آپ شکر کیوں کریں!

تحریر: نقی احمد ندوی، ریاض، سعودی عرب

کسی دانشور نے بہت صحیح کہا ہے: کسی واقعہ اور انسان کے ردِ عمل کے درمیانایک وقفہ ہوتا ہے۔ وہی وقفہ اور لمحہ اس واقعہ کے نتائج کا فیصلہ کرتا ہے۔ اس دنیا میں واقعات اور حادثات کا ظہور امیرو غریب، پڑھا لکھا، چھوٹا بڑا، کالا گورا، مردوزن، سب کے لیے یکساں ہے۔ ان واقعات پر ردِ عمل کون کس طرح کرتا ہے، اسی پر اس کے مستقبل کا دارومدار ہوتا ہے۔ دو شخص ایک ہی چیز یا ایک ہی واقعہ کو اپنی اپنی نظر سے دیکھتے ہیں۔ بارش کے خوشگوار موسم میں کسی کھڑکی سے دیکھنے پر کسی کو گلی میں صرف کیچڑ نظر آتی ہے تو کسی کو کھلے آسمان میں چمکتے دمکتے ستارے، اور یہی نظر اور نظریہ انسان کی کامیابی اور ناکامی میں فیصلہ کن رول ادا کرتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ ایک زمانہ میں برطانیہ کی جوتے کی ایک مشہور کمپنی نے اپنے دو سیلزمین افریقہ بھیجے اور پتہ لگانے کی کوشش کی کہ وہاں ان کے جوتوں کے ایکسپورٹ کا کوئی امکان موجود ہے یا نہیں۔ دونوں سیلز مین افریقہ پہنچے اور وہاں سے رپورٹ بھیجی۔
پہلے سیلزمین نے رپورٹ بھیجی کہ یہاں جوتوں کے کاروبار کی کوئی گنجائش نہیں کیونکہ یہاں کے لوگ جوتے پہنتے ہی نہیں۔
دوسرے سیلزمین نے لکھا کہ یہاں جوتوں کی بہت بڑی مارکیٹ موجود ہے کیونکہ یہاں کے لوگ جوتے پہنتے ہی نہیں۔
اس واقعہ کی سچائی اپنی جگہ مگر اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ایک ہی صورتحال کو دو انسان مثبت اور منفی انداز میں کس طرح دیکھتے ہیں۔ یہ اس کی بہت واضح مثال ہے۔اپنی ذات، اپنی قابلیت و صلاحیت، اپنی شخصیت اور اپنی قوت کارکردگی کے متعلق منفی سوچ ایک ایسا زہرِ ہلاہل ہے جو ذہین ترین افراد کی شاندار کامیابیوں کو بھی کھا جاتا ہے اور انہیں بڑھنے اور پنپنے کا موقع نہیں دیتا۔آپ نے کبھی غور کیا کہ قرآن پاک کی پہلی اور آخری آیت ہمیں کیا درس دیتی ہے۔ پہلی آیت ہے:
الحمدللّٰہ رب العالمین۔ تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جو سارے جہان کا پالنہار ہے۔ اور آخری آیت ہے: وَمِن شَرِّ الْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِo الَّذِیْ یُوَسْوِسُ فِیْ صُدُورِ النَّاسِo مِنَ الْجِنَّۃِ وَ النَّاسِo ’’اس وسوسہ ڈالنے والے کے شر سے جو بار بار پلٹ کر آتا ہےo جو لوگوں کے دلوں میں وسوسے ڈالتا ہے o خواہ وہ جنوں میں سے ہو یا انسانوں میں سےo‘‘
آپ جہاں کہیں بھی ہیں، جس حالت اور جس صورتحال میں ہیں، اگر غور کریں گے تو یہ بات ثابت ہوجائے گی کہ آپ اس دنیا میں موجود کروڑوں لوگوں سے بہتر پوزیشن میں ہیں، آپ اگر چاہیں بھی تو اللہ کی نعمتوں کو نہیں ٹھکرا سکتے، آج بھی ورلڈ فوڈ پروگرام کی رپورٹ کے مطابق ہر دن دنیا بھر میں مرد اور عورتیں اپنے بچوں کو صحت مند غذا کھلانے کے لیے جدوجہد کرتے ہیں، ایک ایسی دنیا جس میں سارے لوگوں کو کھلانے کے لیے غذا کی پیداوار کافی ہے پھر بھی 821ملین (بیاسی کروڑ سے زیادہ) لوگ یعنی دنیا کے ہر 9میں سے ایک آدمی ابھی بھی ہر رات خالی پیٹ بستر پر سونے کے لیے جاتا ہے۔ مزید برآں دنیا میں ہر تین میں سے ایک آدمی کسی نہ کسی قسم کے امراض کا شکار ہے۔
اقوام متحدہ کی 2005کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا میں 100ملین (دس کروڑ) لوگ بے گھر ہیں جن کے پاس رہنے کا ٹھکانہ نہیں اور 1.6بلین (ایک ارب ساٹھ کروڑ) لوگ ایسے ہیں جن کو رہنے کے لیے معقول رہائش نہیں۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن اور ورلڈ بینک کی 2015کی رپورٹ کے مطابق پوری دنیا میں 400ملین (چالیس کروڑ) لوگ ایسے ہیں جن کو بنیادی طبی سہولیات حاصل نہیں۔ اور متوسط اور قلیل آمدنی والے شہروں میں صحت اور علاج و معالجہ کے اخراجات کے باعث چھ فیصد لوگ ہر سال مزید غربت کی طرف ڈھکیل دیے جاتے ہیں۔(1)
ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق ایک ارب لوگ یعنی دنیا کی پندرہ فیصد آبادی کسی نہ کسی شکل میں معذوریت کی شکار ہے اور ترقی یافتہ ممالک میں اس کا تناسب زیادہ ہے۔ دنیا کی کل آبادی کا پانچواں حصہ یعنی 110ملین سے 190ملین تک (گیارہ کروڑ سے انیس کروڑ کے بیچ) نمایاں معذوری اور اپاہج پن کا شکار ہیں۔
امریکہ میں دس ملین سے بیس ملین بچے اور بالغ افراذ کرونک بیماریوں یا معذوریت کے کسی نہ کسی شکل کی بیماری میں مبتلا ہیں۔ کرونک بیماری اسے کہا جاتا ہے جو تین ماہ سے لے کر پوری زندگی رہنے والی بیماری ہوتی ہے۔
اقوامِ متحدہ کی 2014ء کی رپورٹ کے مطابق پوری دنیا میں 57ملین (پانچ کروڑ ستر لاکھ) بچے ایسے ہیں جن کو پڑھنے کے لیے اسکول مہیا نہیں ہیں۔ یونیسکو کا کہنا ہے کہ بعض علاقے ایسے ہیں جہاں پر ہر بچے کے لیے اسکول کی سہولت فراہم کرنے میں مزید ستر سال لگ سکتے ہیں۔
مذکورہ اعداد و شمار کو دیکھنے کے بعد آپ اپنی صورتحال کا اگر جائزہ لیں گے تو آپ کو محسوس ہوگا کہ آپ دنیا کے ایسے کروڑوں لوگوں سے کہیں زیادہ خوش قسمت ہیں جو ان نعمتوں سے محروم ہیں، لہٰذا ایسی کوئی معقول وجہ نہیں پائی جاتی کہ آپ اپنے مستقبل سے مایوس ہوں اور اس کے بارے میں منفی سوچ رکھیں۔ البتہ یہ ممکن ہے کہ دوسرے لوگ جو منفی رویہ رکھتے ہیں وہ آپ کو ضرور نیگٹیو بنانے کی کوشش کریں گے۔
یہی وجہ ہے کہ اللہ کی آخری کتاب کا آخری جملہ کہ اے اللہ ہمیں لوگوں اور جناتوں کے وسوسوں سے محفوظ فرما، اس بات کا ثبوت بھی ہے اور تعلیم بھی کہ ہمارے اطراف کے لوگ ہماری زندگی پر بہت ہی زیادہ اثر انداز ہوتے ہیں، لہٰذا ہمیں ہمیشہ ان سے اللہ کی پناہ مانگنی چاہیے۔ ظاہر ہے کہ صرف اللہ سے پناہ مانگنا اور دعائیں کرنا کافی نہیں ہے، بلکہ ہمیں ایسے لوگوں سے حد الامکان دوری بنانے اور ان سے تعلقات محدود کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ نیگیٹیو لوگ اپنی باتوں سے آپ کو بھی نیگی ٹیو بنادیں گے۔ لہٰذا کامیابی و ترقی اور سکون و اطمینان کے حصول کی راہ میں یہ بہت ضروری ہے کہ آپ کے ارد گرد ایسی ہستیاں موجود ہوں جو ہمیشہ ہمت افزائی کریں، آپ کی سوچ کو بلندی اور فکر کو تابندگی بخشیں نہ کہ اپنی نیگیٹیو باتوں سے آپ کے جذبۂ عمل اور قوتِ کارکردگی کو سپوتاژ کرتے رہیں۔