قرآنی تعارف: سورۂ مریم (مکی)

ازقلم(مولانا) عبدالحفیظ اسلامی
سینئر کالم نگار و آزاد صحافی، حیدرآباد

اس سورۃ کا نام ’’وَاذْکُرْ فِی الْکِتٰبِ مَرْیَمْ‘‘سے ماخوذ ہے۔
سورۃ مریم ، اسلام میں پہلی ہجرت (جو ہجرت حبشہ کے نام سے مشہور ہے) سے قبل نازل ہوئی، نزول کے وقت کے حالات کچھ اس طرح تھے کہ قریش کے سردار جہاں پر نبی اکرم اکی دعوت اسلامی کا مسلسل انکار کررہے تھے وہیں پر ان لوگوں نے تضحیک ، استہزاء ، تخویف اور جھوٹے الزامات کی تشہیر سے اسلامی تحریک کو دبانے میں ناکام ہوکر ظلم و ستم ، مار پیٹ اور معاشی دباؤ کے ہتھیار استعمال کرنے لگے۔
دوسری جانب ظلم کی یہ انتہا ہوچکی کہ مختلف قبیلوں میں سے جو لوگ بھی دعوت حق کو قبول کرتے ہوئے مسلمان ہوچکے تھے ان نو مسلموں کے کافر رشتہ دار ہر طرح سے تنگ کرنے لگے اور جو غریب مسلمان ، جو کہ قریش والوں کے زیر دست تھے انھیں ہر طرح سے ظلم کی چکی میں پیسا جارہا تھا۔ جب حالات ناقابل برداشت ہوچکے تو حضور ا کی ہدایت کے عین مطابق ۴۵ عام الفیل سنہ ۵ نبوی میں پہلے گیارہ مرد اور چار خواتین نے حبشہ کی طرف ہجرت کرگئے۔ قریش کے لوگوں کو یہ بھی برداشت نہ ہوا ، اُنھوں نے ان کا پیچھا کیا۔ اللہ کا فضل ان پر یہ ہواکہ شعیبہ کی بندرگاہ پر کشتی تیار ملی اور اس پرسوار ہوکر یہ مظلوم نو مسلم حبشہ کی طرف نکل پڑے اور اس طرح گرفتار ہونے سے بچ گئے۔
پھر چند مہینوں کے اندر مزید لوگوں نے ہجرت کی۔ یہاں تک ۵۳ مرد گیارہ عورتیں اور ۷ غیر قریشی مسلمان وہاں جمع ہوگئے اور مکہ مکرمہ میں نبی مکرم ا کے ساتھ صرف ۴۰ آدمی رہ گئے۔ اس ہجرت کا پہلا نتیجہ جو نکلا وہیہ تھا کہ کفاران قریش کے گھر گھر ایک کہرام مچ گیا ، کیونکہ قریش کے چھوٹے بڑے خاندان میں کوئی ایسا نہ تھا جن کے چشم و چراغ ان مہاجرین میں شامل نہ ہوں۔ ان میں کے بعض لوگ تو اسلام دشمنی میں پہلے سے زیادہ سخت ہوگئے اور بعض کے دلوں پر اس کا ایسا اثر ہوا کہ آخرکار وہ مسلمان ہوکر رہے۔
چنانچہ حضرت عمرص کی اسلام دشمن فکر پر پہلی چوٹ اسی واقعہ سے لگی تھی۔
غرض کہ ان کفار قریش نے آخرکار ایک کام اور کیا کہ عبداللہ بن ابی ربیعہ (ابوجہل کا ماجائے بھائی) اور عمرو بن عاص کو بہت سے قیمتی تحفہ دیکر اس غرض سے حبش روانہ کیا گیا کہ یہ تحفے وہاں پر اعیان سلطنت میں تقسیم کئے جائیں تاکہ ان سب کو اپنے مشن کی حمایت پر راضی کرلیا جائے۔
چنانچہ ایسا ہوا ، اور جب وہ حبشہ کے بادشاہ نجاشی سے ملے اور نذرانہ دینے کے بعد اپنی بات کو رکھا گیا کہ مہاجرین کو واپس کردیا جائے ، پہلے سے ہی رشوت حاصل کئے گئے اعیانِ سلطنت نے بھی اس کی تائید کردی کہ ان (مہاجر مسلمان) کو واپس کردیا جانا چائے ، لیکن نجاشی بگڑ گیا اور وہ کہنے لگا کہ ’’میں اس طرح ان کو اپنے ملک سے نکال کر ان کے حوالے نہیںکروں گا!‘‘ کیونکہ یہ لوگ کسی دوسرے ملک کو چھوڑ کر میرے ملک پر اعتماد کیا اور یہاں پناہ لینے کیلئے آئے ، ان سے میں بے وفائی نہیں کرسکتا، البتہ میں انھیں بلاکر حقیقت حال سے واقف ہوںگا۔
آخرکار نجاشی کا پیغام پاکر سب مہاجرین باہم مشورے سے ایک بات پر متفق ہوکر اس عزم کے ساتھ بادشاہ کے دربار میں پہنچے کہ چاہے نجاشی ہمیں اس ملک میں رکھے یا نکالے ہم تو اس کے سامنے وہی بات رکھیں گے جو نبی ا نے ہمیں بتائی ہے ، نجاشی کے دربار میں پہنچے تو نجاشی کے سوال کرنے پر اس کے جواب میں حضرت جعفرؓ بن ابی طالب نے ایک برجستہ تقریر فرمائی یعنی عرب جاہلیت کے حالات ، حضور ا کی بعثت، اسلام کی تعلیمات اور مسلمانوں پر قریش کے مظالم وغیرہ کو وضاحت سے بیان فرمایا ۔
نجاشی نے آپ کی تقریر سن کر کہا کہ ذرامجھے وہ کلام سنانا جو تم کہتے ہوکہ خدا کی طرف سے تمہارے نبی پر اُترا ہے ؟ حضرت جعفرص نے اسی وقت سورۃ مریم کا وہ ابتدائی حصہ سنایا جو حضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰ علیہما السلام کے متعلق ہے، نجاشی اس کو سنتا رہا اور روتا رہا یہاں تک کہ اس کی داڑھی تر ہوگئی، جب حضرت جعفرص نے تلاوت ختم کی تو اس نے کہا ’’یقینا یہ کلام اور جو کچھ عیسیٰ لائے تھے دونوں ایک ہی سرچشمے سے نکلے ہیں۔ خدا کی قسم میں تمہیں ان لوگوں کے حوالے نہ کروں گا‘‘۔
دوسرے روز پھر عمرو بن العاص نے نجاشی سے کہا کہ اچھا ان لوگوں سے پوچھئے کہ عیسیٰ بن مریمؑ کے بارے میں ان کا عقیدہ کیا ہے۔ یہ لوگ ان کے بارے میں بڑی بات کہتے ہیں‘‘ نجاشی نے پھر مہاجرین کو بلایا اور جب عمرو بن العاص کا پیش کردہ سوال ان کے سامنے رکھا تو حضرت جعفرؓ بن ابی طالب نے اُٹھ کر بلا تامل کہاکہ…
’’ھو عبداﷲ و رسولہ و روحہ وکلمتہ ، القاھا الٰی مریم العذراء البتول‘‘
وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں اور اس کی طرف سے ایک روح اور کلمہ میں ہیں جسے اللہ نے کنواری مریم پر القا کیا ‘‘۔
یہ سن کر نجاشی نے کہا :’’ خدا کی قسم ، جو کچھ تم نے کہا ہے عیسیٰ اس سے زیادہ نہیں تھے‘‘۔
اس کے بعد نجاشی نے قریش کے بھیجے ہوئے تمام ہدیے یہ کہہ کر واپس کردیئے کہ میں رشوت نہیں لیتا اور مہاجرین سے کہا تم بالکل اطمینان کے ساتھ رہو۔
اس سورۃ مریم میں جو اصل موضوع اور مضمون آیا ہے یہ ایک زاد راہ ہے جو اللہ کی کی طرف سے ، دین کے داعی اور کلمۂ حق کو بلند کرنے والوں کو عطا کیا گیا۔
ہجرت حبشہ کا واقعہ اس بات کی شہادت دیتا ہے کہ جب مظلوم مسلمان بحیثیت پناہ گزین ، ایک ایسے ملک کو جارہے تھے ، مگر اس حالت میں بھی اللہ تعالیٰ نے ان کو دین کے معاملہ میں ذرہ برابر بھی مداہنت کرنے کی تعلیم نہ دی ، بلکہ چلتے وقت زادراہ کے طور پر سورۃ مریم کو ان کے ساتھ کردیا تاکہ عیسائی ملک میں حضرت عیسیٰ کی بالکل صحیح حیثیت پیش کریں اور ان کے ابن اللہ ہونے کا صاف انکارکردیں۔
اس سورۃ کے پہ لے رکوع میں حضرت زکریا ں کی نیازمندانہ التجا کو شرف قبولیت بخشتے ہوئے انھیں اس وقت ایک بیٹے کی ولادت کا مژدہ سنایا گیا جب کہ حضرت زکریاؑ مسیح ںکی بن باپ پیدائش کا تذکرہ کرکے اس حقیقت کو ظاہر فرمادیا گیا کہ اسباب و علل کی احتیاج ہمیں ہے ، اسے نہیں جو اسباب و علل کا خالق ہے۔
یہ قرآن کا ہی فرض تھا کہ حضرت مسیح کی حقیقت کو آشکارا کرے چنانچہ آپ کی اور آپ کی والدہ طاہرہ کی عظمت و شان کو پوری آب و تاج سے بیان کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی بتادیا کہ حضرت مسیح نہ خدا تھے اور نہ فرزند خدا ، بلکہ خدا کے پیارے بندے اور معزز رسول تھے۔
تیسرے رکوع میں حضرت ابراہیم ں کے انداز دعوت کو بڑی حسن وخوبی سے بیان کردیا گیا ہے۔ آپ کو دعوت کی نزاکتوں کا احساس بھی ہے اور اپنے باپ کا ادب بھی ہر لحظہ ملحوظ ہے۔ ایک چھوٹا سا نمونہ درج ذیل ہے۔ آیت ۴۳ تا ۴۶ ۔
ابا جان ! میرے پاس ایک ایسا علم آیا ہے جو آپ کے پاس نہیں آیا ، آپ میرے پیچھے چلیں ، آپ کو سیدھا راستہ بتاؤں گا۔… ابا جان ، آپ شیطان کی بندگی نہ کریں۔ شیطان تو رحمن کا نافرمان ہے۔ …ابا جان ، مجھے ڈر ہے کہ کہیں آپ رحمن کے عذاب میں مبتلا نہ ہوجائیں اور شیطان کے ساتھ بن کر رہیں۔
باپ نے کہا… ’’ابراہیم کیا تو میرے معبودوں سے پھر گیا ہے؟ اگر تو باز نہ آیا تو میں تجھے سنگسار کردوں گا بس تو ہمیشہ کیلئے مجھ سے الگ ہوجا‘‘۔
ایک طرف اللہ کا فرمانبردار بندہ اور اس کا رسول ہے اور اس کا طرز تخاطب دوسرے جانب بت پرست و بت تراش شخص کا طرز عمل اور خدا واحد سے بغاوت ہے۔ یعنی دھمکیاں اِدھر سرزنش ہیں اور اُدھر خیر خواہی ہے۔ اخلاص ہے ، ادب اور احترام ہے ، اُسوۂ ابراہیمی میں داعی حق گروہ کیلئے ایک بہترین سبق ہے کہ وہ کس طرح اپنی دعوت میں نرم کلامی اور دلسوزی اور آدمیت کا احترام ملحوظ رکھیں اور حکمت کے ساتھ دعوت حق کو ان کے سامنے رکھیں۔
(اقتباسات و استفادہ تفہیم القرآن و ضیاء القرآن)