مظفرنگر،آسام کے مختلف علاقے،گجرات کے مختلف علاقوں میں فسادات، اب تریپورہ میں مسلم کش فسادات کا باریکی سے جائزہ لیں کہ کس طرح سے سنگھ پریوارمسلمانوں کے سازش کرتے ہوئے ڈھال کے طو رپر استعمال کرتے ہوئے ملک کو ہندوراشٹربنانے کیلئے کام کررہاہے۔حالانکہ اس وقت تریپورہ میں جانی نقصان بہت کم ہواہے،البتہ مالی نقصان بڑے پیمانے پر ہواہے،عبادت گاہیں جل کر خاک ہوئی ہیں۔
اس سے پہلے جن مقامات فسادات ہوئے تھے وہاں پر مسلمانوں کا جانی نقصان بہت بڑے پیمانے پر ہواتھا۔دہلی سے لیکر کنیاکماری،مغربی بنگال سے لیکر گجرات تک کے حالات کا جائزہ لیں تو مسلمان کسی بھی طرح کی تیاری میں نہیں ہیں۔نہ وہ دشمنوں سے لڑنے کیلئے جسمانی طورپر تیاری کئے ہوئے ہیں اور نہ ہی دشمنوں کے حملوں کے بعد بازآبادکاری کیلئے قبل از وقت مالی طور پر مستحکم ہیں۔نہ مسلمانوں کا کوئی قائدہے،نہ مسلمانوں کی کوئی قیادت کررہاہے،مسلمان کسی بھی طرح سے تیارنہیں ہیں۔
بلکہ وہ یہ سوچ کر خاموش رہتے ہیں کہ یہ فسادات تو دہلی میں ہورہے ہیں،یہ فسادات تو یوپی میں ہورہے ہیں،یاکچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ ان فسادات سے ان کا کوئی لینا دینا نہیں ہے،اس لئے یہ لوگ خاموشی اختیارکئے ہوئے ہوتے ہیں۔
بھارت میں مسلمانوں کی طرف سے دشمنوں کے تئیں بے حسی ہی دشمنوں کی طاقت ہے،اگر مسلمان اپنے آپ کو ہر مورچے پر تیار کئے ہوتے تو شائد یہ دن دیکھنے کو نہ ملا ہوتا۔کہنے کو تو ہمارے پاس امیر شریعت اور امیر الہنددونوں ہی موجودہیں،لیکن دونوں ہی معاملات میں بھارت کے مسلمان غریب ہیں۔ان دونوں امیروں کا کوئی فائدہ نظرنہیں آرہاہے۔
سچ بات تو یہ ہے کہ اس وقت صرف ملکی سطح پر ہی نہیں بلکہ اپنے اپنے مقامی محلوں اور گلیوں میں بھی مسلمانوں کی نمائندگی نہ کہ برابرہے۔ہاں ہر گلی میں ہر محلے میں غیر مسلموں کی خوشنودی حاصل کرنے والے اور پولیس کی مخبری کرنے والوں کی تو کوئی کمی نہیں ہے اور اسی کی وجہ سے اس وقت مسلمانوں کی قیادت اور طاقت کمزور ہوچکی ہے۔پولیس کی مخبری کرنے والے مسلمانوں کی طاقت کو کھوکھلا کررہے ہیں اور غیر مسلموں کی چاپلوسی کرنے والےمسلمانوں کی قیادت کو توڑرہے ہیں۔
ہر طرف مفاد پرستی کا عالم چھایاہواہے،جسے لوگ لیڈر بنانا چاہتے ہیں وہ چار قدم آگے بڑھ کر شہرت اور عہدوں کا بھوکا ہوجاتاہے اور قوم کی قیادت وامامت کا فلسفہ بھول جاتاہے یا پھر چند پیسوں کی خاطر قوم کاسودا کر بیٹھتاہے۔افسوس صد افسوس کہ اسوقت مسلمانوں کے ملّی و سماجی مسائل کو بنیاد بنا کر سیاست کرنے کے بجائے ہماری نوجوان نسلیں ملّی و مذہبی باتوں کو لیکر جذباتی طور پر لیڈر بننے کی کوشش کررہے ہیں،جبکہ ان جذبات کا اثر زیادہ دن نہیں پڑتابلکہ مذہب کو بنیادبناناان کیلئےمضر ثابت ہوسکتاہے۔
مسجدوں،درگاہوں اور مذہب کی سیاست کا کوئی خاص مقصد نہیں ہوتا،اس کی ضرورت ہمارے اپنے اندر ہوتی ہے جبکہ بھارت جیسے جمہوری ملک میں مسلمانوں کیلئے سماجی، اقتصادی اور تعلیمی مسائل کو لیکر آوازاٹھانے کی ضرورت ہے۔ہم یہ سوچیں کہ آج دشمن کا مقابلہ کرنے کیلئے کونسی طاقت رکھتے ہیں؟نہ عدلیہ میں ہمارے پُر وقار اور باصلاحیت نمائندے ہیں نہ پولیس و انتظامیہ امورمیں مسلمانوں کی قیادت مضبوط ہے۔نہ سیاست میں مسلم قائدین مضبوط ہیں نہ ہی جسمانی طو رپر ہمارے نوجوان طاقتور مانے جاتے ہیں۔قوم کے آدھے نوجوان موبائل گیم میں گُم ہوچکےہیں تو ایک حصہ کرکٹ کے نشے میں چُور ہے تو اور ایک حصہ گانجہ اور افیم کے چکرمیں پڑاہواہے تو ایک حصہ عاشقی کے چکرمیں پڑاہواہے۔
اس بکھری ہوئی قوم کو راہِ راست پر لانا اس وقت مشکل ہوتاجارہاہے۔یہی وجہ ہےکہ مسلمان بکھرے ہوئے تاروں کی طرح ہوتے جارہے ہیں اور ہر طرف سے مارکھارہے ہیں۔اگر اب بھی مسلمان ہوش میں نہیں آتے ہیں اور فوری طو رپر مقامی سطح پر ہی کیوں نہ ہو اگر ہم مضبوط قیادت کو عمل میں نہیں لاتے یاپھر ایسا منصوبہ ترتیب نہیں دیتےجو ہمارے مستقبل کیلئے مفید ثابت ہوتو مسلمانوں کو اس وقت سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑسکتاہے۔مضبوط منصوبہ بندی اور تیاریوں کے بغیرقوم کا تحفظ ناممکن ہے۔