ازقلم(مولانا) عبدالحفیظ اسلامی
سینئر کالم نگار و آزاد صحافی، حیدرآباد
(سورۃ حجر) نام ،آیت ۸۰ کے فقرے کَذَّبَ اَصْحٰبُ الْحِجْرِ الْمُرْسَلِیْنَ سے ماخوذ ہے۔ مضامین اور انداز بیان سے صاف مترشح ہوتا ہے کہ اس سورت کا نزول سورۃ ابراہیم سے متصل ہے۔ اس کے پس منظر میں وہ چیزیں بالکل نمایاں نظر آتی ہیں۔ ایک یہ کہ حضرت نبی ا کو دعوت دیتے ایک مدت گزر چکی ہے اور مخاطب قوم کی مسلسل ہٹ دھرمی ، استہزا ، مزاحمت اور ظلم و ستم کی حد ہوگئی ہے، جس کے بعد اب تفہیم کا موقع کم انذار کا موقع زیادہ ہے۔ دوسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ آپ ا کو تسلی دے رہا ہے اور آپ ا کی ہمت بندھا رہا ہے۔ یہی دو مضمون اس سورے میں بیان کئے گئے ہیں۔ یعنی تنبیہ ان لوگوں کی جو نبی کریم ا کی دعوت کا انکار کررہے تھے اور آپ ا کا مذاق اُڑاتے اور آپ کے کاموں میں طرح طرح کی مزاحمتیں کرتے۔ اور تسلی و ہمت افزائی آنحضور ا کی۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ سورۃ تفہیم اور نصیحت سے خالی ہے۔
قرآن میں کہیں بھی اللہ تعالیٰ نے مجرد تنبیہ یا خالص زجر و توبیخ سے کام نہیں لیا ہے۔ سخت سے سخت دھمکیوں اور ملامتوں کے درمیان بھی وہ سمجھانے اور نصیحت کرنے میں کمی نہیں کرتا۔ چنانچہ اس سورہ میں بھی ایک طرف توحید کے دلائل کی طرف مختصر اشارے کئے گئے ہیں اور دوسری طرف قصۂ آدم و ابلیس سناکر نصیحت فرمائی گئی ہے۔ (حوالہ ت ق )