اسوۂ ابراہیمی سے آتش نمرود کو ٹھنڈا کر دے

ازقلم: محمد طاہر ندوی
امام و خطیب مسجد بلال ھلدی پوکھر

اسلام کے اصل معنی تسلیم و رضا کے ہیں۔ انسان اپنے آپ کو خالق کے حوالے کر دے۔ اپنی خواہشات کی لگام کو خدا کی رضا جوئی پر قربان کردے اور جب یہ عقیدہ انسان کی جان و مال سے آگے بڑھ کر آل و اولاد تک پہنچ جائے تو یہ بندگی کا کمال اور عبدیت کی معراج ہے۔ عبادت و بندگی کا یہ مقام و مرتبہ انسانیت کے جس گروہ کو سب سے بڑھ کر حاصل ہے وہ انبیاء علیہم السلام کی ذات ہے۔ انبیاء علیہم السلام زمین پر ہدایت کے چراغ ، مینارہ نور اور مشعل راہ کا درجہ رکھتے ہیں۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنی کتاب قرآن مجید میں جن دو نبیوں کی ذات و صفات ، اخلاق و کردار اور اوصاف و کمالات کو پوری انسانیت کے لئے نمونہ اور اسوہ قرار دیا ہے ان میں سے ایک رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات با برکت ہے اور دوسری شخصیت حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ کی رضا و خوشنودی کے لئے قربانی کی کوئی ایسی قسم نہیں چھوڑی جو آپ نے نہ دی ہو اور امتحان و آزمائش کی ایسی کوئی بھٹی نہیں جس میں آپ کا تپایا نہ گیا ہو۔
آپ کی زندگی اور سیرت کا اگر بغور مطالعہ کیا جائے تو ایسی بہت سی صفات و کمالات ، اخلاق و کردار ، عزیمت و استقامت ، اپنے خالق و مالک سے وفا شعاری ، عبدیت و بندگی ، خالق کی محبت میں مخلوق سے بے نیازی ، خود سپردگی ، شرک سے بے زاری ، دعوت حق کے لئے آپ کی جاں نثاری اور ایسے بہت سے کمالات تھے جن کی وجہ سے آپ کی زندگی کو مثالی نمونہ اور آپ کی شخصیت کو مثالی شخصیت قرار دیا گیا ہے۔
آپ کی سیرت و سوانح میں جو چیز سب سے زیادہ نمایاں تھی وہ شرک سے بے زاری اور توحید پرستی ہے۔ عراق کا معاشرہ مشرکانہ طریقہ زندگی کو اختیار کئے ہوئے تھا جہاں خدا اور خدا پرستی کے لئے کوئی جگہ نہیں تھی۔ انسان خود اپنے آپ میں ایک خدا تھا۔ ایسے میں آپ علیہ السلام کی شرک سے بے زاری اور توحید پرستی کے اعلان نے بے خدا تمدن کے پرستاروں کی محفلوں میں ایک قہر برپا کر دیا تھا ۔ پورا عراق کا معاشرہ چاہتا تھا کہ آپ بھی ان کے بے خدا تمدنی رنگ میں رنگ جائیں اور اپنی دعوت توحید سے باز آ جائیں لیکن آپ نے کفر و شرک کی آلودگیوں سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہوئے اپنی برأت کا اظہار کر دیا ۔ قرآن نے اس برأت کا اعلان اس طرح کیا ” اے میری قوم اللہ کے ساتھ جن کو تم شریک کرتے ہو میں ان سے اپنی برأت کا اعلان کرتا ہوں”( الانعام ) آپ کا یہ اعلان کرنا تھا کہ پورا عراق آپ کے خلاف ہو گیا۔ سازشیں کرنے لگے ۔ قتل کے منصوبے بنانے لگے۔ ملک سے نکالنے کی باتیں کہنے لگے لیکن اللہ کا یہ مرد خلیل ، استقامت و عزیمت اور ثابت قدمی و پائیداری کے ساتھ اپنے مشن پر لگا رہا۔

دوسری صفت جو آپ کے اندر نمایاں تھی وہ کامل اطاعت الٰہی کا جذبہ ہے۔ آپ نے خود کو پورے طور پر اللہ کی مرضی کے تابع کر دیا تھا ۔ آج اسلام کا مطالبہ بھی یہی ہے کہ مسلمان خود کو اللہ کی مرضی کے تابع بنا کر زندگی کا رخ متعین کریں جس طرح آپ علیہ السلام نے اپنی زندگی کے ہر گوشے کو اللہ کے حوالے کر دیا تھا آپ کی اسی کیفیت کو قرآن نے لفظ ” اسلام ” سے تعبیر فرمایا جب انسان کے اندر یہ کیفیت پیدا ہو جائے تو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ وہ اسلام میں پورے پورے داخل ہو چکا ہے۔

اسی طرح آپ کے اندر استغفار و انابت کی صفت بھی نمایاں تھی۔ ایک طرف آپ اپنی قوم کو توحید کی دعوت دیتے اور دوسری طرف حال یہ تھا کہ اللہ سے اپنی مغفرت کے ساتھ ساتھ اپنے والدین اور اپنی قوم کے لئے بھی دعا و استغفار کرتے۔ اسی طرح آپ اللہ کی نعمتوں کا بھی شکر ادا کرتے تھے۔ نعمتوں کے شکر کے سلسلے میں ایک بات یہ بھی سامنے آتی ہے کہ عام طور پر لوگ اس وقت شکر گزار ہوتے ہیں جب کوئی چیز انہیں وافر مقدار میں میسر ہو لیکن آپ کے اندر یہ بات تھی کہ آپ اس وقت بھی اللہ کے شکر گزار تھے جب آپ ابھی زیادہ انعامات الٰہی سے نوازے بھی نہیں گئے تھے۔ اسی طرح دعاؤں کا خوب اہتمام کیا کرتے تھے۔ قرآن میں ایسی بہت سی دعائیں منقول ہیں جو آپ نے مختلف اوقات میں مختلف دعائیں مانگیں تھیں۔ اسی طرح آپ کی عبادت گزاری کے بارے قرآن یہ شہادت پیش کرتا ہے کہ ” وہ ہمارے عبادت گزار بندوں میں سے تھے "۔ اسی طرح مہمان نوازی ، حلم و بردباری اور صداقت شعاری یہ سارے اوصاف و کمالات بھی نمایاں طور پر قرآن نے بیان کیا ہے۔

ان سارے اوصاف و کمالات میں جو چیز آپ کو سب سے زیادہ نمایاں کرتی ہے وہ آپ علیہ السلام کی توحید پرستی، شرک سے بے زاری اور کامل اطاعت الٰہی کا جذبہ ہے اور یہ ایسے صفات ہیں جس نے آتش نمرود کو ٹھنڈا کر دیا۔ باطل کو پارہ پارہ کر دیا۔ خود ساختہ خداؤں کو ریزہ ریزہ کر دیا۔ بے خدا تمدن میں با خدا تمدن کا تصور پیش کیا۔ مشرکانہ آب و ہوا میں توحید پرستی کا رس گھول دیا۔ مخالف سمتوں کا اپنے زور عمل سے رخ موڑ دیا۔ باطل عقیدوں کا منہ توڑ جواب دیا۔ خود سپردگی اور کامل اطاعت الٰہی کی ایسی مثال قائم کر دی کہ دنیا آپ کی عظمت کی قائل ہو گئی۔ دنیا کو توحید پرستی کا درس دیا اور شرک سے بے زاری کا مطلب سمجھایا۔ عبادت و بندگی کا کمال اور کامل اطاعت الٰہی کا جذبہ اگر موجود ہو تو تن تنہا حالات کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ کسی بھی طوفان کا رخ موڑا جا سکتا ہے۔ کسی بھی آندھی کو روکا جا سکتا ہے۔ کفر کے ایوانوں میں قہر برپا کیا جا سکتا ہے۔ ان کی نیندیں اڑائی جا سکتی ہیں اور کسی بھی آتش نمرود کو ٹھنڈا کیا جا سکتا ہے شرط ہے اسوۂ ابراہیمی سے خود کو مزین کرنا۔