مسلم ضرورت مندوں تک بھیک کے پیسے بھی نہیں پہنچ پاتے ؟

کچھ مہینے پہلے کی بات ہے کہ میں ممبئی کے مضافات میں واقع میرا روڈ میں اسٹیشن کے نزدیک جمعیت علماء ہند ارشد مدنی کے علاقائی آفس میں بیٹھا ہوا تھا کہ اچانک داڑھی ٹوپی میں ملبوس ایک شخص جن سے ایک دو ملاقات پہلے سے میری بھی تھی سامنے بیٹھے ایک بھکاری جو لنگی پہنے ہوئے تھا اور سر پر ٹوپی تھی اس پر چِلّا رہے تھے ۔کچھ لوگ اور جمع ہو گئے اور میں بھی جمعیت کی آفس سے باہر نکل کر  پوچھنے لگا کہ ماجرہ کیا ہے اور وہ داڑھی ٹوپی والے جنہیں ہم حکیم صاحب کے نام سے جانتے تھے اُن سے پوچھا کیا ہوا۔اُنکی مجھ پر نظر پڑی تو اور لوگوں کو چھوڑ کر میرے پاس آ گئے اور کہنے لگے کہ مشرف بھائی یہ شخص غیر مسلم ہے لیکن لنگی اور ٹوپی پہن کر بھیک مانگتا ہے اور ساتھ میں غلط قرآن بد بداتا ہے۔تو میں نے کہا کہ اس میں آپکو مسئلہ کیا لگا۔تو حکیم صاحب نے کہا کہ مسئلہ کچھ نہیں ہے یہ اپنی شناخت کے ساتھ بھیک مانگے  کوئی مسئلہ نہیں ہے ۔غلط پہناوا اور اپنی شناخت پوشیدہ رکھ کر غلط قرآن بد بدا کر بھیک کیوں مانگ رہا ہے ؟ میں نے کہا کہ بھیک چاہے ووٹ کا ہو یا پیسے کا اسکی بنیاد جھوٹ اور غلط ہی ہوتی ہے ۔آپ انسان سمجھ کر اُسے بھیک دینا ہو تو دے دیا کریں نہیں تو آگے نکل جایا کریں۔میں نے کہا آپ اُسے لنگی اور ٹوپی پہننے سے منع نہیں کر سکتے ہیں ۔یہ واقعہ اترپردیش میں کانور یاترا نکلنے سے پہلے کی ہے ۔پیلی بھیت میں اُسی کانور یاترا کے درمیان اُتر پردیش سرکار نے ہوٹلوں اور ٹھیلوں پر مالکوں کے نام لکھنے کا فرمان جاری کیا تھا ۔اس واقعہ کے بعد سوشل میڈیا میں خاص کر بی جے پی کے آئی ٹی سیل نے دکانوں پر نام لکھنے کو بنیاد بنا کر مسلمانوں کے خلاف محاذ کھول رکھا ہے ۔مسلم دکانداروں کے بائیکاٹ کی بات کھلے عام کی جا رہی ہیں ۔

حکیم صاحب کے اُس دن کی بات کے بعد کئی لوگوں نے کہا کہ نیا نگر جو میرا روڈ کا مسلم اکثریتی علاقہ ہے یہاں زیادہ تر برقعے میں عورتیں اور ٹوپی اور کرتا پہنے بھیک مانگنے والے مرد غیر مسلم ہیں۔میں نے اُن لوگوں کی بات کو زیادہ توجہ نہیں دی تھی ۔لیکِن کئی لوگوں نے جب یہ بات کہی تو مجھے لگا کہ بطور صحافی حقیقت کا تو پتہ لگانا چاہئے ۔

نیا نگر کی شمس مسجد جسے بڑی مسجد بھی کہتے ہیں اس کے سامنے 2015 تک میرے اخبار کی آفس ہوا کرتی تھی اور اس سوسائٹی کمپاؤنڈ کے باہر ایک اپاہج کرسی پر بیٹھ کر سالہا سال سے بھیک مانگتا آ رہا ہے ۔اب کبھی کبھی دوسری جگہ بھی دیکھتا ہوں ۔ایک دن وہ نظر آیا ۔میں نے اس بنگالی بھکاری کو سو روپیے دیئے اور کھڑے ہو کر اس سےبات کرنے لگا ۔چونکہ وہ کافی پرانا ہے تو اسے میرا روڈ میں بھیک مانگنے والوں کی زیادہ تر باتیں معلوم ہے۔وہ ایک بنگالی مسلم ہے ۔بھیک مانگنے کے دوران بھی نماز کا وقت ہوتا تھا تو سوسائٹی کے اندر غیر مسلم سیکیورٹی گارڈ کے رہنے کی جگہ پر جا کر وضو کرتا اور اُسی کے چوکی پر نماز پڑھتے کئی بار میں دیکھ چکا تھا ۔میں نے پوچھا کہ آج کل کام کیسا چل رہا ہے تو اس نے کہا اب پہلے جیسا نہیں ہے ۔پہلے عام دنوں میں پینتیس سے چالیس ہزار  بھیک سے وہ کما لیتا تھا جبکہ رمضان میں ایک لاکھ سے اوپر اُسکی کمائی ہو جاتی تھی ۔یہ بات تب پتہ چلا تھا جب سوسائٹی کے ایک شخص کے پاس اس نے ایک لاکھ روپئے جمع کر رکھا تھا اور وہ  دے نہیں رہا تھا تو وہ میرے پاس اُسکی شکایت لے کر آیا تھا ۔اس وقت اس سے میں نے چونک کر پوچھا تھا کہ تمہارے پاس اتنا پیسہ آیا کہاں سے تو اس نے بتایا کہ میں عام دنوں میں اتنا کما لیتا ہُوں اور رمضان میں اتنا ہو جاتا ہے ۔

بنگالی بھکاری سے پوچھا کہ آج کل کیوں نہیں مہینے کا چالیس ہزار کما پا رہے ہو تو اس نے مایوسی سے کہا کہ اب نیا نگر کے زیادہ تر بھیک کے اسپاٹ پر غیر مسلموں کا قبضہ ہو گیا ہے ۔میں نے کہا غیر مسلم اُسنے ہاں میں سر ہلایا۔میں نے کہا کہ نقاب ،ٹوپی اور پائجامہ کہا سب ڈھونگ ہے ۔

مجھے تو یہ سمجھ پہلے سے تھی کہ صرف نیا نگر میں ہر ایک مہینہ لاکھوں کی بھیک نکلتی ہے اور یہاں بھیک مانگنے والوں کے کئی گروہ کام کرتے ہیں ۔لیکن یہ نہیں معلوم تھا کہ نقاب میں غیر مسلم عورتوں کو بھیک مانگنے بیٹھایا جاتا ہے ۔

نیا نگر میں بھیک مانگنے والوں کی تعداد سب سے زیادہ اسمیتا ہیریٹیج کے کارنر پر ہوتی ہے۔کئی بار نقاب پوش عورتوں کو دیدی کہتے سنا ہے لیکِن کل ہیریٹیج میں ایک دکان کے بزرگ مالک نے آہستہ سے مجھ سے کہا کہ یہ بھیک مانگنے والی عورتیں ایک بھی مسلم نہیں ہے ۔یہاں آکر عورتوں کو نقاب پہنایا جاتا ہے اور جو نقاب نہیں پہنتی ہیں اُنکے منہ ڈھکے جاتے ہیں ۔وہ بزرگ دکان والے نے کہا کہ ایک ایک بھیک مانگنے والا ہو یا والی ہو ایک ٹھیلے والے سے زیادہ کمائی کرتے ہیں جبکہ ضرورت مند مسلمان مرد ہو یا عورت در در کی ٹھوکریں کھاتے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ بھیک کا بھی ایک نظام ہو بلکہ کسی ایسی تنظیم کو یہ کام اپنے ہاتھ میں لینا چاہیے جو ضرورت مندوں تک بھیک کے پیسے کو پہنچا سکے۔یہ حال صرف میرا روڈ کا نہیں ہے بلکہ ممبئی اور مضافات بڑے ہی منظم ڈھنگ سے کئی غیر مسلم گروہ بھیک کی رقم جمع کر رہے ہیں ۔

تحریر: مشرف شمسی ، میرا روڈ ،ممبئی

موبائیل 9322674787

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے