تحریر:محمدقاسم ٹانڈؔوی
انسان کو عطا کی جانے والی دو زندگیاں ہیں، اس کی ایک زندگی دنیوی ہے اور دوسری اخروی۔ پہلی زندگی اس کی فانی ہے، جو ایک طے شدہ مدت اور مختصر دائرہ میں رہ کر پوری ہو جانی ہے، اس کے بعد ہر شخص کو یہاں سے چلے جانا ہے۔ یہاں سے چلے جانے کے بعد اس کی دوسری زندگی کا دور شروع ہوگا اور وہی اس کی دائمی زندگی ہوگی جو اسے اس کے رب کی طرف سے عطا ہوگی۔ لہذا اس زندگی کو خوشگوار و پُرسکون بنانے اور بھرپور طور پر جنت کی نعمتوں سے لطف اندوز ہونے کےلئے دنیا کی اس عارضی زندگی کو پوری احتیاط اور گناہوں سے کنارہ کش ہوکر گزارنے کی لوگوں کو بار بار تعلیم و ترغیب دلائی جاتی ہے۔ اس کےلئے ضروری ہےکہ لوگ اس دنیا کے خالق و مالک اور پروردگار عالم کی نازل کردہ شریعت کی پابندی، قرآن و حدیث سے ثابت شدہ احکامات کی بجاآوری، اس کے آخری رسول حضرت محمد مصطفی (ﷺ) کی پاکیزہ زندگی اور آپؐ کے اسوہ حسنہ کے مطابق اپنی اس زندگی کو گزارنے کا عہد اور جذبہ اپنے اندر پیدا کریں۔ حالات مخالف ہوں یا موافق، موسم سرد ہو یا گرم، حکمراں سنجیدہ مزاج ہوں یا ترش و تلخ عادت کے حامل؛ لوگوں کو ہر حال میں دین اسلام کی پابندی اور شریعت محمدیؐ کا پیروکار ہونا چاہئے اور ہرقسم کے رنج و الم اور تکلیف و مشقت کو برداشت کرتے ہوئے اللہ کے آخری دین اور محمد عربی (ﷺ) کے بتائے ہوئے راستے پر گامزن رہتے ہوئے اپنی آخرت کو سنوارنے میں مشغول رہنا چاہیے۔ اس لئے کہ وہاں کی عطا کردہ زندگی ہر قسم کے رنج و غم سے پاک اور تمام تفکرات و بےجا خیالات سے چھٹکارا دلانے والی ہوگی، اس کے حاصل ہو جانے کے بعد لوگوں کو نہ تو اگلی کسی منزل و پڑاؤ کی تلاش رہےگی اور نہ ہی کسی طرح کے اعمال و افعال کی ادائیگی کی فکردامن گیر اور زوالِ نعمت و صحت کا اندیشہ ہوگا۔ ہر نعمت دائمی ہوگی اور ہر غیر معقول بات کے اندیشہ سے لوگ مامون و محفوظ ہوں گے۔ برخلاف دنیاوی زندگی کے کہ نہ تو یہاں کسی کو اپنے ٹھکانے پر دوام و استقلال حاصل ہے اور نہ ہی اس دنیا کو اس کی آخری منزل قرار دیا گیا ہے، جس سے کہ یہاں اسے ہمیشہ ہمیش رہنا نصیب ہو؟
چنانچہ قرآن اس سلسلے میں لوگوں کی جو راہنمائی فرماتا ہے، وہی بہتر و افضل معلوم ہوتی ہے، اور وہ یہ ہےکہ:
"اے ایمان والو! اپنی فکر رکھو تم اگر راہ یاب ہو گئے تو جو بہک گیا وہ تمہارا کچھ نہیں بگاڑتا، تم سب کو (ایک دن) اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے، پھر وہ تمہیں بتا دےگا کہ تم کیا کچھ کرتے رہتے تھے”۔(ألمائدۃ:105)
اس آیت کریمہ میں لوگوں کو مخاطب کرکے اس آخری دن کے تئیں یاد دہانی کرائی جا رہی ہے، جس سے ہر ایک کو واسطہ پڑنا ہے اور جس دن (قیامت) کی طرف پلٹ کر جانے میں کسی فرد بشر کو کوئی شک و شبہ نہیں، خواہ عالم ہو یا جاہل، امیر ہو یا غریب، مرد ہو یا عورت، بوڑھا ہو یا جوان، صحت مند ہو یا بیمار، ایمان والا ہو کہ غیرایمان والا، عربی ہو یا عجمی، سیاہ فام ہو سفید فام، پیشے اور منصب کے لحاظ سے معزز و مکرم ہو یا خسیس و رذیل؛ ہر ایک کو طے شدہ وقت پر یہاں سے جانا ہے اور اپنی اگلی منزل کا راہی و مسافر بننا ہے۔ مگر جو اشخاص اپنی اس پہلی منزل میں راہ یاب و کامیاب ہو کر گئے ہوں گے، صلاح و تقوی کے ساتھ انھوں نے اپنے لیل و نہار گزارے ہوں گے، سنت و شریعت کو اپنا رہبر و رہنما اور مکمل طور پر جنھوں نے اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کی اطاعت و فرمانبرداری کی ہوگی؛ وہ اپنی اگلی منزل کا راستہ بھی سکون و عافیت کے ساتھ طے کرنے والے ہوں گے اور وہ اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہوں گے کہ پروردگار عالم ان کے ساتھ کس اعلی درجے کی شفقت و محبت کا معاملہ فرما رہا ہے اور ان کے راحت و سکون کے واسطے کیسی کیسی قیمتی و نایاب اشیاء کا انتظام و اہتمام کیا گیا ہے؟ اور یہ وہ حضرات ہوں گے، جو اس دنیا میں اپنے بوسیدہ لباس اور پراگندہ حالات کی بنیاد پر عزت و اہمیت کے حامل نہیں گردانے جاتے تھے، سماجی و معاشرتی نظام میں ان کی باتوں کو کوئی خاص توجہ سے نہیں نوازا جاتا تھا اور معزز و پُروقار لوگوں کے درمیان جن کی کوئی حیثیت و وقعت نہیں سمجھی جاتی تھی؛ بلکہ بیشتر معاملات میں ان کو ان کی مالی کمزوری اور کم ہستی کی بنا پر سائڈ و کنارہ کر دیا جاتا تھا، عالی جاہ اور اعلی شان حضرات کی محفل و مجالس میں ان کو بلانا اور ان کو اپنے پروگراموں کا حصہ بنانا باعث شرم و عار اور ایک طرح سے نقصان کا سودا تصور کیا جاتا تھا، اور بہت سے اجتماعی معاملات اور اہم مواقع پر ان کی طرف سے نظراندازی سے کام لیا جاتا تھا، جبکہ قرآن سے اصلاً اور بداہتاً انہیں حضرات کا راہ یاب و کامیاب ہونا ثابت ہوتا تھا اور بارگاہ الہی میں ان کا شمار تمام ایمان والوں میں تقوی و طہارت اختیار کرنے، اپنی ذات کو برائی اور ہر قسم کے گناہ و فساد سے بچائے رکھنے اور دوسروں کو بھی شر و فساد اور بدی کے کاموں سے بچانے کی کوشش کرنے والوں میں ہوتا تھا۔ یہی وہ حضرات ہوتے تھے، جو نیکوکار اور ہدایت یافتہ طبقے سے تعلق رکھنے والے اور دوسروں کی فکر رکھنے والے ہوتے تھے، جو ہر وقت اور ہر موقع پر خدا کے منکر و باغی اور اس کے احکامات کی صریح پامالی کرنے والے بندوں کا رشتہ ان کے مالک حقیقی سے اُستوار کرنے اور آخرت کو فراموش کر دینے والوں کے دلوں میں نور بصیرت اور شمع ہدایت روشن کر دینے کی فکر و جستجو میں منہمک و سرگرداں رہتے تھے، وہ اپنے سینوں کو پوری انسانیت کی ہمدردی و خیرخواہی کے درد سے معمور رکھتے ہیں اور ان کی روشن آنکھیں انسانوں کی تباہی و بربادی کے درد سے آشنا اور خیرہ رہتی ہیں۔
یہاں ‘سورۃالمائدہ’ کی بیان کردہ آیت سے پہلی والی آیت میں ہےکہ جب لوگوں
سے اللہ و رسول (کے حکم) کی طرف آنے اور ان کے بتائے ہوئے طریقوں کو اختیار کرنے کو کہا جاتا تو وہ جواباً کہتے کہ: "ہم نے جس راہ اور طریقے پر اپنے باپ دادا کو پایا؛ وہی ہمارے لئے کافی ہے”۔
انسان کی یہ فطرت ہےکہ جب اسے کسی معاملہ میں غور و فکر کرنے کی دعوت دی جاتی ہے اور ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ حق و ناحق میں تمیز کرنے کو کہا جاتا ہے تو ایسے تمام لوگوں کا جواب جن کو حق کی تردید اور مبنی برحق معاملہ کو تسلیم نہ کرنے کی عادت ہوتی ہے؛ تو آن کی طرف سے عموماً ایسا ہی منفی اور اپنی ہٹ دھرمی پر جمے رہنے والا رویہ سامنے آتا ہے اور نہ ماننے والے مختلف طریقے اختیار کئے جاتے ہیں۔ اس لئے صحیح بات کی تردید اور اہل حق کی مخالفت میں عام طور پر ان کا جواب یہی ہوا کرتا ہےکہ: "نہیں؛ ہم نے تو اپنے خاندان میں کسی کو اس طرح کرتے نہیں پایا؟ اس لئے ہم تو وہی راہ و طریق اختیار کریں گے، جس پر چل کر ہمارے پیش رو گئے ہیں۔
چنانچہ ایک اور آیت کریمہ میں لوگوں کو اپنے مالک حقیقی سے ملاقات کرنے اور اس عارضی زندگی کا خاتمہ اور دنیا سے پلٹ کر جانے کے بعد جب اللہ کریم کی طرف سے کئے گئے وعدہ کو ان کے سامنے آشکار و واشگاف کیا جائےگا تب ایسے لوگوں کی سمجھ میں آئےگا؛ لیکن اس وقت کا سمجھ میں آنا یا سمجھ کر عمل کی مہلت و فرصت طلب کرنا کچھ کام نہ آئےگا، بلکہ اس وقت اعمال کے مطابق جزا و سزا کی تعیین اور حد قائم کرکے اس کو اس کے ٹھکانے پر پہنچا دیا جائےگا؛ آیت کا ترجمہ و مفہوم پیش ہے:
"اسی کے پاس تم سب کو لوٹنا ہے، اللہ کا وعدہ سچا ہے، بلاشبہ اسی نے مخلوق کو پہلی بار پیدا، پھر اسے دوبارہ (پیدا) کرےگا؛ تاکہ وہ انصاف کے ساتھ ان لوگوں کو بدلہ دےدے، جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک کام کئے۔ اور جنھوں نے انکار کیا، ان کےلئے ان کے انکار کرتے رہنے کی پاداش میں (پینے کے واسطے) کھولتا ہوا پانی اور دردناک عذاب ہے”۔(سورۃ یونس:04)
مذکورہ آیت کریمہ کے مفہوم سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ مرنے کے بعد (قیامت کے دن زندہ ہو کر) تمام لوگوں کو پلٹ کر اللہ کی سامنے حاضر و جمع ہونا ہے؛ تاکہ اس جمع ہونے والے دن میں ایک تو اللہ مخلوق کے روبرو اپنا وعدہ حق و سچ کر دکھائے، جس کا اس نے مخلوق سے وعدہ کر رکھا تھا۔ دوسرے اہل ایمان میں سے جن لوگوں نے نیک و بھلائی کے کام کئے تھے، ان کو پورے پورے انصاف کے ساتھ جزاء اور بدلہ سے نوازا جا سکے۔ تیسرے لوگوں میں سے جو منکر و باغی ہوئے، انھیں ان کے جرم کی پاداش میں قید و گرفتار کرکے مستحق عذاب ٹھہرایا جائے اور واصل جہنم کیا جائے، ساتھ ہی جو لوگ ضد و ہٹ دھرمی اور اپنی انانیت و متکبرانہ روش پر اس دنیا میں برقرار تھے یا وہ لوگ جو دنیا کے حصول میں اس قدر منہمک و مگن ہوئے کہ اپنی آخرت ہی فراموش کر بیٹھے؛ انھیں بھی سزا سے دوچار کرے، جیسا کہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ: "نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن باہر تشریف لائے اور احد کے شہیدوں پر اس طرح نماز پڑھی جیسے میت پر پڑھی جاتی ہے۔ پھر منبر پر تشریف لائے اور فرمایا: دیکھو! میں تم سے پہلے جاکر تمہارے لئے میر ساماں بنوں گا اور میں تم پر گواہ رہوں گا۔ قسم اللہ کی میں اس وقت اپنے حوض کو دیکھ رہا ہوں اور مجھے زمین کے خزانوں کی (یا زمین کی) کنجیاں دی گئی ہیں۔ اور قسم اللہ کی مجھے اس کا ڈر نہیں کہ میرے بعد تم شرک کروگے، بلکہ اس کا ڈر ہےکہ تم لوگ دنیا حاصل کرنے میں رغبت کروگے۔(نتیجہ: آخرت سے غافل و لاپرواہ ہو جاؤگے)(صحیح بخاری:1344)
گویا بداعتقادی اور بداعمالی دو ایسی بیماریاں ہیں جو اپنے بیمار کو عذاب الہی کا مستحق بنا کر ذلت و رسوائی کی دہلیز تک پہنچا دیتی ہیں۔ اس لئے افعال گناہ اور فسق و فجور سے دوری بنانا اور اہل حق، اہل علم اور مشفق و مربی حضرات کی زیادہ سے زیادہ قربت و معیت اختیار کرنا چاہیے؛ تاکہ روز حساب و کتاب کسی قسم کی ندامت و شرمندگی نہ ہو اور ہم بآسانی اپنے مقصد میں کامیاب و کامران ہوں۔
(اللہ پاک ہم سب اعمال صالحہ کی توفیق سے نوازے اور اعمال بد سے ہم سب کی حفاظت فرمائے؛ آمین)