ازقلم: ابن الفظ، جھارکھنڈ
میری ڈائری: سفر نامہ دہلی (قسط نمبر ٣)
سٹیشن سے جامعہ نگر عظیم ڈیری پہنچے جہاں پر ہمارے ایک قدیم ساتھی اور کلاس میٹ مولانا وسیم لطیف ندوی صاحب ( امام و خطیب مسجد چنئی) نے ایک کمرہ کرایہ پر لے رکھا تھا غسل مسنون سے فارغ ہوکر عشائیہ کیلے ہوٹل پہنچے میری آنکھوں کے سامنے شہر کا پورا نظارہ تھا ارد گرد فلک بوس عمارتیں خوبصورت منظر بکھیر رہی تھیں گلی کوچوں میں گاڑیوں کا آواگون اور پھر خلقت کا ہجوم میری آنکھوں کو خیرہ کررہی تھیں لیکن کچھ دور چلنے کے بعد یہ اندازہ ہوا کہ شہر میں زندگی گزارنا ہم جیسے علاقائی افراد کیلیے قیامت صغری سے کم نہیں،
یہ اور بات کہ مجھے شہروں کی آرزو ہے
میں خود پہ کررہا ہوں ویرانیاں مسلط
ہر علاقائی کے دل میں شہر کی آرزو موجزن رہتی ہے شہر کا نام سن کر دل مچلنے لگتا ہے لگتا ہے شاہین بن جاؤں اور شہر کے درختوں پر اپنا گھونسلہ بنا لوں، شھری مزاج بھی مختلف ہوتا ہے شہری باشندے علاقائی اور دیہی باشندوں کو کمتر اور حقیر سمجھتے ہیں لیکن صحیح بات یہ ہے کہ شہر ی زندگی کے مقابلہ میں دہی علاقے کئی معنوں میں پرسکون ہوتے ہیں،
غالباً یہی وجہ ہوگی کہ پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پرورش شہری زندگی سے دور دیہات میں ہوئی اس لیے کہ گاؤں دیہات کی ہر چیز میں اطمینانیت ہے کلچر بھی پرسکون ثقافت بھی پرنم فضا بھی نظافت سے سرشار باد نسیم کی عطر بیزی بارشوں کا لطف موسموں کا اتار چڑھاؤ چہل قدمی کیلے کشادگی سیر و سیاحت کیلے جگہوں کی وسعت یہ سب وہ نظارے ہیں جو شہری زندگی میں معدوم ہیں،
اس کے برعکس شہر میں جہاں خوبیاں ہیں خامیاں بھی ہیں یہاں قدم قدم پر گلچھرے زمین سے اڑتی دھول فضا کی آلودگی راستوں کا کراؤڈ راہ گیروں کا ہجوم تنگئ مکاں الغرض ایک آزادانہ زندگی کیلیے شہر کسی بھی طرح سے آرام دہ نہیں نظر آتا خوبیاں تحریر کرنے کی ضرورت نہیں سب کے سامنے عیاں ہیں،
بہر حال مجھے کافی دشواریوں کا سامنا ہے لیکن کامیابی دشواریوں میں ہی پنہاں ہیں یہ قرآنی دستور ہے اس سے کسی کو بھی مفر نہیں،
دہلی جو کہ ہمارے وطن عزیز کی راجدھانی ہے ہر ہندوستانی یہاں کی زیارت کا خواستگار ہے ساتھ ساتھ تاریخی حیثیت سے بھی سب سے نمایاں ہیں ، بس اللہ اس کو سلامت رکھے،
ان شاءاللہ تاریخی حیثیت اگلی قسطوں میں رقم کی جائے گی
تب تک کیلے خدا حافظ،
نوٹ۔ میری اس تحریر سے سب کا اتفاق ضروری نہیں،