معاملے کی جلداز جلد سماعت کرنے کے لیے اقدامات کیئے جانے کا حکم دیا
ممبئی15/ دسمبر
ممنوع دہشت گرد تنظیم القاعدہ سے تعلق رکھنے کے مبینہ الزامات کے تحت گرفتار دارالعلوم دیوبند کے فارغ مولانا عبدالرحمن (کٹکی) کی ضمانت پر رہائی کی عرضداشت پر گذشتہ کل سپریم کورٹ آف انڈیا میں سماعت عمل میں آئی جس کے دوران سپریم کورٹ آف انڈیا نے دہلی ہائی کورٹ کو حکم دیا کہ وہ مقدمہ کی جلد از جلد سماعت اوراختتام کے لیئے خصوصی این آئی اے عدالت میں زیر سماعت مقدمات مختلف عدالتوں میں تقسیم کیئے جانے کے تعلق سے غور کریں اور اس ضمن میں سپری کورٹ آف انڈیا میں رپورٹ پیش کرے۔ا س سے قبل عدالت نے خصوصی این آئی اے عدالت سے رپورٹ طلب کی تھی جو مولانا عبدالرحمن کے مقدمہ کی سماعت کررہی ہے، خصوصی این آئی اے عدالت کی جانب سے موصول شدہ رپورٹ کے مطابق 649 مقدمات زیر سماعت ہیں اور ملزم عبدالرحمن کا مقدمہ ختم کرنے کے لیئے انہیں ایک سے دیڑھ سال کا عرصہ درکار ہے، خصوصی این آئی اے عدالت کی رپورٹ کے مطابق اگر ہفتہ میں ایک بار بھی سماعت کی گئی تواس مقدمہ کو ختم کرنے میں وقت لگے گا۔
اسی درمیان جمعیۃ علماء مہاراشٹر (ارشد مدنی) قانونی امداد کمیٹی کی جانب سے پیش ہوتے ہوئے سینئر ایڈوکیٹ تردیپ پائس نے جسٹس سنجے کشن کول اور جسٹس ایم ایم سندریش کو بتایا کہ مقدمہ کی تیز سماعت (اسپیڈی ٹڑائل)ملزم کا آئینی حق ہے اور مقدمہ کی سماعت میں ہونے والی تاخیر سے اس کے حقوق سلب ہورہے ہیں لہذا ملزم کو ضمانت پر رہا کیا جائے۔
سینئر ایڈوکیٹ تردیپ پائس نے عدالت کومزید بتایا کہ مقدمہ میں ہورہی تاخیر کے لیئے نہ تو ملزم ذمہ دار ہے اور نہ ہی دفاعی وکلاء کیونکہ دفاعی وکلاء نے ملزم کی عدم موجودگی میں بھی ٹرائل چلانے کی خصوصی این آئی اے عدالت سے گذارش کی تھی اس کے باوجود مقدمہ التواء کا شکار ہے۔
سینئر ایڈوکیٹ تردیپ پائس اور ایڈوکیٹ صارم نوید نے دو رکنی بینچ کو مزید بتایا کہ ملزم پانچ سال اور آٹھ مہینہ سے جیل میں قید ہے اور اس درمیان استغاثہ نے 82 میں سے صرف 14 گواہوں کو ہی عدالت میں پیش کیا۔
دفاعی وکلاء کے دلائل کی سماعت کے بعد سپری کورٹ نے دہلی ہائی کورٹ کو حکم دیا کہ وہ مقدمہ کی جلداز جلد سماعت کیئے جانے کے تعلق سے اقدامات کرے، عدالت نے اس معاملے کی اگلی سماعت 8مارچ 2022 کو کیئے جانے کا حکم دیا۔
واضح رہے کہ ملزم عبدالرحمن کو قومی تفتیشی ایجنسی نے اڑیسہ کے مشہور شہر کٹک کے قریب واقع ایک چھوٹے سے گاؤں سے گرفتار کیا تھا اور اسے بذریعہ طیارہ دہلی لایا گیا تھا۔ ملزم پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ ہ وہ ہندوستان میں القاعدہ کے لیئے لڑکوں کو باہر دہشت گردانہ ٹریننگ حاصل کرنے کے لیئے بھیجنے کا کام کر رہا تھا۔
اسی معاملے میں دہلی پولس کے اسپیشل سیل نے بنگلور کے مشہور عالم دین مولانا انظر شاہ قاسمی کو بھی گرفتا ر کیا تھا لیکن بعد میں خصوصی عدالت نے نا کافی ثبوت و شواہد کی بنیاد پر مقدمہ سے ڈسچارج کردیا گیا، ایڈوکیٹ ایم ایس خان نے جمعیۃ علماء کی جانب سے ڈسچارج عرضداشت پر بحث کی تھی جس کے بعد دہلی کی خصوصی عدالت نے مولانا انظر شاہ کو مقدمہ سے ڈسچارج کرتے ہوئے دیگر ملزمین کے خلاف مقدمہ شروع کیئے جانے کا حکم دیا تھا۔ جمعیۃ علماء مہاراشٹرا