ازقلم: شمشیر عالم مظاہری دربھنگوی
جامع مسجد شاہ میاں روہوا ویشالی بہار
انگریزوں کی ایک سو سالہ غلامی کی وجہ سے ہم شدید قسم کے احساسِ کمتری کا شکار ہو چکے ہیں اس لئے ہمارے لوگوں میں مغربی فیشن اپنانے کا بہت زیادہ رجحان پایا جاتا ہے خواہ وہ فیشن ہمارے حالات، ہماری تہذیب و ثقافت، اور ہمارے یہاں کے موسم کے مدوجزر سے میل کھاتا ہو یا نہ کھاتا ہو، اس میں ہمارے لئے جسمانی راحت ہو یا نہ ہو ہمارے مالی وسائل ہمیں اس کی اجازت دیں یا نہ دیں لیکن ہمارے اندر چھپا ہوا غلام ہمیں اپنے سابق آقاؤں کی شکل و صورت بنانے اور لباس میں ان جیسی تراش خراش اپنانے پر مجبور کردیتا ہے اور اہل مغرب کا حال یہ ہے کہ وہ کسی ایک فیشن پر زیادہ ٹکتے ہی نہیں چنانچہ بعض اوقات عجیب مضحکہ خیز صورت سامنے آتی ہے ہمارا ماڈرن طبقہ بڑے ذوق شوق سے ایک فیشن کو اپناتا ہے تو خبر آتی ہے کہ یہ فیشن تو اب مغرب میں متروک ہو چکا ہے اور یورپ میں جس قسم کے فیشن اپنائے جارہے ہیں ان کا اندازہ اس خبر سے بخوبی ہوسکتا ہے
انیس سو ترانوے ء (1993) میں فیشن کی ایک ماڈل مس ہیلن نے چوبیس انڈوں کا ہیٹ پہنا اور دوسری ماڈل مس چیری نے فرائی پین سر پر فٹ کر لیا تمام دنیا کے رسائل اور اخبارات نے ان کی تصاویر چھاپ کر ہیٹ زدہ خواتین کو ترغیب دی کہ وہ بھی سروں پر انڈے آملیٹ بنانے کا فرائی پین باندھیں بہت خوبصورت لگیں گی۔ اور اب تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ اہل مغرب کو کوئی نیا فیشن سوجھ نہیں رہا اس لیے آج کل ان میں جانوروں جیسی شکلیں بنانے اور حیوانوں کی طرح ننگا رہنے کا رجحان بڑھتا جارہا ہے اور ایسی سوسائٹیاں وجود میں آ چکی ہیں جہاں ستر اور پردہ پوشی کا تصور بھی محال ہے۔ اگر آپ فیشن پرستی کی بیماری کا غور سے جائزہ لیں تو آپ کو اس میں اسراف بھی ملے گا اور عیش پسندی بھی ملے گی اس کے علاوہ اس میں احساسِ کمتری غیروں کی نقالی اپنی ثقافت سے وحشت بلکہ نفرت اور اپنے آپ کو نمایاں اور انوکھے انداز میں پیش کرنے کے جذبات کارفرما دکھائی دیں گے ہمارے یہاں فیشن پرستی کی جو وبا پھیلی ہے وہ کسی ایک شعبے تک محدود نہیں رہی بلکہ اس نے شکل و صورت سے لباس تک زبان سے کھانے پینے کے طور طریقوں تک اور شادی بیاہ سے زندگی کے عام معاملات تک ہر چیز کو اپنے حلقۂ اثر میں لے لیا ہے ۔کس کس فیشن کا رونا رویا جائے ہم تو سر سے پاؤں تک فیشن میں غرق ہوتے جا رہے ہیں ایسا لگتا ہے کہ ہمارا کلچر ہماری ثقافت ہماری اسلامی روایات شرعی فرائض و واجبات اور پیاری پیاری سنتیں فیشن کے سیلاب میں بہہ جائیں گے۔
عورتوں کو مہندی لگانے کا حکم
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ہند بنت عتبہ نے حضور صلی اللہ وسلم سے عرض کیاکہ مجھے بیعت کر لیجئے آپ نے فرمایا کہ میں تم کو اس وقت تک بیعت نہیں کروں گا جب تک کہ تم مہندی لگا کر اپنے ہاتھوں کی صورت نہ بدلو گی تمہارے ہاتھ اس وقت کسی درندے کے سے ہاتھ معلوم ہوتے ہیں (سنن ابی داؤد)
یہ ہند بنت عتبہ ابو سفیان کی بیوی تھیں فتح مکہ کے دن اسلام لائیں اور اسی دن قریش کی دوسری بہت سی عورتوں کے ساتھ پہلی بیعت کی عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا کی اس حدیث میں ہندہ کی طرف سے جس بیعت کی درخواست کا ذکر ہے بظاہر یہ انہوں نے بعد میں کسی وقت کی ہے اور اسی موقع پر حضور نے ان کو ہاتھوں میں مہندی لگانے کی یہ ہدایت فرمائی ۔ دوسری بعض روایات میں اور بھی بعض عورتوں کا ذکر ہے جن کو آپ نے مہدی استعمال کرنے کی اسی طرح تاکید فرمائی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس ہدایت و تعلیم سے اسلامی شریعت کا یہ نقطۂ نظر معلوم ہوگیا کہ عورتوں کو جائز حد تک زینت اور سنگھار کے اسباب استعمال کرنے چاہئیں
ناخن پالش کی بلا
ناخنوں سے متعلق دو بیماریاں عورتوں میں خصوصاً نوجوان لڑکیوں میں بہت ہی عام ہوتی جارہی ہیں ایک ناخن بڑھانے کا مرض کا دوسرا ناخن پالش کا۔ ناخن بڑھانے سے آدمی کے ہاتھ بالکل درندوں جیسے ہوتے ہیں اور پھر ان میں گندگی بھی رہ سکتی ہے جس میں جراثیم پیدا ہوتے ہیں اور مختلف النوع بیماریاں جنم لیتی ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دس چیزوں کو ( فطرت) میں شمار کیا ہے ان میں ایک ناخن تراشنا بھی ہے پس ناخن بڑھانے کا فیشن انسانی فطرت کے خلاف ہے جس کو مسلم خواتین کافروں کی تقلید میں اپنا رہی ہیں مسلم خواتین کو اس خلافِ فطرت تقلید سے پرہیز کرنا چاہیے ۔
دوسرا مرض ناخن پالش کا ہے
حق تعالیٰ شانہٗ نے عورت کے اعضاء میں فطری حسن رکھا ہے ناخن پالش کا مصنوعی لبادہ محض غیر فطری چیز ہے، پھر اس میں ناپاک چیزوں کی آمیزش بھی ہوتی ہے وہی ناپاک ہاتھ کھانے وغیرہ میں استعمال کرنا طبعی کراہت کی چیز ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ناخن پالش کی تہہ جم جاتی ہے اور جب تک اس کو صاف نہ کر دیا جائے پانی نیچے نہیں پہنچ سکتا اس صورت میں نہ وضو ہوتا ہے نہ غسل آدمی نا پاک کا ناپاک رہتا ہے جو تعلیم یافتہ لڑکیاں اور معزز نمازی عورتیں کہتی ہیں کہ ناخن پالش کو صاف کئے بغیر وضو ہو جاتا ہے وہ غلط فہمی میں مبتلا ہیں اس کو صاف کئے بغیر آدمی پاک نہیں ہوتا نہ نماز ہو گی نہ تلاوت جائز ہوگی
ناخن پالش اور جدید سائنس
ناخن بھی جسم انسانی کی طرح زندہ ہیں انہیں بھی آکسیجن اور ہوا کی ضرورت ہوتی ہے یہ پانی کے طلب گار ہوتے ہیں اگر انہیں کوئی تکلیف پہنچے تو تمام جسم ان سے متاثر ہوتا ہے۔ ایک خاتون کو ہاتھوں پر دانے خارش اور پیپ دار پھنسیاں تھیں بہت علاج کرائے لیکن افاقہ نہ ہوا ایک ماہر امراض جلد کے پاس گئیں موصوف عمر رسیدہ اور بہت ماہر مانے جاتے تھے ڈاکٹر صاحب مریضہ کا معائنہ کر کے فرمانے لگے آپ ناخن پالش کتنے عرصے سے استعمال کر
رہی ہیں مریضہ کہنے لگی گزشتہ ساڑھے پانچ سالوں سے اور مرض کو کتنا عرصہ ہوا ہے مریضہ نے جواب دیا پانچ سال سے مسلسل مرض موجود ہے ڈاکٹر صاحب نے فرمایا آپ ناخن پالش لگانا چھوڑ کر پھر مناسب مختصر علاج کریں مریضہ کا کہنا ہے کہ صرف تیسرے ہفتے میں مکمل صحت یاب ہوگئی۔
کرومو پیتھی کا اصول
کرومو پیتھی کے ماہرین کے مطابق رنگ انسانی زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں اور انسان جس رنگ کو بار بار دیکھتا ہے اس کا اثر اس کی زندگی پر غالب ہوتا ہے چونکہ اکثر ناخن پالش سرخ رنگ کی ہوتی ہے اور یہ رنگ اشتعال، غصہ، اور بلڈ پریشر ہائی کرتا ہے اس لئے وہ لوگ جو پہلے سے اس مرض میں مبتلا ہوں ان کے امراض میں فوری اضافہ ہوجاتا ہے اور صحت مند آدمی بھی آہستہ آہستہ ان امراض کی طرف مائل ہو جاتا ہے۔ انسانی صحت اور تندرستی کے لئے ہر رنگ کا ایک منفرد مزاج ہوتا ہے۔ موجودہ فیشن نے مختلف ناخن پالش کے استعمال کی ترغیب دی ہے ان مختلف رنگوں کی الرجی عام آدمی کے لئے بھی ناقابل برداشت ہے تو کیا ایک مریض برداشت کر سکے گا؟ ناخن پالش مسامات کو بند کر دیتی ہے مزید چونکہ ناخن پالش میں رنگ دار کیمیکل ہوتے ہیں اس لئے یہ کیمیکل بے شمار امراض کا باعث بنتے ہیں خاص طور پر اس کا اثر جسم کے ہارمونری سسٹم پر بہت برا پڑتا ہے جس سے خطرناک زنانہ امراض پیدا ہوتے ہیں
الغرض ناخن پالش اور لپ اسٹک مسلم خواتین کے لئے استعمال کرنا نہ شرعاً جائز ہے اور نہ ہی سائینسی اعتبار سے درست ہے اسلام نے خواتین کے لئے گھر میں آرائش حسن ( صرف اپنے خاوند کے لئے) سے منع نہیں فرمایا لیکن اس کے لئے مصنوعی اور زہریلی ادویات میک اپ کی شکل میں ہمیشہ نقصان دہ ہیں اور اب تو جدید اور پڑھا لکھا طبقہ میک اپ سے دلبرداشتہ ہو کر پھر سے سادگی کی طرف لوٹ رہا ہے۔
پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا