شہید کربلا:۔ حسین ابن علی رضی اللہ عنہما

حق و باطل کا تصادم ابتدائے آفرینش ہی سے جاری و ساری ہے ، جب باطل نے سر اٹھایا تو حق نے اس کی سرکوبی کی اور حق ہمیشہ سر بلند رہا ، حق و باطل کی اس کشمکش میں ہزاروں جانیں قربان ہوئی ، اور ہر ایک معرکہ نے رہتی دنیا تک کے لئے اک اسوہ قائم کیا،
انہی معرکوں میں ایک المناک ، کرب ناک، دل سوز و جگر پارہ معرکہ میدانِ کربلاء میں واقع ہوا ، جس کے سرخیل نواسۂ رسول ، جگر گوشۂ فاطمۃ الزہراء، حیدر کرار کےنور نظر، جنت کے نوجوانوں کے سردار یعنی حضرت حسین رضی اللہ عنہ تھے،
آپ کی زندگی جہاں ظلم کے خلاف جہد مسلسل سے عبارت ہے وہیں موجودہ دور کے حالات میں سرفروشانِ اسلام کےلیے مشعل راہ ہے ،
سطورِ ذیل میں آپ کی حیات طیبہ کے کچھ تراشے پیش خدمت ہے:

سوانحی نقوش!
ولادت:؁ ۴ھ کی بات ہے کہ ریاض نبویﷺ میں خاتون جنت حضرت فاطمہؓ کے لخت جگر، شیرِ خدا حضرت علی ؓ کے نورِ نظر، نواسۂ رسول، سید شباب اہل الجنۃ، ریحانۃ النبی،
حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی ولادت باسعادت ہوئی ۔
مولانا شاہ معین الدین ندویؒ تحریر فرماتے ہیں: ”اس لحاظ سے آپ کی ذاتِ گرامی قریش کا خلاصہ اور بنی ہاشم کا عطر تھی“۔(سیرالصحابہؓ: ۱/۱۳۱)

نام و نسب
آپ کی کنیت ابو عبداللہ ہے
اور شجرۂ طیبہ یہ ہے:
حسين بن على بن أبي طالب بن عبد المطلب بن هاشم أبو عبد الله القرشي الهاشمي ، السبط ، الشہید بکربلا ، (البدایہ والنہایہ : ۱٤٩/٨)
الغرض حضرت حسین ؓ کی ذات مبارکہ کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ یہ وہ شہزادہ ہے جنہیں پہلی غذا کے طور پر آپ ﷺ کا مبارک لعاب دہن نصیب ہوا۔
یہ وہ مبارک نام ہے جسے رسول اللہ ﷺ نے اللہ رب العزت کی جانب سے منتخب کیا اور ان سے پہلے کسی کا نہیں تھا۔ یہ وہ مبارک سوار ہے جنہیں راکب دوشِ رسول ﷺ ہونے کا شرف حاصل ہے۔ یہ وہ ہستی ہے جن کے لیے امام الانبیاء ﷺ کو سجدے طویل کرنا پڑا ۔ صرف یہی نہیں بلکہ ان سب سے بڑھ کر جب رسول مکرم ﷺ نے قیامت تک کے مسلمانوں کو ان کی عظمت کی انتہا دکھانا چاہی تو ارشاد فرما دیا:
حُسَيْنٌ مِنِّي وَأَنَا مِنْ حُسَيْنٍ، أَحَبَّ اللَّهُ مَنْ أَحَبَّ حُسَيْنًا، حُسَيْنٌ سِبْطٌ مِنَ الْأَسْبَاطِ
(سنن الترمذي، ابواب المناقب، برقم 3775)
یعنی حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں، جو حسین سے محبت کرے اللہ اس سے محبت کرے، حسین میری نسلوں میں سے ایک نسل ہے ۔
آپؓ نے منبعِ رشد و ہدایت صلی اللہ علیہ وسلم سے براہ راست صحبت کی سعادت حاصل کی اور مدینۃ العلم حضرت علی ؓ کی زیر تربیت پروان چڑھے جس کے نتیجہ میں زہد و اتقاء، دیانت وامانت، علم و عمل ،صداقت و عدالت، صبر واستقامت ،شجاعت و شهامت، جانبازی و سرفروشی ،استغناء وقناعت، جود و سخا، فقر و عفاف، ایثار و مروت، علم و حمل، انکساری و تواضع، خوش خلقی و خدمت خلق اور اخلاص فی الدین کے ایسے نقوش صفحہ تاریخ پر ثبت کیے کہ ان کی تابانی سے آنکھیں خیرہ ہوجاتی ہیں۔

حلیۂ مبارک
حضرت حسین ؓ شکل و صورت میں آنحضرت ﷺ کے مشابہ تھے ۔
عن علىؓ ، قال : الحسن أشبه برسول الله ما بين الصدر إلى الرأس ، والحسين أشبه برسول الله لا ما كان أسفل من ذلك
(جامع الترمذی،رقم : ٣٧٧٩)

آپ کی مرویات
حضرت حسین ؓ خانوادۂ نبوی کے رکن رکین تھے ، اس لیے آپ کو احادیث کا بہت بڑا حافظ ہونا چاہئے تھا ؛ لیکن صغرِ سنی کے باعث آپ کو ایسے مواقع کم ملے ، اور جو ملے اس میں براہ راست آنحضرت ﷺ سے سنی ہوئی مرویات کی تعداد کل آٹھ ہے۔(سیر الصحابہ: ٤/٢٠٥)

خامس أہل الکساء
حضرت حسین رضی اللہ عنہ ’’خامس أہل الکساء‘‘ ہیں، یعنی ان پانچ مبارک شخصیات میں سے ہیں کہ آیتِ تطہیر اُترنے کے بعد جن کو رسول اللہ ﷺ نے آیتِ تطہیر کے مصداق میں داخل اور شامل فرمایا۔ (اسدالغابہ:١/٤٩٦)

فضائل و اخلاق
علامہ ابن عبدالبرؒ، امام نوویؒ، علامہ ابن اثیرؒ جیسے تمام بڑے بڑے اربابِ سیر اس پر متفق ہیں کہ حضرت حسین ؓ فضل و کمال کے حامل ، بڑے نمازی ، بڑے روزہ دار ، بہت حج کرنے والے، بڑے صدقہ دینے والے ، تمام اعمال حسنہ کو کثرت سے کرنے والے تھے۔
وكان الحسين رضى الله عنه فاضلا كثير الصوم، والصلاة ، والحج ، والصدقة ، وأفعال الخيرجميعها (اسدالغابہ فی معرفۃ الصحابہ:١/٤٩٨)

فقہ و فتاویٰ
قضا و افتاء میں حضرت علیؓ کا پایہ تمام صحابہ میں بڑا تھا، اس موروثی دولت میں حضرت حسین ؓ کو بھی حصہ ملا تھا؛ یہی وجہ ہے کہ ان کے معاصر ان سے استفادہ کیا کرتے تھے، ایک مرتبہ ” ابن زبیر ” کو جو عمر میں ان سے بڑے اور خود بھی صاحب کمال بزرگ تھے، قیدی کی رہائی کے بارے میں استفتاء کی ضرورت ہوئی تو انہوں نے حضرت حسین ” کی طرف رجوع کیا اور ان سے پوچھا، ابو عبد اللہ قیدی کی رہائی کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے؟ اس کی رہائی کا فرض کس پر عائد ہوتا ہے؟ فرمایا : ان لوگوں پر جن کی حمایت میں لڑا ہو۔
( سیر الصحابہ:٤/٢٠٦)
علاوہ ازیں وقار و سکینہ ، انکساری و تواضع، حلم و بردباری، ایثار و حق پرستی آپ کی کتابِ فضائلِ اخلاق کا نہایت جلی عنوان ہے، اس کی مثال کےلیے تنہا واقعۂ کربلا کافی ہے کہ حق کی راہ میں سارا کنبہ تہِ تیغ کرادیا؛ لیکن ظالم حکومت کے مقابلہ میں سپر نہ ڈالی ۔

سنہرے اقوال
آپ کے کلماتِ طیبات اور حکیمانہ مقولے اخلاق و حکمت کا سبق ہیں ؛ چنانچہ فرماتے تھے: سچائی عزت ہے، جھوٹ عجز ہے، رازداری امانت ہے، حق جوار قرابت ہے، امداد دوستی ہے، عمل تجربہ ہے، حسن خلق عبادت ہے، خاموشی زینت ہے، بخل فقر ہے، سخاوت دولت مندی ہے ، اور نرمی عقل مندی ہے۔ (تاریخ الیعقوبی :٤٠٦ ‘٢/٤٠٥)

ازواج و اولاد
آپ نے مختلف اوقات میں متعدد شادیاں کی، آپ کی ازواج میں لیلی ؓ ، حباب ؓ، حرار ؓ اور غزالہ ؓ تھیں، ان سے متعدد اولاد ہوئیں، جن میں علی اکبر ؓ، عبداللہ ؓ اور ایک چھوٹے صاحبزادے واقعہ کربلا میں شہید ہوئے۔ امام زین العابدین ؓ باقی تھے۔ انہیں کی نسل چلی، صاحبزادیوں میں سکینہ ؓ ، فاطمہ ؓ اور زینب ؓ تھیں۔
( سیرالصحابہ : ٤/٢١٠)

واقعۂ کربلا کا وقوع کیوں اور کیسے؟
حضرت امیر معاویہ ؓ نے اپنی حیات ہی میں یزید کی ولی عہدی کی بیعت لے لی تھی؛لیکن اکابر قریش صحابہؓ (حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ،حضرت عبداللہ بن عمر ؓ،حضرت حسین، اور حضرت عبدالرحمن بن ابی بکرؓ)
نے بیعت نہیں کی، جب حضرت معاویہؓ کا انتقال ہوا تو یزید نے زبردستی بیعت لینا چاہی؛ لیکن یہ لوگ انکار کرکے مکہ روانہ ہوئے، پھر ہوا یہ کہ عمائدِ اہل کوفہ و شیعانِ علی کی طرف سے حضرت حسین ؓ کو کوفہ بلا کر بیعتِ خلافت؛ نیز حمایت و نصرت کے ڈیرھ سو خطوط اور وفود روانہ کئے گئے، پھر حضرت حسین ؓ نے احوال کی تفتیش کےلیے حضرت مسلم بن عقیل ؓ کو کوفہ روانہ کیا، جب مسلم بن عقیلؓ کوفہ پہنچے، اور وہاں کے حالات سے اندازہ لگایا کہ لوگ یزید سے نفرت کرتے ہیں اور حضرت حسینؓ کی بیعت کے لیے بے چین ہیں، یہ دیکھ کر حضرت مسلم بن عقیلؓ نے حضرت حسینؓ کے لیے بیعت لینا شروع کر دی، چند دنوں میں صرف کوفہ کے تقریباً ۱۸۰۰۰ افراد نے حضرت حسینؓ کے لیے بیعت کرلی، ان حالات کے پیش نظر آپ نے حضرت حسین ؓ کو اطلاع دی کہ حالات ساز گار ہیں آپ تشریف لائیں؛ لیکن جب ہانی کو گرفتار کیا گیا تو حضرت مسلم بن عقیل ؓ مع کوفیوں کے قصرِ امارت کا محاصرہ کیا؛ لیکن ان بدبختوں نے حضرت مسلم بن عقیل ؓ کو تنہا چھوڑ دیا، جب حضرت مسلم بن عقیل ؓ نے اس دوغلے پن کو دیکھا تو حضرت حسین ؓکو نہ آنے کا پیغام بھیجنے کی طرف متوجہ ہوئے، اور اطلاع روانہ کردی؛ لیکن ابن زیاد نے حضرت مسلم بن عقیل ؓ کو قتل کر دیا، اور اُدھر نواسۂ رسولﷺ کا سفر جاری تھا دوران سفر یہ غم انگیز خبر پہنچی؛ لیکن رفقاء سفر نے قصاص لئے بغیر جانے سے انکار کیا۔ (فوائد نافعہ: ج:ص:۲۳۱)
چنانچہ قافلہ روانہ ہوگیا، اور مقام قادسیہ سے آگے بڑھا تو حربن یزید ایک ہزار کے لشکر ساتھ نمودار ہوا اور وہ اس بات کا پابند تھا کہ حضرت حسین ؓ کو مع ان کے لشکر گرفتار کرکے ابن زیاد کے سامنے پیش کرے، جب حضرت حسین ؓ نے یہ منظر دیکھا تو اس سے کہا کہ تم لوگوں نے میری طرف دعوتی خطوط روانہ کئے تھے، اب دغابازی کیوں کرتے ہوں؟ جب اسے خطوط دکھائے تو حر بن یزید نے دھمکی آمیز جملہ کہا: ”جنگ سے باز رہو! بصورت دیگر قتل کئے جاؤ گے“ یہ سن کر ابن علیؓ نے فرمایا: "سَاَمْضِي وَمَا بِا لْمَوْتِ عَارٌ عَلَى الْفَتَى إِذَا مَا نَوى حَقَّاً وَجَاهَدَ مُسْلِماً “ ۔ (میں روانہ ہوتا ہوں اور نو جوان مرد کے لیے موت کوئی ذلت نہیں ہے، جب کہ اس کی نیت حق ہو اور راہ اسلام میں جہاد کرنے والا ہو) پھر آپ نے دوسرا قاصد روانہ کیا، جس کا نام قیس بن مسھر تھا، ابن زیاد نے اس کو بھی قتل کروادیا جب اس بات کی خبر حضرت حسین ؓ کو ہوئی تو آپ کی آنکھوں سے آنسوں جاری ہوگئے۔ (البدایہ والنہایہ: ج:٤ ص: ٥٧٠)
بالآخر آپ نے رخت سفر باندھ کر ایک طویل مسافت طئے کی، اور ۲ محرم کو بے آب و گیاہ میدان کربلا میں پہنچ گئے، اِدھر ابن زیاد نے عمر بن سعد کو ایک لشکر کا سپہ سالار بناکر میدانِ جنگ کی طرف روانہ کردیا، جب اس کی ملاقات آپ ؓ سے ہوئی تو اس نے آمد کا مقصد پوچھا، تو حضرت حسین ؓ نے ایک پیش کش کی کہ آپ لوگ میری طرف سے ان تین چیزوں میں سے ایک کو اختیار کرلیں: (۱) یا تو میں اسلام کی سرحدوں میں سے کسی سرحد کی طرف جانا چاہتا ہوں مجھے جانے دیا جائے تا کہ وہاں خود اسلام کی حفاظت کرسکوں ۔
۲) یا میں مدینہ منورہ کی طرف چلا جاؤں مجھے واپس جانے دیا جائے۔
۳) مجھے موقع دیا جائے کہ میں یزید سے اس معاملہ میں بالمشافہ بات کرسکوں۔
چنانچہ عمر بن سعد نے اس بات کو قبول کیا اور ابن زیاد کو یہ پیش کش لکھ بھیجی جس کے نتیجہ میں ابن زیاد نے حکم بھیجا کہ میں صرف ایک بات قبول کرتا ہوں کہ حسین بن علی اپنے پورے لشکر کے ساتھ ہماری اطاعت کر لیں ۔
( فوائد نافعہ: ج:۲، ص: ۲۲۳ ملخصا)
جب حضرت حسین ؓ کو اس بات کی خبر ہوئی تو اپنے متبعین کو پرجوش انداز میں خطبہ دیا، تمام رفقاء نے وفاداری کا بھر پور یقین دلایا، رات تمام حضرات نے رب کے حضور آہ و زاری کرتے ہوئے گزار دی، دشمن کے مسلح سوار خیموں کے ارد گرد گھومتے رہے، آخر دس محرم کو نماز فجر کے بعد حضرت حسین ؓ نے اپنے اصحاب کی صفیں قائم کی جن کی کل تعداد بہتر ۷۲ تھی، اس طرح باقاعدہ لڑائی شروع ہوگئی، دونوں طرف ہلاکتیں اور شہادتیں ہوتی رہیں، آخر کار دغابازوں کا لشکر حاوی ہوا، نتیجۃ حضرت حسین ؓ کا خیمہ جلادیا گیا، دشمنوں نے انتہائی سفاکی و بیدردی سے معصوم بچوں کو بھی خون میں نہلانے سے دریغ نہ کیا، اور اس خون ریز معرکہ میں حضرت حسین ؓ کے ۷۲ متبعین شہید اور کوفیوں کے ۸۲ افراد قتل ہوئے۔

آپؓ کی شہادت
کیسا اتفاق ہے ادھر دس محرم کا سورج طلوع ہوا ؛ لیکن کسے پتہ تھا کہ آج تاریخ میں ایک کربناک سانحہ پیش آنے والا تھا ، آج ریاضِ نبوی ﷺ کا گلِ سرسبز مرجھاجانے والا تھا، حضرت علی ؓ کا چمن اجڑنے والا تھا ، اور حضرت فاطمہ ؓ کے گھر کا انمول چراغ بجھنے والا تھا ،
میدانِ کارزار گرم تھا ، آپ ؓ کا خاندان اور آپ ؓ کے معزز رفقاء یکے بعد دیگرے جامِ شہادت نوش کرتے جارہے تھے ، اب میدان میں سناٹا چھایا ہوا تھا ، عزم و استقلال کا گوہرِ نایاب، شجاعت و عزیمت کا نیرۂ تاباں، میدان میں کھڑا تھا، شدتِ پیاس سے نڈھال تھا ، پے در پے زخموں نے نحافت میں اضافہ کیا تھا ؛ لیکن اس کی شجاعت و شہامت کو دیکھ کر سب لرزہ بر اندام تھے، کسی میں آگے بڑھنے کی ہمت نہ تھی، بلآخر ایک بدبخت زرعہ بن شریک نے نواسۂ رسول حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے بائیں کندھے پر تلوار کا وار کیا، کمزوری سے پیچھے کی طرف ہٹے تو سنان بن ابی عمرو بن انس نخعی نے نیزہ مارا جس سے شانہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا سوار زمین پر آلگا، پھر اس نے آگے بڑھ کر آپ کے سر مبارک کو جسم اطہر سے جدا کر دیا،
اور اُدھر جنت اپنے سردار کا راہ تک رہی تھی ، دسویں محرم کا ڈوبتا سورج اپنے ساتھ آفتابِ اہل بیت کے وجود کو دنیا والوں سے اوجھل کر گیا؛ لیکن اس کی کرنیں تا صبح قیامت روشنی بکھیرتی رہیں گی۔ ان شاء اللہ
(ملخص از سیر الصحابہ: ج :۴)

شہادتِ حسین ؓ کا مقصد
حضرت مفتی شفیع عثمانی صاحب نوراللہ مرقدہ کے بقول۔۔۔۔۔۔۔
نواسۂ رسولﷺ ، فاطمہؓ کا لخت جگر، علیؓ کا نورِ نظر ، شباب اہل الجنۃ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی درد ناک مظلومانہ شہادت پر تو زمین و آسمان روئے ، جنات روئے، جنگل کے جانور متاثر ہوئے، انسان اور پھر کون ایسا مسلمان ہوگا جو اس کا درد محسوس نہ کرے یا کسی زمانہ میں بھول جائے؛ لیکن شہیدِ کربلا رضی اللہ عنہ کی روح مقدس درد و غم کا رسمی مظاہرہ کرنے والوں کے بجائے ان لوگوں کو ڈھونڈتی ہے جو اُن کے درد کے شریک اور مقصد کے ساتھی ہوں ، اُن کی خاموش مگر زندۂ جاوید زبان مبارک مسلمانوں کو ہمیشہ اس مقصد عظیم کی دعوت دیتی رہتی ہے جس کے لیے حضرت حسین نے بے چین ہو کر مدینہ سے مکہ اور پھر مکہ سے کوفہ جانے کے لیے مجبور تھے ، اور جس کے لیے اپنے سامنے اپنی اولاد اور اپنے اہل بیت کو قربان کر کے خود قربان ہو گئے۔
(اسوۂ حسینی: ص،6)
اب سوال یہ ہے کہ یہ شہادت کا واقعہ کیوں کر پیش آیا ؟ کیا ان کی یہ شہادت اپنے مفاد کے تئیں تھی؟ کیا انہوں نے اپنے لیے منصبِ خلافت چاہا تھا؟ کیا انہوں نے امام عادل اورخلیفۂ صالح کے خلاف بغاوت کی تھی؟نہیں ہرگز نہیں! تاریخ گواہ ہے کہ نہ تو اس جنگ میں ان کے اپنے ذاتی اغراض و مفادات وابستہ تھے، نہ ہی انہیں خلافت و امارت یا حکومت کی لالچ تھی اور نہ ہی انہوں نے کسی امام عادل اور خلیفۂ صالح کے خلاف اعلانِ بغاوت کی تھی،
آپ واقعۂ شہادت کو اول سے آخر تک دیکھئے ،حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے خطوط و خطبات کو غور سے پڑھیں تو سمجھ آئے گا کہ درجِ ذیل اسباب تھے جن کی وجہ سے یہ واقعۂ پیش آیا :
(۱)کتاب وسنت کے قانون کوصحیح طور پر رواج دینا۔
(۲) اسلام کے نظامِ عدل کو از سر نو قائم کرنا۔
(۳) اسلام میں خلافتِ نبوت کے بجائے ملوکیت و آمریت کی بدعت کے مقابلہ میں مسلسل جہاد۔‌
(۴) حق کے مقابلہ میں زور زر کی نمائشوں سے مرعوب نہ ہونا،
(۵) حق کے لیے اپنا جان و مال اور اولاد سب کچھ قربان کر دیا۔
(۶) خوف و ہراس اور مصیبت و مشقت میں نہ گھبرانا، اور ہر وقت اللہ تعالی کو یاد رکھنا اور اسی پر توکل اور ہرحال میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا۔
مختصر یہ کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت ایک نوشتۂ تقدیر تھا جو اپنے وقت پر پورا ہوا ۔

پیغام
یہ بالکل چشم کشا حقیقت ہے کہ واقعۂ شہادت نے قیامت تک کے لیے یہ پیغام دیا ہے کہ حق کی حمایت اور باطل کی مخالفت ہمیشہ ہر جگہ ہر حال میں کی جائے گی ؛ خواہ اس کے لیے اپنی جان ہی کیوں نہ گنوانی پڑے ؛ نیز یہ کہ حسینی سر کٹا تو سکتا ہے؛ لیکن باطل قوتوں کے آگے اپنا سر نہیں جھکا سکتا۔
موجودہ حالات میں باطل کی تیز و تند آندھی اپنے پورے لاؤ لشکر کے ساتھ حق کو مٹانا چاہتی ہے؛ مگر ہمیں یاد رکھنا ہے کہ "یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لئے” آج ضرورت اس بات کی ہے کہ اسوۂ حسینی کو اپنے اندر زندہ کریں، شریعت و سنت پر مکمل عمل پیرا ہونے کی فکر کریں ، اور اس کی ترویج و اشاعت کی کوشش کریں ،جگر گوشۂ رسول اللہ ﷺ ، مظلومِ کربلا ، شہید جور جفا کی زندگی کو پڑھ کر یہ عزم کریں کہ ہم ان کے مشن کو ان کے نقش قدم پر انجام دینے کے لیے تیار ہیں، ان کے اخلاقِ فاضلہ اور اعمالِ حسنہ کی پیروی کو اپنی زندگی کا ہدف بنائے ۔
یا اللہ ہم سب کو اپنی اور اپنے رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہ کرامؓ اور آپ اور اہل بیت اطہار کی محبت کاملہ اور اتباع تامہ نصیب فرما، آمین بجاہ سید المرسلین ﷺ

ازقلم: محمد زبیر احمد لاتوریؔ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے