تحفہ خاص

از قلم: رفیقہ پلّو کر
علی باغ، رائے گڑھ یو۔پی۔

ہم علی باغ شفٹ ہوئے ابھی تھوڑا ہی عرصہ گزرا تھا کہ میں کسی كام سےاپنے پڑوس میں تشریف لےکر گئ۔ میں نے جھجھکتے ہوئے دروازے پر دستک دی۔
دروازہ ایک چالیس سے پیتالس سالہ نازک سی خاتون نےکھولا۔میں نے اپنا تعارف پیش کیا اور کہا کہ ہم آپ کے نئے پڑوسی ہیں۔وہ استقبالیہ انداز میں مسکرائیں اور مجھے گھر میں آنے کے لئے راستہ دِیا۔خاتونِ خانہ نے مجھے اپنا نام سیما بتایا۔

ہم نے ہال میں بیٹھ کر رسمی سی باتیں کیں۔ پتا چلا کہ اُن کی دو بیٹیاں ہیں خدیجہ و آمنہ۔ انہوں نے میری خاطر تواضع کیں پھر سیما نے مجھے بڑے شوق سے اپنا گھر دکھایا۔ما شاء اللہ گھر چھوٹا سا مگر بہت خوبصورت تھا۔گھر کا کونہ کونہ مکینوں کے اعلیٰ ذوق کی ترجمانی کر رہا تھا۔
سیما نے مجھےاپنا کچن بہت ہی شوق سے دکھایا۔ اس وقت ان کےچہرے پر خوشی قابلِ دید تھی۔دفعتاً میری نظر کچن کیبنیٹ پر چپکاۓ ہوئے ایک رنگین کاغذ پر پڑی۔میں نے ذرا آگے بڑھ کر دیکھا کہ کیا لکھا ہوا ہے اور کُچھ استفسار کئے بنا ہی شُکریہ کہے کر واپس چلی آئی۔
ابھی کچھ روز ہی گذرے تھے کہ ہمارے یہاں ایک ماہر ستار کی آمد ہوئی۔اسے ہم نے اپنے کچن میں cabinets بنانے کا کام دینا تھا۔مجھے یاد آیا کہ مجھے اُس خاتونِ خانہ کا کچن بڑا اچّھا لگا تھا جہاں سے میں تھوڑے ہی دنوں قبل جا کر آئی تھی۔
ستار کو ایک آئیڈیا مل جائے کہ در حقیقت میں کیسا کچن چاہتی ہوں یہ سوچ کر میں پھر اسی گھرمیں چلی گئی تا کہ کُچھ تصاویر لے سکوں۔ سیما نے بہ خوشی مجھے اپنی کچن کی تصاویر لینےکی اجازت دیں۔اب میں دوسری بار اُن کے کچن میں موجود تھی۔
دوبارہ میری نظر وہاں لٹکے ہوئے ایک الگ رنگ کے کاغذ پر پڑی۔ میں نے ذرا اور قریب ہو کر دیکھا کہ کیا تحریر کیا گیا ہے؟ اُس کاغذ پر ایک پکوان کا نام ،اُسکے لئے لگنے والی ضروری اشیاء اور بنانے کی ترکیب رقم تھی۔
ہر ماں اپنی بیٹیوں کو کھانا بنانا سکھاتی ہی ہے۔اگر اس بارے میں کوئی بات کہی جائے تو ہمارے لئےنیا نہیں ہے اور نا ہی اس میں چونکنے جیسی کوئی بات ہے۔لیکن میں نے وہاں جو دیکھا اور اس کے بارے میں جانا وہ میرے لئے نا صرف حیران کن اور نیا تھا بلکہ خوشگوار بھی تھا!
سیما کی بیٹی خدیجہ گریجویشن کر رہی ہے۔ ہر سنیچر کو اُس کے ابّو یوٹیوب سے کسی ایک پکوان کی ترکیب و لگنے والی ضروری اشیاء پیپر پر لکھ کر کچن میں چپکا دیتے ہیں۔۔۔۔شام میں آفس سے آتے وقت ضروری اشیاء لا کر وہاں رکھتے ہیں اور اتوار کو اُن کی بیٹی خدیجہ دوپہر کے کھانے کے لئے وہ پکوان پہلے یوٹیوب پر دیکھتی ہے پھر تیار کیا کرتی ہے۔ باپ بیٹی انٹرنیٹ کا ایک بہترین استعمال کرتے ہیں۔
کبھی کبھی خدیجہ خود ہی کوئی پکوان چن لیتی ہے۔ضروری اشیاء اور ترکیب لکھ کر اسی جگہ چپکا دیتی ہے اور اُسکے ابّو بھُولے بغیر موبائل فون میں اس پیج کی تصویر لے کر جاتے ہیں اور ضروری اشیاء لا کر وہاں رکھتے ہیں۔
اگر ڈش اچّھی بنی تو وہ پیپر فریج پر رکھی ہوئی فائل میں لگا دیا جاتا ہے ورنہ دسٹ بن میں ڈال دِیا جاتا ہے۔
ایسا کرتے کرتے فائل میں کئ پکوانوں کی تراکیب ترتیب وار جمع ہو چکی ہیں۔
یہ ایک باپ نے اپنی بیٹی کو کھانا بنانے میں طاق کرنے کا طریقہ اپنایا ہوا تھا جس نے مجھے ورطہ ءحیرت میں ڈال دیا۔ اس طرح کا عملی نمونہ دیکھ کر مجھے بہت خوشی ہوئی اور ایک نئی سیکھ کے ساتھ میں اپنے گھر لوٹ آئی کہ یہ تحفہءخاص مجھے اپنی بیٹیوں کو بھی دینا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے