اترپردیش انتخابات کے نتائج کا حقیقت پسندانہ جائزہ:
ازقلم: سمیع اللہ خان
اترپردیش انتخابات کے نتائج طشت ازبام ہیں، ای۔وی۔ایم سے برآمد ہونے والے نامۂ اعمال پر سَنگھی سیکولر سے لے کر ہندوتوا وادی سبھی اپنے اپنے حساب سے کھینچا تانی اور جوڑ توڑ میں لگے ہوئے ہیں، اس درمیان سیکولر نواز سمجھداروں اور غیّور مجلسی لڑکوں کے درمیان ٹھنی ہوئی ہے، سوشل میڈیا پر اول الذکر کو دری گینگ کے جمّن اور ثانی الذکر کو #غیّورمِیمٹے بھی کہا جاتا ہے، یہ میں نہیں کہہ رہا ہوں بلکہ یہ دونوں طبقات ایکدوسرے کو معرکہ ہائے سوشل میڈیا میں یونہی مخاطب کرتےہیں۔
خیر،،،، اترپردیش انتخابات نے مجلس کے حمایتی اور سیکولر نواز دونوں ہی طبقات کو غلط ثابت کردیا ہے،
اویسی صاحب نے اترپردیش میں مجلس کو مسلمانوں کی اپنی قیادت کے طورپر لانچ کیا تھا اور اترپردیش کے مسلمانوں کو خوب جھنجھوڑا تھا کہ وہ سیکولر پارٹیوں کی دری بچھا بچھا کر غلامی کرنا اب بند کریں اور ” اپنی قیادت ” کھڑی کریں، لیکن ” اپنی سیاست اپنی قیادت اور اپنی حصے داری ” کا یہ جادو اترپردیش کے مسلمانوں پر اثرانداز نہیں ہوا، مجلس کو کسی ایک سیٹ پر بھی اتنے ووٹ نہیں ملے ہیں کہ جس کی وجہ سے بھاجپا تو درکنار کسی سیکولر پارٹی کو بھی ٹکر مجلس نے خاطرخواہ ٹکر نہیں دی ہے… ایک آدھ سیٹ کےعلاوہ.
الیکشن کمیشن کے ووٹنگ تناسب کے ریکارڈ نے جہاں یہ بات واضح کردی ہے کہ اترپردیش کے مسلمانوں نے ایم۔آئی۔ایم کو ووٹ نہیں دیا وہیں مبصرین کا یہ اندازہ بھی غلط ثابت ہوچکاہے کہ ایم۔آئی۔ایم کی وجہ سے مسلمانوں کا ووٹ تقسیم ہوسکتا ہے، سیکولر امیدوار ہار سکتےہیں یا بھاجپا کو فائدہ پہنچ سکتا ہے،
اترپردیش کے مسلمانوں نے ہمیشہ کی طرح زیادہ تر سماج وادی کو اور مایاوتی کو ووٹ کیا ہے
اترپردیش الیکشن کے نتائج یہ واضح کر رہے ہیں کہ ناصرف ہندو کمیونٹی بھاجپا کی طرف متحد ہے، بلکہ جن بیوقوفوں کو نعرے باز ہندوازم کا انتہاپسند غنڈہ بنا کے رکھا گیا ہے وہ بھی بھاجپا ہی کی طرف ہیں، بیشتر نچلی ذاتوں کے دلتوں نے ہندوﺅں کو ووٹ کیا ہے، کئی جگہوں پر جاٹوں اور یادوؤں نے بھی بھاجپا کو جتایا ہے البتہ بیشتر سیٹوں پر دلتوں کی جماعت، بہوجن سماج پارٹی نے بھاجپا کو جتانے میں واضح طورپر شاطرانہ رول ادا کیا ہے
کئی سیٹوں پر ہندوﺅں کی کانگریس، دلتوں کی بہوجن سماج اور سیکولروں کی سماج وادی کے درمیان اس طرح ووٹ تقسیم ہوئے کہ اس نے براہ راست بھاجپا کے امیدواروں کو جیتنے میں مدد کی ہے ۔
ہم نے الیکشن کمیشن کے ذریعے شائع ڈاٹا کےمطابق اترپردیش کی چار سو سیٹوں پر ووٹنگ ریکارڈ کے تناسب کا جائزہ لیا ہے، سبھی کو یہاں لکھنا ممکن نہيں ہے، پھر بھی تقریباﹰ ۳۰ سیٹوں پر ووٹنگ فیصدی کا یہ ریکارڈ آپ کے سامنے پیش کررہاہوں، ان کا جائزہ لیجیے:
رسول آباد ۔ 39 فیصدی ووٹ سماج وادی کو، 44 بھاجپا کو اور 13 بہوجن سماج کو
باندہ ۔ بھاجپا کو 41, سماج وادی کو 33 اور باقی ۱۹ بہوجن سماج لے گیا
بلند شہر ۔ بھاجپا کو 48، لوک۔دل سماج وادی کو 39, بہوجن سماج کو ۹ فیصد اور 1 کانگریس کو
فرید پور ۔ 43 سماج وادی کو، 45 بھاجپا کو اور 7 بہوجن سماج کو
فتح پور سیکری ۔ بھاجپا 46, سماج وادی 26 اور بہوجن سماج 25
غازی پور ۔ سماج وادی ۳۸، بھاجپا 40, بہوجن سماج کو 17,
حمیر پور ۔ 40 بھاجپا کو، 30 سماج وادی کو، بہوجن کو ۱۸ اور کانگریس کو 6
جگدیش پور ۔ کانگریس 32, بھاجپا 42، سماج وادی 13, اور بہوجن سماج 5
جلال آباد ۔ بھاجپا 46, سماج وادی 43 اور بہوجن سماج کو 7
اِگلاس ۔ 52 بھاجپا، 28 سماج وادی، بہوجن سماج 16 اور کانگریس 3
قنوج ۔ 42 سماج وادی، 44 بھاجپا، 9 بہوجن سماج
قدوائی نگر ۔ 55 بھاجپا، 36 کانگریس اور 4 سماج وادی کو
موہن لال گنج ۔ 42 بھاجپا، 38 سماج وادی، 12 بہوجن سماج اور ایک کانگریس کو
رودر پور ۔ بھاجپا 42, 19 سماج وادی، 18 کانگریس اور 12 بہوجن سماج وادی کو
پرتاب گڑھ ۔ 45 بھاجپا، 33 اپنا دل، اور ۹ بہوجن سماج کو
اورئی ۔ 45 بھاجپا، 34 سماج وادی، 15 بہوجن سماج اور 1 کانگریس کو
دیوبند ۔ 42 بھاجپا، 32 سماج وادی، 22 بہوجن سماج اور 1 ایم آئی ایم کو
دریاباد ۔ 44 بھاجپا، 35 سماج وادی، 12 بہوجن سماج وادی، اور 1 ایم آئی ایم کو
فرخ آباد ۔ 51 بھاجپا کو، 38 سماج وادی، اور 7 بہوجن سماج وادی کو
پھولپور ۔ 42 بھاجپا کو، 40 سماج وادی کو، اور 13 بہوجن سماج کو
گنگوہ ۔ 41 بھاجپا کو، 37 سماج وادی اور 19 بہوجن سماج کو
نکوڑ۔ 88. 38 بھاجپا کو، 38.12 سماج وادی کو اور 20 بہوجن سماج کو
نوتنوا ۔ 39 بھاجپا، 33 سماج وادی اور 20 بہوجن سماج کو
رام پور منیہارن ۔ 38 بھاجپا کو، 28 سماج وادی، اور 29 بہوجن سماج کو
مرزاپور ۔ 44 بھاجپا، 34 سماج وادی، 15 بہوجن سماج اور 1 کانگریس کو
مر ہرا ۔ 47 بھاجپا، 43 سماج وادی اور 7 بہوجن سماج کو
بالا مئو ۔ 42 بھاجپا کو، 29 سماج وادی، 22 بہوجن سماج اور 2 کانگریس کو
بِندکی ۔ 40 بھاجپا کو، 38 سماج وادی، 12 بہوجن سماج اور 2 کانگریس کو
حتمی نتائج تک ان اعدادوشمار میں زیادہ سے زیادہ ایک دو فیصدی کی کمی بیشی ہوسکتی ہے البتہ ان تفصیلات کے ذریعے آپکو الیکشن کے زمینی حقائق کا ایک اندازہ بآسانی مل سکتا ہے
ان ریکارڈز کےمطابق واضح طورپر دلتوں کی بہوجن سماج پارٹی نے بھاجپا کو جتانے میں ٹیکنیکل گراؤنڈ فراہم کیا ہے، کتنی ہی جگہیں ایسی ہیں جہاں پر بھاجپا سے سماج وادی جس قدر فرق سے ہاری ہے اُتنا ہی ووٹ مایاوتی لے گئی ہے، کچھ جگہوں پر کانگریس، بسپا اور سپا تینوں کی نابالغ سیاسی اسٹریٹیجی نے بھاجپا کو جتایا ہے
ہم نے ایک مہینہ پہلے یہ باتیں پیش کی تھی کہ ہمارے اکثروبیشتر لوگ اس خوف میں الجھے ہوئے ہیں کہ اویسی صاحب ووٹ تقسیم کردیں گے، لیکن یہ حقیقت نہیں ہے ووٹوں کی تقسیم اور بکھراؤ کا زیادہ خطرہ اکھلیش یادو اور مایاوتی کی پارٹی کے درمیان ہے، اور کچھ جگہوں پر کانگریس کے درمیان بھی، لیکن تب ہماری یہ بات سنی نہیں گئی تھی ۔
البتہ آج الیکشن کے نتائج نے اُسی خطرے کی تصدیق کردی
یہ نتائج کہتےہیں کہ اترپردیش کے مسلمانوں نے تو اویسی کے طرز سیاست کو قبول نہیں کیا، البتہ اترپردیش کے یادو، دلتوں اور ہندوﺅں کے دل و دماغ مسلم دشمنی میں زہر آلود ہوچکےہیں۔
لاکڈاؤن میں وباء کی وجہ سے بےتحاشا اموات جھیلنے کےباوجود، ہندو ووٹ کس قدر ہندوتوا طرز پر بھاجپا کی طرف گامزن ہے اس کا اندازہ، لکھیم پور، ہاتھرس اور اناؤ کی سیٹوں پر ووٹنگ کے تناسب سے لگائیے
ہاتھرس: جہاں پر دلت خاتون کی عصمت دری ہوئی تھی اور اسے راتوں رات جلا دیا گیا تھا وہاں کے 59 فیصدی ہندو، دلتوں نے بھاجپا کو ووٹ کیا۔
لکھیم پور میں بھاجپا لیڈر نے آندولن کررہے کسانوں پر بےدردی سے گاڑی چڑھا دی وہاں بھی ہندوﺅں نے بھاجپا کو ووٹ کیا
اناؤ میں بھاجپا لیڈر کے ذریعے بہیمانہ جرائم اور بدترین عصمت دری کی شکار ایک خاتون کو امیدوار بنایا گیا تھا، وہاں کے ہندوﺅں نے اُس بیچاری کو 1 فیصد بھی ووٹ نہیں دیا
پچاسوں سیٹوں پر بھاجپا کو صرف چالیس، پینتالیس ۳۰ یا پینتیس فیصدی ووٹ ہی ملے ہیں باقی اکثریتی ووٹ، سماج وادی، بہوجن سماج اور کہیں کانگریس کے درمیان تقسیم ہوگیا،
اس میں ای وی ایم کا رول بہت معمولی نظر آرہاہے، اکثر نتایج سیکولر جماعتوں کی آپسی ناکامی اور بھاجپا کی کامیاب اسٹریٹیجک سیاست کا نتیجہ ہیں
اب اگر سیکولر برادری اتنے واضح اعدادوشمار کےباوجود، اگر مگر کے ذریعے بھاجپا کی جیت کے لیے کوئی بہانہ تلاش کرے تو پھر اس کا کوئی بھی جواب نہیں، وہ ایک ایسی امید کا سہارا لینا چاہتے ہیں جس کی کوئی ضرورت ہی نہیں ہے،
جبکہ اترپردیش الیکشن کے یہ نتائج ہندوﺅں کی ہندوتوا ذہنیت کی تلخ حقیقت سمیت پروفیسر اشوک کمار پانڈے نے بھی قبول کیے ہیں جنہیں سیکولر حضرات میں اچھی نگاہوں سے دیکھا جاتاہے، اور ہر حقیقت پسند ہندوستانی آج اِس تلخ حقیقت کو تسلیم کررہاہے ۔
اترپردیش کے تقریبا ۸۵ فیصدی مسلمانوں نے مطلوبہ سمجھداری کا مظاہرہ کیا انہوں نے کوئی غلطی نہیں کی ہے، مایاوتی دلت ووٹوں کو لے کر سَنگھ کی گود میں جا بیٹھی، اکھلیش اور پرینکا گاندھی الگ الگ لڑتے رہے، یہ لوگ متحد نہیں ہوئے اور دلت۔یادو ووٹ بھی متحد نہیں ہوا، جس کے نتیجے میں ہندوتوا کی نفرتی مسلم۔دشمن سیاست کامیاب ہوگئی ۔
نہ سیکولر ووٹ مجلس کو ملا ہے، ناہی مجلس کی وجہ سے مسلم ووٹ تقسیم ہوا ہے، جو کچھ ہوا ہے، وہ کانگریس، بسپا اور سپا کے کمینہ پن کی وجہ سے ہوا ہے
مسلمانوں کو ٹینشن لینے کی ضرورت نہيں ہے، یہ دلتوں اور یادوؤں کی بیوقوفی ہے، یہ ہندوﺅں کی حماقت کا نتیجہ ہے، مظاہر پرستوں کی کم ظرفی کا نتیجہ ہے، اپنا دل چھوٹا مت کریں، یوگی کیا ہے؟ فرعون ہوجائے گا زیادہ سے زیادہ، اور کیا یہ ہمیں بتانے کی ضرورت ہےکہ فرعونیت کی قسمت میں ڈوبنا ہی مقدر ہوتاہے؟ اس لیے زیادہ لوڈ مت لیجیے…… اپنے کام سے کام رکھیے، یہ وقت بھی گزر جائےگا۔