تحریر: محمد قاسم ٹانڈؔوی
ہمارا ملک ایک ایسے دور سے گزر رہا ہے، جہاں ملک کے ہر بالغ و باشعور باشندہ کو ایک طرف تو اپنے اس پیارے وطن کی سلامتی کی فکر ستا رہی ہے تو وہیں دوسری طرف اس کے ذہن و دماغ پر یہ نقش و خیال بھی ثبت ہوتا رہتا ہے کہ ہمارا یہ ملک روشن مستقبل کا حامل اور پایہ دار ترقی کا دعویدار کیسے بن سکتا ہے؟ جبکہ اندرون ملک قدم قدم پر باہمی منافرت اور مذہبی شدت پسندی کا ایسا لاوا دہک رہا ہے، جو کبھی بھی سونامی طوفان کی مانند تباہی و بربادی کا منظر پیش کر سکتا ہے اور ملک کے تانے بانے کو خاکستر کر دینے والا ثابت ہو سکتا ہے۔ اوپر سے سرکار کے ماتحت افسران کی تحقیقاتی ٹیمیں اور تفتیشی ایجینسیوں ہیں، جو اپنے الگ ہی زاویہ اور انداز سے کام کرتے نظر آ رہی ہیں۔ اس کے بعد حکومت کا یہ دعوی کرنا کہ: ہمارا یہ ملک "وِشو گرو” بننے کے ایک دم قریب ہے؛ بےمعنی اور فضول لگتا ہے۔ اس کے علاوہ سرکار کے ان دعوں کی حقیقت و صداقت پر حرف نفی کا لیبل لگنا اس وقت بھی درست سمجھا جانا چاہئے کہ موجودہ وقت میں ہمارا یہ ملک جس انداز سے اپنی خاص منزل اور ایک مخصوص نظریہ کی طرف تیزی سے رواں دواں ہے، اس نظریہ اور منزل کے تئیں ہر کسی کو اس بات کا شدت سے احساس ہے کہ اگر انصاف پسند عوام اور جمہوریت کے علم بردار اشخاص بروقت میدان میں آ کر اس خاص نظریہ کی مخالفت نہیں کرتے ہیں اور ان کی خصوصی جد وجہد پر بندش و روک لگانے کی پہل نہیں کرتے ہیں تو ہمارا یہ ملک ایک بڑے بھاری نقصان سے دوچار ہوگا۔ اس کے بعد ہونے والے اس نقصان کے تمام تر ذمہ دار وہی لوگ ہوں گے جو آج پریس کانفرنس اور عوامی سطح پر حکمت سازی اور مصلحت پسندی کی باتیں کر رہے ہیں اور عوام کو صبر و تحمل سے کام لینے کا درس دے رہے ہیں۔
فی الوقت حکمراں جماعت کے سامنے کانگریس سمیت دیگر تمام اپوزیشن پارٹیز کی حالت خستہ ہونے کی وجہ سے ان کی سیاست بےدم اور ڈھل مل نظر آ رہی ہے، یہی وجہ ہے کہ ملکی اقتدار پر فائز عہدے داروں کے وارے نیارے ہیں اور ان کی طرف سے انجام دی جا رہی سیاسی سرگرمیاں آئے دن نئے پینترے میں ملبوس نظر آتی ہیں۔ جس سے کبھی تو ملک کی جمہوریت پامال ہوتی ہے اور کبھی سیاسی اقدار و روایات کو پیروں تلے روند دیا جاتا ہے۔ ایسے وقت میں اگر کوئی صاحب ظرف و نظر اور جمہوریت کا حقیقی محافظ پامال ہوتی جمہوریت اور توہین سیاست پر لب کشائی کرتا ہے اور حکومت کو آئینہ دکھاتا ہے تو اسے حکومت مخالف اور غدار وطن قرار دے کر پابند سلاسل کر دیا جاتا ہے؛ تاکہ آئندہ کوئی اس جیسی ہمت و شجاعت نہ کرسکے اور حکومت کے مقابل کھڑے ہونے کی جسارت نہ کر سکے۔ نیز اس کے مثبت و مفید کارناموں کو بےاثر کرنے اور دیگر حق پرستوں اور انصاف پسندوں کو کم ہمت کرنے کی بھرپور کوشش کی جاتی ہے۔
مگر افسوس! جو لوگ حقیقتا ملک کے تانے بانے کو منتشر کرنے اور عوام کے درمیان فتنہ پروری و شرانگیزی کرنے والے ہوتے ہیں، ان کو کھلی آزادی فراہم کر دی جاتی ہے۔ ان کی نفرت بھری سیاست اور اندھی عقیدت کا عالم یہ ہے کہ: ان کی شرپسندی اور منافرت کے چلتے ہمارے درمیان سے برسوں پرانی اقدار و روایات مٹتی چلی جا رہی ہیں اور آپسی بھائی چارہ کو گہن لگتا جارہا ہے؛ جو انتہائی فکر و تشویش کا پہلو اور تجدید احیاء سیاست کا حامل امر ہے۔
آج جو لوگ شرپسندی اور نفرت انگیز مواد کو استعمال کر رہے ہیں، ان کی غیر انسانی و غیر قانونی حرکات و سکنات کو دیکھ کر اور آئے دن پیش آنے والے نازیبا واقعات و حادثات کو سن کر بعض مرتبہ تو ایسا محسوس ہونے لگتا ہے جیسے ملک کے اقتدار پر کسی سیاسی جماعت کی حکمرانی قائم ہے ہی نہیں، کیوں کہ ہم میں سے ہر ایک اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے کہ ملک کے کسی بھی خطے اور علاقے میں ظلم و زیادتی پر مبنی اگر کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے تو پیش آمدہ معاملے کی تحقیق و تفتیش میں لگنا اور نفرت و تشدد کی آگ لگانے والوں کو گرفتار کرکے انہیں کیفردار تک پہنچانا، حکومت کی اولین ذمہ داری بنتی ہے تک کسی لیڈر و افسر کی طرف سے کوئی حکم صادر نہیں کیا جا رہا ہے؟
گذشتہ آٹھ سالوں سے جس طرح ہمارے اس ملک کے اقلیتی طبقات کے لوگ طرح طرح کے مصائب و آلام اور اکثریتی فرقہ سے وابستہ افراد کا ظلم و بربریت کا شکار ہیں، وہ اپنے آپ میں ایک مثال ہے۔ کیوں کہ حالات اس قدر غیرمطمئن اور ناقابل اعتبار بنے ہوئے ہیں کہ کوئی شریف و معزز آدمی گھر سے دور اور تنہا جاتے ہوئے بھی ڈر محسوس کر رہا ہے، اس لیے کہ فرقہ پرست ٹولہ کو اگر کہیں دھوکہ سے بھی کوئی داڑھی ٹوپی اور اسلامی نام والا یا غیر ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والے کی شکل میں شناخت ہو جاتی ہے تو اس پر عرصہ حیات تنگ کر دیا جاتا ہے، اور اس کو اپنے مذہبی نعروں کی ادائیگی پر مجبور کر دیا جاتا ہے، عدم ادائیگی کی صورت میں مار پٹائی، قتل اور زندہ جلانے کی خبریں اخبار میں آتی رہتی ہیں۔ بعض تجارتی مقامات اور شہروں سے مسلمانوں کے بائیکاٹ اور ان سے لین دین کی ممانعت کی خبریں بھی شدت پسندوں کی طرف سے جاری کرنے کی ملتی رہتی ہیں۔ اسی طرح مسلمانوں کو غدار وطن کا طعنہ اور ان کو ملک بدر کرنے کی دھمکی آمیز خبریں بھی آئے دن اخبارات کی زینت بنی نظر آتی ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں سے زیادہ نہ کوئی اس ملک کا وفادار ہے اور نہ ہی کوئی ہمدرد و خیرخواہ اور ملک کی سلامتی و خودمختاری کے تئیں حساس و فکرمند۔ آج بھی جب کوئی سنگین قسم کا مسئلہ درپیش ہوتا ہے تو سب سے پہلے مسلمان اپنی جان و مال لےکر حاضر ہوتا ہے اور حکومتی اداروں کے ساتھ مل کر ہرممکن کوشش کرتا ہے۔ مسئلہ حالت جنگ کا ہو یا بحالت امن، قدرتی آفات سے نم
ٹنے کا ہو یا اندرونی خلفشار اور آپسی اختلاف و انتشار کو درست و بحال کرنے کا؛ ہر جگہ اور موقع پر مسلمان ہی آگے آگے نظر آتا ہے۔ باوجود اس کے پھر بھی اس کی مسلمانی اور حب الوطنی شک کے دائرے سے باہر نہیں آتی اور قومی و ملکی پیمانے پر اسے جو مقام حاصل ہونا چایئے، وہ نہیں ہے، اسی طرح عدل و انصاف سے محروم اور عدم مساوات کا شکار کوئی قوم ہے تو وہ مسلم قوم ہے۔ اس قوم کی تعلیمی، معاشی اور سیاسی بےحیثیتی کی یہی دو اصل وجہیں ہیں۔ جب تک ان دونوں وجہوں کو اس قوم کے حق میں بہتر و مفید نہیں بنایا جائےگا، ملک و ملت کا بھلا ہونے والا نہیں ہے۔