تحریر: سمیع اللہ خان
اگر ہم فاشسٹ استعمار کے خلاف جمہوریت کی سیاست میں پارلیمانی اپوزیشن سے ٹکرا کر سیاست کرنے کے خلاف ہیں تو ضروری ہے کہ اپوزیشن کا وجود بھی ثابت ہو،
موجودہ بھارت کا یہ بڑا بحران ہےکہ اپوزیشن ایک مذاق بن کر رہ گیا ہے
اترپردیش الیکشن کو لے کر اگر اویسی کی پالیسیوں سے ہمیں ووٹوں کا بٹوارہ نظر آتا ہے تو پھر چندر شیکھر آزاد اور مایاوتی کے درمیان تقسیم ہونے جارہے دلت ووٹوں پر بات کیوں نہیں ہورہی؟
اکھلیش یادو اور پرینکا گاندھی کے درمیان بٹ رہے ہندو ووٹوں پر بات کیوں نہیں ہورہی؟
ایسے سخت نازک موڑ پر جبکہ 2024 میں بھاجپا کو اقتدار سے دور رکھنے کے لیے آج اترپردیش میں ہرانا ضروری ہے تب کیا ان لوگوں کو آپس میں متحد نہیں ہونا چاہیے؟ یہ اتنی ہنگامی سیکولر ضرورت کو سمجھ نہ پانے والے کیسے سیکولر ہیں؟
چلیے ایک منٹ کے لیے مان لیتے ہیں کہ یہ سب پارٹیاں اتحاد نہیں کرسکتی ہیں تو کیا یہ کم از کم چند سیٹوں پر بھی ایک اسٹریٹجی بنا کر الیکشن لڑ نہیں سکتے
جیسے گورکھپور سے نفرت اور غنڈہ گردی کے مہان پجاری یوگی آدتیہ ناتھ لڑ رہےہیں، تو کیا سپا، بسپا، آر ایل ڈی، کانگریس، آزاد سماج، یہ سب مل کر گورکھپور سے ایک اکیلا امیدوار کھڑا نہیں کرسکتے اس طرح راست یوگی کو الیکشن میں بھی تو ہرائے جانے کا امکان ہے، ایسی ہی اسٹریٹیجی ان دو تین سیٹوں پر مزید قائم کرلی جائے جہاں سے ملک بھر میں ہندوتوائی نفرت کی کاشت کی جاتی ہے جیسے ایودھیا متھرا اور غازی آباد
چار سو سے زائد سیٹوں پر ہونے جارہے اترپردیش الیکشن میں اگر یہ نام نہاد سیکولر پارٹیاں صرف چار سیٹوں پر بھی اتحاد نہیں کر پا رہی ہیں تو پھر صرف اویسی کا رونا کیوں رویا جائے،
اگر نام نہاد سیکولر پارٹیوں کو کمیونلزم کےنام پر اویسی سے دقت ہے تو پھر پیس پارٹی اور علماء کاؤنسل کو اتحادی کیوں نہیں بنایا؟ جبکہ یہی پارٹیاں ہندوتوا کی طرف سے نفرت پھیلا چکے زہریلے سیاستدانوں کو بھی ساتھ لے رہی ہیں، مسلمانوں کو سیکنڈ کلاس بنا کر ساتھ لینے والی یہ پالیسی ہماری عزت نفس کے بھی خلاف ہے
اترپردیش میں مسئلہ صرف مسلم ووٹوں کے بٹوارے کا نہیں رہا ہے اس سے زیادہ دلت۔ہندو ووٹوں کے بکھراؤ کا ہے اور اس دفعہ کانگریس نے اترپردیش میں جس طرز سیاست کی طرح ڈالی ہے اس کےبعد سے اترپردیش کی خواتین کے ووٹوں میں بھی زبردست لہر ہے اچھی خاصی ” مہیلاؤں ” میں پرینکا چچی نے لڑکی ہونے کی انگڑائی پھونک دی ہے۔
اترپردیش الیکشن کے علاوہ گوا میں ہونے جارہے انتخابات کا مزید برا حال ہے
گوا میں اس وقت بھاجپا کی سرکار ہے اور یہ ریاست آر۔ایس۔ایس کی ہندوتوا مشنری کے لیے کتنی اہم ہے یہ بھی معلوم ہے، یہاں پر غالب لڑائی بھاجپا بنام کانگریس میں ہے، گرچہ بھاجپا نے ایجنسیوں کا ڈر دکھا کر اور لالچ کے ذریعے یہاں کانگریس کے ایم ایل ایز کو خریدا ہے لیکن یہاں پھر بھی بھاجپا کا غالب مقابلہ کانگریس سے ہی ہونے جارہاہے لیکن اب گوا میں کانگریس اور بھاجپا کی لڑائی کے درمیان ترنمول اور عام آدمی پارٹی بھی کود چکی ہیں عام آدمی پارٹی نے تو گوا کے لیے اپنے وزیراعلیٰ کا بھی اعلان کردیا ہے، گوا میں بالکل واضح طورپر ممتا بنرجی کی ترنمول اور اروند کیجریوال کی عام آدمی، جو کھیل، کھیل رہی ہیں وہ کیا بھاجپا کے لیے کمک نہیں ہے؟ کیا یہ ریاست فاشسٹ کی جھولی میں پڑے رہنا سیکولرزم ہے؟ لیکن چونکہ گوا میں اویسی نہیں ہے لہذا ممتا یا کیجریوال پر بی جے پی کی بی ٹیم کا ٹھپہ بھی نہیں ہے،
پورے ملک میں ڈیموکریٹک سیاست کی یہی حالت ہے، ہندوتوا کے جِن سے لڑنے کے لیے جس پارلیمانی اپوزیشن سے امیدیں ہیں وہ حماقتوں کا خیمہ بنا ہوا ہے، اپوزیشن نے اتنے سالوں میں آر ایس ایس کی نفرت کےخلاف ایک بھی سنجیدہ حکمت عملی پر کام تک نہیں کیا، اکھلیش سے لے کر کیجریوال تک سبھی خود کو بڑا والا ہندو ثابت کرنے کی ہوڑ میں دوڑے چلے جارہے ہیں، اترپردیش میں سیکولروں کی ٹکٹ تقسیم کا حال یہ ہےکہ مظفرنگر جیسے خطوں سے مسلم نمائندگی کو صفر کیا جارہاہے جگہ جگہ سے متصلب مسلمانوں کے ٹکٹ کاٹے جارہے یا تو انہیں ہی کاٹ دیا جارہا شرم کی بات تو یہ ہے کہ مسلم شناخت والے نیتاؤں کو ساتھ لے کر چلنے سے بھی سیکولر برادری کترا رہی ہے، کانگریس اور سپا تو اس معاملے میں ایک نظر آرہے ہیں کہ ذمہ دار، ذی وقار یا خود اعتماد مسلمانوں کی جگہ احساس کمتری کے شکار، چاپلوسی، غلامی اور کاسہ لیسی میں جو نمایاں ہوں ایسے مسلمانوں کو اپنے پیچھے چلایا اور ان کی کمیونٹی کا رہبر بنایا جائے، سیکولروں کی طرف سے مسلم امیدواری کی ایسی شرمناک صورتحال میں اگر وہ اپنے اپنے مورچوں سے دعویداری کرنے پر مجبور ہیں تو اس میں اویسی کو ہی کوسنا کہاں کا انصاف ہے؟
اترپردیش کے سیاسی دنگل میں مسلمانوں کے حوالے سے جو گھٹیا حالات نام نہاد سیکولر پارٹيوں کے ہیں ان کو سمجھنے کےبعد دل اس پر راضی نہیں ہوتاہے کہ ان سب کو نظرانداز کر صرف سکے کے ایک ہی رخ پر بات کی جائے یہ تو بڑی بےعزتی کی بات ہوگی
اویسی اگر اقلیتی کمیونٹی کے ووٹ کاٹ رہے ہیں تو پھر اکثریتی کمیونٹی کے ووٹوں کے سوداگروں کی بھاجپائی وابستگی اور سنگھی وفاداریوں پر بات کون کرےگا؟ مسلم ایشوز پر جو سیکولر ہندوتوا کے گماشتے بات تک نہیں کرنا چاہتے ان کے پاس مسلمان کیوں جائے؟ ملک میں فساد آر ایس ایس اور بھاجپا نے پھیلایا ہے تو پارلیمانی اپوزیشن میں فسطائی تخریب کے لیے اپوزیشن کے نمائندگان خود ذمہ دار ہیں، ان کی جوابدہی کے بغیر محض مجلس اور اویسی کو لعن طعن کرنا یہ بڑی کم زور ڈیموکریسی ہے، ہندوتوا کے رتھ پر جو سوار تھے انہیں ساتھ لےکر ہندوتوا سے لڑنے کے خواب شیش محل سے زیادہ کم زور نظر آرہے ہیں، چکنا چور ہوجائیں گے، کہ یہ سیکولر بازو ہندوستان کے آزمائے ہوئے ہیں ۔
حقائق کے ہر پہلو کو سامنے آنا چاہیے اور سب کا حساب برسرعام ہونا چاہیے، اویسی پر اگر الزام ہے بےوفائی کا تو وفادار تم بھی نہیں، خداوندانِ سیکولر ازم، مشرکانہ ہندو احیاء پرستی کے زعم میں مست مئے پندار ہیں تو ہم کاسہء گدائی لیے ان کے در پر کیوں جائیں؟ مضحکہ خیز تو یہ ہےکہ آج سیکولر ہونے کا عملی معنی ہندو ہونا اور مسلمان کا نام نہیں لینا ہوچکاہے، تو ہم مسلمان ہی کوئی اکیلے پریشان حال تو نہیں ہیں یہاں، ای ڈی کے چھاپوں اور انکم ٹیکس کے حسابات سے تمہیں بھی بچنا ہے، جو اپنی زبان سے لفظ مسلم ادا کرنے میں بھی عار محسوس کررہے ہوں ان کے ردعمل میں پیدا ہونے والی لہر کو اویسی واد نہیں زندہ جذبات کی حمیت کہتےہیں، پھر اس حمیت کو قیادت دینے کے لیے سیاست کے مارکیٹ میں جو بھی لیڈر ہو ، آپ ہیں تو آپ قیادت کریں اویسی ہوں گے تو اویسی کریں گے، فطرت کے بھی اپنے کچھ اصول ہیں وہ کبھی تخریب کے پردوں سے بھی تعمیر کے ساماں کرتی ہے_
محترم سیکولر ہندوﺅں:
ہم وفادار نہیں
تو بھی تو، دلدار نہیں __
ہارنے والے ہاریں، جیتنے والے جیتیں، اتنی جلدی اب کچھ بھی نہیں بدلے گا، لہذا موجودہ بھارت میں سکون کے لیے راوی پہاڑی وادیوں میں چین ہی چین تجویز کرتاہے، پھر ملاقات ہوگی… اپنا خیال رکھیں الیکشن کی گرمیوں سے بچتے رہیں، اس گرمی میں نزلہ ہے، زکام ہے، بخار ہے اور آج کل الیکشن کے سیزن کے حساب سے اومیکرون کا آفر بھی ہے۔