عشرہ ذوالحجہ کی فضیلت اور ایامِ قربانی کے مسائل

تحریر: احمد حسین مظاہری، پرولیا

ذی الحجہ کا مہینہ ان چار مہینوں میں سے ہے،جن کو اللہ تعالی نے "اشہر حُرُم "یعنی حرمت والے مہینے قرار دیا ہے۔ذوالحجہ کا پورا مہینہ ہی قابل ِ احترام ہے لیکن اس کے ابتدائی دس دن تو بہت ہی فضیلت اور عظمت والے ہیں ۔
ماہِ ذی الحجہ کا پہلا عشرہ قرآن و حدیث کے مطابق سال کے تمام دنوں میں افضل ترین عشرہ ہے، چنانچہ بارِ الہ نے قرآنِ کریم (سورة الفجر آیت نمبر ۲)میں ذی الحجہ کی دس راتوں کی قسم کھائی ہے (وَالْفَجْرِ وَلَیَالٍ عَشْرٍ…… جس سے معلوم ہوا کہ ماہ ذی الحجہ کا ابتدائی عشرہ اسلام میں خاص اہمیت کا حامل ہے۔
چنانچہ حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کوئی دن ایسانہیں ہے جس میں نیک عمل اللہ تعالیٰ کے یہاں ان دس دنوں کے عمل سے زیادہ محبوب اور پسندیدہ ہو۔ (صحیح بخاری )
دوسری حدیث میں حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ذوالحجہ کے پہلے دس دنوں میں کیے گئے اعمالِ صالحہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام ایام میں کیے گئے نیک اعمال سے زیادہ محبوب ہیں۔ صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ! اگر ان دس دنوں کے علاوہ اللہ کی راہ میں جہاد کرے تب بھی؟ آپ ﷺنے فرمایا: ہاں! تب بھی اِن ہی اَیام کا عمل زیادہ محبوب ہے، البتہ اگر کوئی شخص اپنی جان و مال دونوں چیزیں لے کر جہاد میں نکلا اور ان میں سے کسی چیز کے ساتھ بھی واپس نہ ہوا یعنی شہید ہوگیاتو یہ افضل ہے۔(ترمذی)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کے نزدیک ذوالحجہ کے پہلے دس دنوں کی عبادت تمام دنوں کی عبادت سے زیادہ پسندیدہ ہے۔ ان ایام میں سے (یعنی ذوالحجہ کے پہلے دس دنوں میں) ایک دن کا روزہ پورے سال کے روزوں اور رات کا قیام شب قدر کے قیام کے برابر ہے۔(ترمذی)
ذی الحجہ کا مہینہ وہ مسرت اور خوشی کا مہینہ ہے،جس کی دس تاریخ کو تمام مسلمان عیدِ قربان مناتے ہیں؛ نیز قربانی کے لیے اللہ تعالی نے ذی الحجہ کے تین دن یعنی دس،گیارہ اور بارہ تاریخ مقرر فرما دیئے ہیں، ان ایام کے علاوہ اگر کوئی شخص قربانی کی عبادت کرنا چاہے تو نہیں کرسکتا، البتہ اگر کوئی شخص صدقہ کرنا چاہے، تو بکرا ذبح کر کے اس کا گوشت صدقہ کر سکتا ہے،لیکن یہ قربانی کی عبادت ان تین دنوں کے سوا کسی اور دن میں انجام نہیں پا سکتی۔
حضرت عائشہ رضی الله عنہا فرماتی ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قربانی کے دن اللہ کے نزدیک آدمی کا سب سے محبوب عمل خون بہانا ہے، قیامت کے دن قربانی کے جانور اپنی سینگوں، بالوں اور کھروں کے ساتھ آئیں گے، قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے قبولیت کا درجہ حاصل کر لیتا ہے، اس لیے خوش دلی کے ساتھ قربانی کرو۔
چنانچہ حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا،یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! یہ قربانی کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تمہارے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔ صحابہٴ کرام نے عرض کیا: ہمیں قربانی سے کیا فائدہ ہوگا؟ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلمنے ارشاد فرمایا: ہر بال کے بدلے میں ایک نیکی ملے گی۔ صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! اون کے بدلے میں کیا ملے گا؟ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اون کے ہر بال کے بدلے میں بھی نیکی ملے گی۔ (سنن ابن ماجہ)
قارئین! اس بات کو ضرور یاد رکھیے ماہِ ذی الحجہ کا چاند نظر آتے ہی سب سے پہلا حکم بال اور ناخن کے نہ کاٹنے کا ہے۔حدیث شریف میں ہے:حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جب تم ذی الحجہ کا چاند دیکھ لو اور تم میں سے کسی کا قربانی کرنے کا ارادہ ہو، تو وہ اپنے بال اور ناخن کاٹنے سے رک جائے
اس حدیث کو پیش نظر رکھتے ہوئے فقہائے کرام نے فرمایا کہ قربانی کرنے والے کے لیے مستحب ہے کہ ذی الحجہ کا چاند نظر آنے کے بعد قربانی کرنے تک اپنے ناخن اور سر، بغل اور زیر ناف بال نہ کاٹے۔
واضح رہے کہ یہ (عمل) مستحب ہے واجب نہیں۔”مستحب” کا مطلب یہ ہے کہ اگر وہ کام کر لیا جائے تو ثواب ہے اور نہ کیا جائے تو کوئی گناہ نہیں ہے۔لہذا اگر کوئی اس پر عمل نہ کرے تو اس کو ملامت اور طعن و تشنیع نہیں کرنی چاہیے۔
عید الاضحی کے دن مذکورہ ذیل امور مسنون ہیں:صبح سویرے اُٹھنا، غسل ومسواک کرنا، پاک وصاف عمدہ کپڑے جو اپنے پاس ہوں پہننا، خوشبولگانا،نماز سے پہلے کچھ نہ کھانا،عید گاہ کو جاتے ہوئے راستہ میں بآوازِ بلند تکبیر کہنا۔ نمازِ عید دو رکعت ہیں۔ نماز عید اور دیگر نمازوں میں فرق صرف اتنا ہے کہ اس میں ہر رکعت کے اندر تین تین تکبیریں زائد ہیں۔ پہلی رکعت میں ’’سبحانک اللّٰہم ‘‘پڑھنے کے بعد قراء ت سے پہلے اور دوسری رکعت میں قراء ت کے بعد رکوع سے پہلے۔ ان زائد تکبیروں میں کانوں تک ہاتھ اٹھانے ہیں۔ پہلی رکعت میں دوتکبیروں کے بعد ہاتھ چھوڑ دیں، تیسری تکبیر کے بعد ہاتھ باندھ لیں۔ دوسری رکعت میں تینوں تکبیروں کے بعد ہاتھ چھوڑ دیئے جائیں، چوتھی تکبیر کے ساتھ رکوع میں چلے جائیں۔اگر دورانِ نماز امام یا کوئی مقتدی عید کی زائد تکبیریں یا ترتیب بھول جائے تو ازدہام کی وجہ سے نماز درست ہوگی، سجدۂ سہو بھی ضروری نہیں۔اگر کوئی نماز میں تاخیر سے پہنچا اور ایک رکعت نکل گئی تو فوت شدہ رکعت کو پہلی رکعت کی ترتیب کے مطابق قضاء کرے گا، یعنی ثناء ’’سبح انک اللّٰہم‘‘ کے بعد تین زائد تکبیریں کہے گا اور آگے ترتیب کے مطابق رکعت پوری کرے گا۔نمازِ عید کے بعد خطبہ سننا مسنون ہے۔ خطبہ سننے کا اہتمام کرنا چاہیے، خطبہ سے پہلے اٹھنا درست نہیں ہے۔
قربانی کے جانوروں کے متعلق قارئین!
بھیڑ، بکری، گائے، بھینس اور اونٹ (نر و مادہ) قربانی کے لیے ذبح کیے جاسکتے ہیں جیساکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : آٹھ جانور ہیں دو بھیڑوں میں سے اور دو بکریوں میں سے، دو اونٹوں میں سے اور دو گائیوں میں سے۔ (سورة الانعام)
جانور کی عمر کے متعلق قربانی کے جانوروں میں بھیڑ اور بکرا بکری ایک سال، گائے اور بھینس دو سال اور اونٹ پانچ سال کا ہونا ضروری ہے؛ البتہ وہ بھیڑ اور دنبہ جو دیکھنے میں ایک سال کا لگتا ہو اس کی قربانی بھی جائز ہے۔
نوٹ:دس، گیارہ، بارہ اور تیرہ ذی الحجہ ایامِ تشریق کہلاتے ہیں، اس میں روزہ رکھنا جائز نہیں ہے، اور ایک عید الفطر کا دن ہے، تو یہ سال میں کل پانچ دن ہوگئے، جس میں روزہ رکھنا مکروہ تحریمی ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس شخص کو قربانی کی وسعت حاصل ہو اور وہ قربانی نہ کرے تو وہ ہماری عید گاہ کے قریب نہ بھٹکے۔ (سنن ابن ماجہ)

بارِ الہ ہمیں جملہ باتوں پر عمل کرنے کی توفیق ارزانی عطافرمائے (آمین)