گیت: ساونی

نیاز جیراجپوری علیگؔ
اعظم گڑھ یو۔پی۔


ایک تو یہ رِم جھِم کا موسم دُوجے سولہواں سال
جینا ہُوا محال
انگ انگ نے رنگ ہے بدلا بدل گئی ہے چال
دھرتی پر مَیں پَیر رکھوں تو آ جائے بُھونچال
حال ہُوا ہے ایسا میرا جِس کی نہیں مِثال
جینا ہُوا محال
سُلگ رہا ہے انگ انگ نَس نَس میں جاگی پیاس
مُجھے دِکھائے دِن میں تارے پِیا مِلن کی آس
ہُواہے کِھلتا یوّون باغی بُرا ہے میرا حال
جینا ہُوا محال
خواب کئی آنکھوں میں چھپائے دِل میں چھپائے راز
اِدھر اُدھر یُوں بھٹکوں جیسے بَن میں کوئی آواز
کِسی کا رستہ دیکھے جوانی رُوپ کے جُھولے ڈال
جینا ہُوا محال
جوالا مُکھی سُلگائے تَن میں ٹھنڈی ٹھنڈی پُھوار
جہاں پڑے پرچھائیں میری دہک اُٹھیں انگار
رنگ مِری دھانی چُنری کا ہونے لگا ہے لال
جینا ہُوا محال
اُٹھے ہُوک ایسی سینے میں سانس مِری رُک جائے
کمر پہ چوٹی رستہ بُھولی ناگن سی لہرائے
مُجھے مار ڈالے گا ساون چل کر کوئی چال
جینا ہُوا محال
چھوڑ کے تنہا بھری جوانی میں جو گیا پردیس
یاد مجھے جب اُس کی آئے دِل پہ لگے یُوں ٹھیس
ہری بھری کھیتی میں چلائے جیسے کوئی کُدال
جینا ہُوا محال
پِیا بِنا سونے سی جوانی ہوتی جائے راکھ
پِیا کی بانہوں میں ہو جِسکی قیمت لاکھوں لاکھ
جیوتی کلش سی کایا میری ہونے لگی کنگال
جینا ہُوا محال