اولاد کی نشوونما،مسائل اور حل مرکزی موضوع کے تحت پرورش ورکشاپ میں ماہر تعلیم مبارک کاپڑی اور دیگر ماہرین نفسیات کا اظہار خیال
میراروڈ ( ساجد محمود شیخ ) میراروڈ میں قانون گو اسٹیٹ سوسائٹی کے قریب واقع سلاسر بالاجی گراؤنڈ پر جماعت اسلامی میراروڈ کی جانب سے اولاد کی نشوونما مسائل و حل مرکزی موضوع کے تحت منعقد ہونے والے پرورش ورکشاپ میں والدین و سرپرستوں سے خطاب کرتے ہوئے ماہر تعلیم مبارک کاپڑی نے کہا کہ اولاد کھلونا نہیں ہیں بلکہ ایک امانت ہیں اور ان کی تربیت والدین کی دینی ذمہ داری ہے معاشرے کی اصلاح کے بغیر ہم کوئی بڑا خواب نہیں دیکھ سکتے ہیں
اولاد کی تعلیم و تربیت دین کی روشنی میں عنوان کے تحت خطاب کرتے ہوئے مبارک کاپڑی نے کہا کہ اولاد کی تربیت کے لئے ہمیں اپنے نفس کی قربانی دینی پڑے گی وباء کے زمانے میں شعبہ تعلیم پر بہت برے اثرات مرتب ہوئے اکثر والدین لڑکوں کی اعلیٰ تعلیم پر پیسوں کو ترجیح دے رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ان کا بیٹا جلد از جلد کمائی شروع جبکہ یہ رجحان افسوسناک ہے کیونکہ تعلیم کے بغیر ہمارے بچے کچھ نہیں کر سکتے ہیں شارٹ کٹ راستے کا دھیان سے نکال دینے کی ضرورت ہے ہمارے گھر بچوں کی یونیورسٹی ہے کیونکہ وہ بہت سی باتیں گھر سے سیکھتے ہیں اگر ہم چاہتے ہمارے بچے عمدہ اخلاق کے حامل ہوں تو ہمیں ہمارے گھر میں بھی بہترین اخلاقی ماحول کو پروان چڑھانے کی ضرورت ہے والدین بچوں کے سامنے کسی کی غیبت نہ کریں اس کے علاؤہ گھریلو جھگڑوں کا بچوں پر منفی اثر پڑتا ہے دوسرے بچوں کی مثال دے کر والدین خود اپنے بچوں میں احساس کمتری پیدا کرتے ہیں بجائے اس کے ہمیں اپنے بچوں کا حوصلہ بڑھانے کی ضرورت ہے اس کے علاؤہ اپنے بچوں میں تفریق نہیں کرنا چاہیے لڑکا ہو یا لڑکی ،ذہین بچہ ہو کند ذہن ہر بچے کے ساتھ یکساں سلوک کرنا چاہیئے انہوں نے مزید کہا کہ اولاد کھلونا نہیں ہے بلکہ ایک امانت ہے ان کی صحیح تربیت کرنا ہمارا دینی فرض ہے ۔لڑکوں کی تربیت پر توجہ مرکوز کراتے ہوئے انہوں کہا کہ ہمیں لڑکیوں کی طرح لڑکوں پر بھی نظر رکھنے کی ضرورت ہے ان کے دوست کیسے ہیں ان کے مشاغل کیا ہیں اور کیسی صحبت میں رہ رہے ہیں انہوں نے کہا کہ اکثر والدین کو یہ شکایت رہتی ہے کہ ان کے بچے ان کی بات نہیں سنتے ہیں غیروں کی بات سنتے ہیں ہمیں اپنے بچوں کو اپنائیت کا احساس دلانے کی ضرورت ہے اور ان کے دوست بننے کی ضرورت ہے ہمیں اپنے بچوں کو کامیابی کا جشن منانا ہی نہیں سکھانا ہے انہیں ناکامیوں کا سامنا کرنا بھی سکھانا چاہئے ۔
بچوں میں موبائل گیم کا بڑھتا جنون اور اس کی روک تھام کے عنوان پر بات کرتے ہوئے ڈاکٹر رضا نورانی نے کہا انٹرٹینمنٹ کمپنیوں کی کوشش ہوتی ہے کہ موبائل پر گیم کھیلنے والے کو اس کی عادت پڑ جائے شروعات میں آسان گیم ہوتے ہیں ایپ میں بار بار کھیلنے والا کا حوصلہ بڑھایا جاتا ہے تعریف کے حربے استعمال کئے جاتے ہیں کھیلنے والا ایک خیالی دنیا میں چلا جاتا ہے والدین کی نافرمانی موٹاپے اور دیگر جسمانی اخلاقی اور ذہنی امراض کا شکار ہو جاتا ہے ڈاکٹر ساجد علی خان نے نشہ کی لت موت کی راہ عنوان پر بات کرتے ہوئے کہا منشیات کا استعمال اب ہر گھر کا مسئلہ بنتا جا رہا ہے آٹھ سے دس سالہ بچہ بھی نشہ خوری میں مبتلا ہونے لگا ہے بچوں کے ساتھ دوستانہ ماحول بنانے کی ضرورت ہے اور نشہ کے سلسلے میں بیداری پیدا کرنے کی ضرورت ہے غلط صحبت بھی اس کی وجہ بن رہی ہے ہمیں اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ کہیں ہمارا بچہ غلط صحبت میں تو نہیں ہے۔