ہندوستان نفرتوں کی دہلیز پر قسط دوم

تحریر: محمد محبوب تنویری
جب سے بی،جے،پی حکومت آئی ہے،بھگوا تنظیموں نے مسلمانوں پر پے در پے ہر طرح کے حملے شروع کر دیے ہیں،اور اپنے ظلم و بربریت کی۔ ایک طویل داستان رقم کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔۔۔
              حالات تو یقین ناگفتہ بہ ہیں، لیکن مسلمانوں کو مایوس نہیں ہونا چاہیے اپنے اندر ایمانی قوت اور جذبہ کو بیدار رکھیں،اسلامی تاریخ کا مطالعہ ضرور فرمایں ، ہمارے آقا علیہ السلام اور صحابہ کرام اور تمام بزرگان دین پر کتنے مظالم ہوئے،لیکِن وہ ثابت قدم رہے،تو اللہ کی مدد آئی۔ہم مسلمان ہیں تو آزمائشوں سے گزرنا ہی ہوگا۔ اللہ تبارک و تعالی ارشاد فرماتا ہے۔ "ام حسبتم ان تدخل الجنةولما ياتكم مثل الذين خلوا من قبلكم مستهم الباساء والضراء وزلزلوا حتى يقول الرسول والذين آمنوا معه متى نصر الله الا ان نصر الله قريب”
” کیا اس گمان میں ہو کہ جنت میں چلے جاؤ گے،اور ابھی تم پر اگلوں کی سی حالت نہ آئ، انہیں سختی اورشدت پہنچی اور ہلا ڈالے گئے۔ یہاں تک کی رسول اور ان کے ساتھ ایمان والوں نے کہا کب آئے گی اللہ کی مدد سن لو بیشک اللہ کی مدد قریب ہے”
            مسلمانوں کی آزمائش ان کی اپنی نااتفاقی کی وجہ سے ہے۔ ورنہ ہندوستان میں مسلمان سکھوں اور دیگر اقلیتوں سے کہیں زیادہ ہیں سکھوں کی آبادی ہندوستان میں 2 سے 3 فیصد سے زیادہ نہیں ،جبکہ مسلم آبادی کے بارے میں 14 سے 20  فیصد کے اندازے ہیں سکھوں کے ساتھ بھی ہندؤں کی جنگیں رہی لیکن آج ہندوستان میں سکھ معزز شناخت رکھتے ہیں۔ اور قوم مسلم کو ہی تختہ مشق بنایا جاتا ہے۔ آج بھی اگر مسلمان اپنی شناخت منوالیں تو ہندوستان کی کایا پلٹ سکتی ہے۔ جس طرح مسلمان مظلوم بنا ہوا ہے۔اگر یہ اپنی حقیقت کو پہچان لے تو حکومتوں کا زوال ہو سکتا ہے۔
        جس طرح انسان پیدا ہوتا ہے، پھر اس پر موت طاری ہوتی ہے کچھ یہی حال حکومتوں،قوموں،تہذیب و تمدن کا بھی ہے ۔کبھی ایک حکومت پروان چڑھتی ہے ترقی کی منزلوں کو طے کرتی ہے، پھر اس کا زوال شروع ہو جاتا ہے اس پر دوسری حکومت غالب ہو جاتی ہے۔ غرض کہ  دنوں کے ڈھلنے کے ساتھ ساتھ تبدیلیوں  اور انقلابات کا وقوع ایک فطری امر ہے۔تاریخ کے اوراق جب پلٹے جاتے ہیں تو وہ حکومتیں جو کبھی پوری شان وشوکت کے ساتھ موجود ہوا کرتی تھیں۔ پھر وہ تباہ و برباد ہو گئیں اب ان کا ذریعہ عبرت بن گیا۔۔
  قرآن کریم میں بہت سی قوموں اور حکومتوں کا ذکر ہے۔ حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کو اللہ کی عبادت کے لیے مدعو کیا،تو آپ کی قوم نے آپ کو جھٹلایا۔قوم نوح پر طوفان آیا کشتی والے بچ گئے باقی سب ہلاک ہوگئے۔فرعون خدائی کا دعویدار تھا اللہ تعالی نے حضرت موسی علیہ السلام کو فرعون کے پاس بھیجا، فرعون نے موسی علیہ السلام کو جھٹلایا۔اس نے جادوگر بھیجیں،جادوگر مقابلے کے لئے آئے لیکن مشرف بہ اسلام ہوگئے اللہ تعالی نے فرعون اور ان کے حامیوں کو دریا میں غرق کر دیا۔
     اسلامی نقطہ نظر سے حکمرانی صرف اللہ تبارک کی ہے۔اور اس کے بندوں میں جنہیں وہ طاقت و قوت عطا کرتا ہے۔تاکہ وہ خلق خدا کی خیرگیری  کریں حکومتوں کو ذاتی ملکیت نا سمجھ بیٹھے۔ جب تک اسلام کے ماننے والے اس اصول پر قائم رہے اسلام اور اہل اسلام کو دوسروں پر غلبہ حاصل ہوتا رہا لیکن جب مسلم حکمرانوں نے خلافت کو مالکانہ حق سمجھ لیا اسے عیش و عشرت کا ذریعہ بنا لیا،تو پھر سلطنت اسلامیہ کا زوال شروع ہوگیا۔اندلس میں مسلمانوں کا بیڑہ غرق کردیا گیا،بغداد میں چنگیزی لشکر کا حملہ ہوا، ہندوستان میں سلطنت مغلیہ کا کو خاکستر کردیا گیا،غرض کہ دنیا کی حکومتوں و قوموں میں غالبیت  اورمغلوبیت کا سلسلہ چلتا آرہا ہے۔
        آج بھی ایسے ہی حالات ہیں کہیں کسی کے پاس طاقت و قوت ہے تو کوئی کمزوری اور اقلیت میں ہونے کی وجہ سے خوف و وہراس میں مبتلا ہے۔ جیسے کہ ہندوستانی مسلمانوں کا حال ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حالات سے گھبرانے کے بجائے اپنی حالات پر نظر ڈالیں اور اس کے مطابق اپنی فعالیت کا مظاہرہ کریں مسلمان کم نہیں ہیں  ایک اندازے کے مطابق ہندوستان میں 20 سے 25 کروڑ مسلمان بستے ہیں۔اتنی تعداد چونٹیوں کی بھی ہو تو اسے ختم کرنا آسان نہیں۔ انسان تو بڑی چیز ہے بس ضرورت ہے ہمیں متحد ہونے کی۔۔
   نہ سنبھلو گے تو مٹ جاؤ گے اے ہندی مسلمانوں
 تمہاری داستاں تک نہ ہوگی داستانوں میں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے